• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک اور الیکشن دو دن بعد ہونے والے ہیں جو ماضی کے ہر الیکشن کی سیاسی سرگرمیوں سے ہر لحاظ سے مختلف بھی اور قومی نقطہ نظر سے پریشان کن بھی، جس میں مسلم لیگ(ن) پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی قابل ذکر پارٹیاں ہیں، جبکہ دینی جماعتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آئندہ انتخابات کے حوالے سے قومی المیہ دیکھیں کہ جن کروڑوں رائے دہند گان کی سپورٹ سے انہیں کامیابی حاصل کرنی ہے وہ انہیں نظرانداز کرکے الزام تراشی اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ یہ وطیرہ سب سیاسی جماعتوں نے اپنالیا ہے، جس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ انہیں پاکستان اور عوام کے معاشی مسائل اور عالمی سطح پر بگڑنے والے امیج کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں حیران کن بات یہ ہے کہ سابق حکومت کا پانچ سالہ اقتدار مئی میں ختم ہوتا ہے، مگر اس سے کئی ہفتے پہلے ہی عالمی سطح پر بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کے انتخابات، عدلیہ اور پاک فوج کو متنازع بنانے کی کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، امریکہ اور لندن کے تقریباً بڑے معروف اخبارات میں جاری ہے اور یوں لگتا ہے کہ انتخابات فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں پرامن ہوجائیں گے۔ یہاں 1979ء کے بھٹو صاحب کے دور والے انتخابات کے پس منظر کے حوالے سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو کھڑا کیا جاسکتا ہے جس کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کا مزید ستیاناس ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں ہمارے قومی اداروں کا بھی قصور ہے کہ ان کی طرف سے کوئی موثر اقدامات نہ کئے جانے کے باعث اس عمل کو متنازع بنانے کا سلسلہ تیز تر رہا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ انتخابات کے بعد اس امر پر سوچنا ازحد ضروری ہے، کیا پاکستان کے امیج کو خراب کرنے سے ان عناصر کو نقصان نہیں ہوگا۔ یقینی طور پر ہوگا مگر کیا کریں! اللہ ہی ہم سب پر رحم کرے۔ اس پریشان کن صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نگراں حکومت بڑی خاموشی سے معاشی سیکٹر میں وہ وہ کام کررہی ہے جس کا مینڈیٹ اس کو حاصل نہیں ہے۔ کبھی روپے کی قیمت میں کمی کی جارہی ہےاور کبھی پٹرول، ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ! اب تو ایسے لگ رہا ہے کہ نئی حکومت کو آتے ہی سیاسی سے زیادہ معاشی شعبہ میں گمھبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر پاکستانی کرنسی کی قیمت اس وقت سائوتھ ایشیا کے مختلف ممالک کی نسبت پریشان کن حد تک کمی ہوچکی ہے۔ ایک ڈالر کے مقابلہ میں افغانی کرنسی 73 روپے، بھارتی روپیہ 70روپے(جو 2008 میں 36-39روپے تھا) بنگالی ٹکہ 84روپے، پاکستانی روپیہ 128 روپے ( 2008ء میں اس کی قیمت 60روپے تھی) یہ سب کام ایسے وقت کئے جارہے ہیں۔ جب نظر آرہا ہے کہ نئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس 5ارب ڈالر کے نئے قرضہ کے حصول کیلئےجانےکے سواکوئی چارہ نہیں ہے اور اس سے پہلے نئےبجٹ کی باتیں بھی شروع کردی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی حکومت عوام کو آتے ہی کوئی ریلیف نہیں دے سکے گی البتہ مہنگائی، غربت اور بےروزگاری کا تحفہ قرار دے گی۔
دوسری طرف اب حالات ایسے پیدا کردئیے گئے ہیں کہ اس کے علاوہ امریکی ڈالر کی قیمت 128روپے سے بڑھ کر دو مرحلوں میں 140روپے سے بھی آگے لے جانے پر کام ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کے عوام کے معاشی مسائل میں اضافے کے لئے طرح طرح کے کارنامے انجام دے رہےہیں، کیا انہیں پاکستان کا درد نہیں ہے، کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کی زندگی کتنی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت قومی اقتصادی ایشوز کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی تیارکریں اور چارٹر آف اکانومی کی ایسی دستاویز پر اتفاق کریں جس کا تعلق پارلیمنٹ سے تو ہو مگر سیاسی بیان بازی یا مقاصد سے نہ ہو،اگر سیاسی جماعتیں ایسا نہ کرسکیں تو پھر انہیں عوام سے ووٹ لینے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ عوام کو ان کو ووٹ دینے کی طرف سوچنا ہوگا۔ پاکستان میں مضبوط جمہوری نظام اور معاشی فرنٹ پر اصلاحات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا ووٹ جس کو بھی جائے ، اس پارٹی کامنشور ان کے معاشی مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں ہو تب کوئی فیصلہ کریں۔ پاکستان میں تو معاملہ یہ ہے کہ یہاں ذات برادری کی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے اور اقتصادی فرنٹ پر غیر ملکی اداروں کے نام نہاد شہریوںکو لاکھوں روپے کی مراعات دے کر رکھ لیا جاتا ہے جن کا پاکستان کی اکانومی یا حقیقی معاشی ایشوز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسلئے سیاسی قائدین مل بیٹھ کر اقتصادی ایشوز پر اتفاق رائے کریں اور اس سلسلہ میں اقتصادی ایمرجنسی کے آپشن پر بھی کئی حلقوں کی طرف سے رائے دی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکنامک مینجمنٹ سے یہ مسئلہ زیادہ اچھے طریقے سے حل ہوسکتا ہے۔ اس سارے پس منظرمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ کرے 25جولائی کے الیکشن پرامن اورخوشگوار ماحول میں ہوجائیں۔ پھر سب سیاسی دکانداری چمکانے کی بجائےانتخابی نتائج کو ماننے کی روش ختم کریں جیسا کہ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ہوتا ہے۔اس کے لئے ملک میں نئی حکومت کو ملک میں ہر سطح پر تعلیم کو لازمی قرار دینے کے لئے سب سے پہلے اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ تعلیم ہی سے شعور آتا ہے اور شعور ہی سےاچھےبرےکی پہچان میں مدد ملتی ہے۔ یہ موقع اب نئی حکومت کو مل رہا ہے جو بھی پارٹی کامیاب ہو وہ اپنے سفر کا آغاز لازمی اور مفت تعلیم کے اقدام سے کرے، جو عملی طورپر نافذ ہو۔ ویسے تو نئی حکومت جوکہ وسط اگست کے قریب قائم ہوجائے گی وہ کوئی اچھے ماحول یا حالات میں نہیں بن رہی۔ اسے اپنے پیکیج میں کئی مشکلات پہلے سے مل رہی ہیں اور کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کا حل اچھی گورننس اور منصفانہ معاشی نظام کے آغاز سے ہی ممکن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین