• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ مذاق مذاق میں، میں آدمی سے بکرا بنا دیا جاﺅں گا۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ پیر سائیں صاحبِ کرامات و موجزات ہوتے ہیں۔ میں اس دن کو کوسنے لگا جب احباب کے اسرار پر میں نے پیر سائیں کے ہاں جانے کی حامی بھر لی تھی۔ میں خود پر لعن طعن کرنے لگا کہ کیوں میں نے پیر سائیں سے کہا تھا کہ مجھے بکرا بنا دیں۔ اگر مجھے ذرّہ بھر بھی پیر سائیں کی کرامات پر یقین ہوتا، تو میں ان سے عرض کرتا کہ مجھے آدمی سے صدر پاکستان بنا دیں ! میں ان سے کہتا کہ مجھے وزیر داخلہ بنا دیں تاکہ میرا گھناﺅنا ماضی داخل دفتر ہو جائے! چڑیاﺅں کے چگنے کے لئے میرے پاس کھیت نہیں تھے لہٰذا پچھتانا فضول تھا۔ مجھے اپنی جہالت اور لاعلمی پر غصہ آرہا تھا کہ میں پیر سائیں کی کرامات سے کیوں بے خبر تھا؟ جب پیر سائیں بکرے، مینڈھے، دنبے اور بیل کو صدر پاکستان، وزیراعظم، وزیراعلیٰ بنانے کا کرشمہ دکھا سکتے ہیں اور کرشمہ کپور کو پاکستان بلا سکتے ہیں تو پھر وہ مجھے آدمی سے بکرا کیوں نہیں بنا سکتے!
بکرا منڈی میں جہاں عید قربان کے لئے جانوروں کے خریداروں کی بھیڑ تھی ، میں ، کف نا ہونے کے باوجود کف افسوس مل رہا تھا۔ مجھے پیر سائیں سے پنگا نہیں لینا چاہئے تھا۔ میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا”پیر سائیں مجھے معاف کر دو، پیر سائیں مجھے معاف کر دو۔ میں آپ کے کرشموں کا قائل ہو چکا ہوں مجھے معاف کردیں پیرسائیں“۔
چرواہے یا گڈریا نے، جسے میں ڈینٹسٹ سمجھنے کی بھول کر بیٹھا تھا اس نے چلا کر اپنے لڑکوں سے کہا ” دیکھو تو یہ بڈھا بکرا کیوں میں، میں کر رہا ہے؟“
گڈریے کے لڑکے دوڑتے ہوئے آئے۔ انہوں نے پیار سے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ۔ مجھے چارہ ڈالا اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ایک لڑکے نے کہا ”لگتا ہے یہ بڈھا بکرا بھٹک کر ہمارے ہاں آگیا ہے“۔ ایک لڑکے نے کہا ”یہ بھانپ گیا ہے کہ یہاں ہم جانوروں کو کھانے کے لئے اچھی خوراک دیتے ہیں،گھس آیا ہے ہمارے ہاں“۔
سب سے چھوٹے بچے نے پوچھا ”اسے خریدے گا کون؟“
بڑے لڑکے نے جھٹ سے کہا ”اسے کوئی مریل سا بڈھا خریدے گا“۔
دوسرے بچے نے حیران ہو کر پوچھا ”بڈھے بکرے کو بڈھا گاہک کیوں خریدے گا؟
بڑے بچے نے چھوٹے بچے کے کان مروڑتے ہوئے کہا ”کوئی بڈھا، جوان اور طاقتور جانور پر بیٹھ کر پل صراط پار کرنے کا رسک نہیں لے گا“۔
اتنے میں گڈریا یا چرواہا ایک کرخت ہٹے کٹے شخص کو لے آیا۔ پولیس کا کوئی کارندہ تھری پیس سوٹ پہنے، ٹائی لگائے، اس کے ماتھے پر جیسے لکھا ہوتا ہے”میں پولیس والا ہوں“۔
میری پیٹھ پر ہاتھ پھرتے ہوئے گڈریے نے کہا ”ایس ایچ او صاحب کے لئے یہ کہنہ مشق بکرا لے جاﺅ“۔
اکھڑ سپاہی نے میرا منہ کھولا، میرے دانت دیکھتے ہوئے اس نے کہا ”اس کے کئی دانت ٹوٹے ہوئے ہیں جو بچ گئے ہیں ان میں کیڑا لگا ہوا ہے۔ اس کی دو داڑھیں ہل رہی ہیں ، اور دو میں فلنگ ہے۔ ایسے ناقص بکرے کی قربانی جائز نہیں ہے“۔
”تم کون سا جائز کمائی سے بکرا خریدنے آئے ہو“ گڈریے نے ہنستے ہوئے کہا ”جب سے منڈی لگی ہے تم روزانہ ایک بکرا اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے مفت لے جاتے ہو“۔
