• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت راولپنڈی ڈویژن کی جانب سے ہفتے کی رات گیارہ بجے قومی اسمبلی کے حلقہ ساٹھ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کے خلاف چھ سال سے جاری ایفی ڈرین کیس میں عمر قید اور پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے نااہلی کے فیصلے پر کئی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں انتخابی عمل پر لوگوں کا اعتماد متاثر ہوسکتا ہے۔ متعدد ماہرین اور مبصرین کے مطابق یہ ایک کمزور فیصلہ ہے اور اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی صورت میںاس کی منسوخی یا معطلی کا قوی امکان ہے لیکن انتخابی عمل میں تو اب بہرصورت حنیف عباسی کی شرکت ممکن نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف نے بھی انسداد منشیات عدالت کے اس فیصلے کی ٹائمنگ کو خاص طور پر ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے نا انصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ہفتے کی صبح راولپنڈی بار سے خطاب نے جس میں انہوں نے خفیہ اداروں پر مختلف حساس مقدمات میں مرضی کے بنچ بنوانے کیلئے عدلیہ پر دباؤ ڈالے جانے کے الزامات عائد کیے، احتسابی اور انتخابی عمل کے حوالے سے بڑے سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں ۔ ان ہی واقعات و حالات کے باعث گزشتہ روز سینیٹ میں بھی کئی ارکان کی جانب سے انتخابی عمل کے غیرجانبدارانہ ہونے کے حوالے سے سخت بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا۔ میاں رضاربانی، شیری رحمن،پرویز رشید، راجہ ظفر الحق و دیگر نے نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخابات کی ساکھ مشکوک اور دو پارٹیاں نشانہ ہیں، ووٹرز اور امیدواروں پر دبائو ڈالا جارہا، نگراں حکومت مکمل جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ اسے کہیں سے کچھ کہا جا رہا ہے، دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ایک جماعت کو آگے لانے کیلئے سارے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، پوری دنیا کی نظریں پاکستان کے انتخابات پر ہیں ، الیکشن کی ساکھ کا اثر پاکستان کی ساکھ پر پڑے گا، کالعدم تنظیموں کے افراد ایوان میں آگئے تو ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے، اگر انتہا پسندوں کے نمائندے پارلیمنٹ میں آگئے تو پھر کسی کو یہاں سانس لینے کی اجازت نہیں ہوگی، کالعدم جماعتوں کے لوگوں کوفورتھ شیڈول سے نکالا گیاکہ الیکشن لڑسکیں۔‘‘ انتخابی عمل پر ان خدشات کے ظاہر کیے جانے کے باوجود یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ ، فوج اور وفاق اور صوبوں کی نگراں حکومتیں مسلسل اس امر کی یقین دہانی کراتی چلی آرہی ہیں کہ مکمل طور پر منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں گے۔ ان حوالوں سے ظاہر کیے جانے والے متعدد تحفظات کا ان اداروںنے ازالہ بھی کیا ہے ، سب سے اہم بات یہ کہ بعض حلقوں کی جانب سے انتخابات مؤخر کرنے کی شدید خواہش اور پرزور مطالبے کے باوجود انتخابات ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیے گئے ہیں۔نیب نے بھی آصف زرداری اور بعض دوسرے سیاستدانوں کے خلاف انکوائریوں کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کرکے انہیں انتخابی عمل میں شرکت کا موقع فراہم کیا ہے۔لیکن یہ اندیشہ بھی وزن رکھتا ہے کہ حنیف عباسی کے خلاف فیصلے پر رونما ہونے والا ردعمل، جسٹس شوکت صدیقی کا خطاب اور ارکان سینیٹ کا اظہار خیال رائے عامہ پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرے گا۔ تاہم دو ایک مخصوص واقعات کو پورے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کا سبب نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔ ان حوالوں سے معقول اور مدلل وضاحت کے علاوہ ضروری ہے کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن، نگراں حکومتیں اور عسکری قیادت سب انتخابی عمل کو مکمل طور پر پرامن، شفاف، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور کسی بھی جانب سے اس پر انگلی اٹھانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دیں اور اس مقصد کیلئے جو فیصلے اور اقدامات بھی ضروری ہوں انہیں روبعمل لانے میں کسی کوتاہی کو حائل نہ ہونے دیں۔

تازہ ترین