”میں نے اپنے لئے صرف چار بکرے رکھے ہیں“ سپاہی نے کہا ”باقی بکرے جوں کے توں ایس ایچ او صاحب تک پہنچا دیئے ہیں“۔
گڈریے نے پوچھا ”تمہارے ایس ایچ او کیا بکروں کا جلوس لیکر پل صراط پار کریں گے؟“
”یار تم پینڈو کے پینڈو ہو“ سپاہی نے کہا ”ایس ایچ او کو اپنے افسران اعلیٰ تک مال پہنچانا پڑتا ہے“۔
سپاہی مجھے پولیس وین میں ڈال کر ایس ایچ او صاحب کے گھر لے گیا۔ وین میں میرے علاوہ دس بارہ اور بکرے بھی تھے۔ کوٹھی کے پچھواڑے میں بہت بڑا احاطہ تھا۔ احاطہ میں بے شمار بکرے، کچھ بیل اور دو اونٹ کھڑے تھے۔ بکروں کے درمیان گھومتے ہوئے میں نے ایک معقول بکرے سے پوچھا ”یہ دو اونٹ کس کے لئے لائے ہیں؟“
”پاکستان میں دو سب سے زیادہ طاقتور حاکم ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں مگر مسکرا کر ملتے ہیں“۔ معقول بکرے نے کہا ”یہ دو اونٹ ان اعلیٰ ترین افسران کہیں یا حاکم، ان کو بھیجے جائیں گے“۔
میں نے حیرت سے معقول بکرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”یار تم مجھے دانشور بکرے لگتے ہو“۔
اتنے میں ایس ایچ او اپنے حواریوں کے ساتھ احاطہ میں آیا۔ آئے ہوئے نئے مال کا جائزہ لیتے ہوئے وہ میرے پاس آیا۔ میرا حلیہ دیکھ کر اس نے سپاہی سے کہا ”ابے یہ کھڑوس بکرا کہاں سے لے آئے ہو؟ اس کے سینگ بھی ٹوٹے ہوئے ہیں؟“
سپاہی نے ادب سے کہا ”سر، پچھلی جنگ عظیم میں ہٹلر کے بکروں سے لڑتے ہوئے اس کے سینگ ٹوٹ گئے تھے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کا غازی ہے“۔
”یہ بڈھا بکرا آج ہی ریٹائرڈ ڈی آئی جی کارتوس خان کو دے آنا“ ایس ایچ او نے سپاہی سے کہا ”کارتوس خان آج کل کراچی میں امن و امان کے لئے وزیر اعلیٰ کے مشیر خاص ہیں“۔
مجھے وزیراعلیٰ ہاﺅس لے جاتے ہوئے راستے میں سپاہی کی نیت بدل گئی۔ مجھے میرے ٹوٹے ہوئے سینگوں سے پکڑتے ہوئے سپاہی نے کہا ”بڈھے بکرے ، میں تجھے قربان کرنے کے لئے پیر سائیں کو دے آﺅں گا۔ اس کی دعاﺅں سے میں سپاہی سے ایس ایچ او بن جاﺅں گا“۔
سپاہی مجھے پیر سائیں کے حضور لے آیا۔ چھلانگ لگا کر میں پیر سائیں کے قدموں میں گر پڑا۔ ادب سے بیٹھے ہوئے پیر سائیں کے معتقد ڈنڈے لیکر کھڑا ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ پر ڈنڈے برساتے، پیر سائیں نے ہاتھ کے اشارے سے ان کو روکا۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھراتے ہوئے کہا ”مزاج ٹھکانے آگئے؟“
اثبات میں سر کو جنبش دیتے ہوئے میں نے اپنا ماتھا پیر سائیں کے پیروں پر رکھ دیا۔ پیر سائیں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ”اور کوئی معجزا دکھاﺅں؟“
میں نے نفی میں سر کو جنبش دی۔ سینگوں کے درمیان میرے سر پر مور پنکھ رکھتے ہوئے پیر سائیں نے پوچھا ”اب تجھے پھر سے آدمی بنا دوں؟“
اگلے دونوں سم جوڑتے ہوئے میں نے اثبات میں سر کو جنبش دی ۔ پیر سائیں کے اشارے پر دو مریدوں نے مجھے سفید چادر سے ڈھانپ دیا۔ میں تھر تھر کانپنے لگا۔ کچھ دیر بعد مریدوں نے چادر کھینچ لی۔ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میں بکرے سے آدمی بن چکا تھا۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ کیوں سیاستدان، افسران اور حاکم وقت پیر سائیوں کے معتقد ہوتے ہیں۔ پیر سائیں چاہیں تو گدھے کو گھوڑا، گھوڑے کو خچر اور خچر کو آدمی اور آدمی کو آپ کے سر پر بٹھا سکتے ہیں۔
تازہ ترین