• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی صاحب نے زرداری، نواز شریف کو مشورہ دیا ہے دامن کی صفائی تک الیکشن نہ لڑیں۔
مشورہ تو اچھا ہے اور مفت بھی پھر یہ کہ بازار میں ایسے ایسے واشنگ پاﺅڈر آچکے ہیں کہ داغ دولت تو کجا داغ الفت بھی دھو ڈالتے ہیں اور جب دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں ”اللہ دیاں اللہ ہی جانے “ لیکن خان صاحب کے دامن پر تو کجا ان کے کالر پر بھی کوئی داغ نظر نہیں آتاکیوں نہ اس بے داغ کو بھی داغ کا یہ شعر سنادیں
پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں
جلاکے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں
ان دنوں کیمرے کے سامنے جتنے چہرے نظر آتے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ کا چہرہ بالکل دل جلوں جیسا نظر آتا ہے، میاں صاحب وڈے کا رخ زیبا ایک انجانی سی معصومیت کی جھلک دیتا ہے اور زرداری جب کیمرے کے سامنے آتے ہیں تو کیمرے اس قدر ہنستے ہیں کہ ان کے سامنے کے سارے دانت گنے جاسکتے ہیں۔ یہی موتی دانت اور لعل یمن ہونٹ ہی تو ہیں جو خوبرویان پی پی کی امنگوں کا مرکز ہیں۔ نگاہوں کا مرکز بننا تو دور کی بات ہے الیکشن لڑنا کوئی مرغ یا کتے لڑانا نہیں کہ ان پر عدم جواز کا فتوی لگایا جاسکے۔ اس لئے ہاشمی صاحب یہ فتویٰ واپس لے لیں اور سب کو سامنے آنے دیں ، تقابل کے بغیر حسین کہلانے کا فائدہ کیا، آخر میں یہ کہتے چلیں کہ عمران خان کے چہرے پر غریبوں کے چہروں کی جھریاں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔

منظور وٹو کہتے ہیں ن لیگ والوں کو جدہ سمیت کہیں بھاگنے نہیں دینگے۔
وٹو صاحب تو ”بڑے حضرت صاحب“ کی چھتری تلے یہ فرمارہے ہیں کہ ن لیگ والوں کو جدہ سمیت کہیں بھاگنے نہیں دینگے جبکہ جاتی عمرہ سے دمادم جوابی صدا بلند ہورہی ہے۔ بھاگ فقیرے بھاگ! شاید سوئس بنک کے کسی بنک کے چھجے تلے متوقع ژالہ باری سے کچھ تو بچت ہوجائے، منظور وٹو، ایک امیر ترین بزرگ بچے کے لٹو نہ بنیں، اپنی مرضی سے بھی اپنے مدار پر گھوم کر دیکھ لیں کہ قبلہ کس جانب ہے۔ یہ جو ان کو ایک بار پھر کسی کے نظر آتے چمکتے دانتوں سے عشق ہوگیا ہے تو وہ غار کا دوسرا سرا بھی تلاش کرلیں کہ
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
نون ضرور بھاگے گی مگر آگے نکل جائے گی، اس دوڑ کے نقطہ آغاز پر کہیں وٹو صاحب سیٹی بجاتے نہ رہ جائیں اور نوبت یہاں تک آپہنچے
جے میں سیٹی مار اڈاواں میری سرخی لہندی وے
جے میں تاڑی مار اڈاواں میری مہندی لہندی وے
اب بھی وہ اگر اپنے کھیتوں سے باجرے کا سٹہ توڑ کر ہتھیلی پر مروڑیں تو ان کی سٹی گم ہونے سے بچ سکتی ہے، بہرحال ،تاحال ناکام فاتح پنجاب کے لئے میاں صاحبان کی طرف سے عوامی لیٹریچر کا یہ تحفہ پیش ہے، پپو یار تنگ نہ کر، ہارن دے کر پاس کریں، ماں کی دعا جنت کی ہوا۔

سعودی مفتی اعظم نے فتوی جاری کردیا ہے کہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات کرنا حرام ہے۔
ہم سب سادہ سے مسلمان اتنا جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام ابلاغ کے ذریعے پھیلایا اور یہ ابلاغ شاعروں ،خطیبوں اور ہر رنگ نسل اور مذہب کے افراد سے کھلے عام بات چیت کرکے ہوا کرتا تھا ۔ اس زمانے میں عربی کا یہ مقولہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں عام تھا کہ ”الشعردیوان العرب“ (شاعری عربوں کا پریس ہے) کیونکہ عرب شعر کی زبان بہت جلد اپنے اندر جذب کرلیتے تھے۔ ایک عیسائی نے اپنا اونٹ مسجد نبوی کے صحن میں کھڑا کرکے اپنی عبادت کی، بعض صحابہ نے تلواریں سونت لیں لیکن آپ نے سختی سے منع کردیا اور کہا تمام عبادت گاہیں مشترک ہوتی ہیں ا گر بیرونی ذرائع ابلاغ کو ہم شجر ممنوعہ قرار دے دینگے تو کیا اسلام کی آواز اپنے آفاقی موا قف اور انسانی برابری و اہمیت کے عالمگیر پیغام کو پٹاری میں سنبھال کر رکھیں گے تاکہ اس کی خوشبو اطراف و اکناف عالم میں نہ پھیلے۔ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور گہرے دوستانہ روابط کے علاوہ یہ کہ ہمارے حرمین بھی وہیں ہیں، اس لئے پورے آداب کے ساتھ عرض ہے کہ اس فتوے پر نظر ثانی کی جائے اگر کوئی جاسوسی کرنے بھی آتا ہے تو آنے دیں، ہمیں رہ رہ کر محمود غزنوی کے پیر ابوالحسن خرقانی ؒکا یہ قول یاد آتا ہے جو انہوں نے اپنی خانقاہ پر کندہ کرارکھا تھا
”ہر کہ درین سرا درآید نانش بدہید از ایما نش مپر سید“
(جو بھی اس خانقاہ میںآئے اسے کھانا پوچھو اس کا عقیدہ مت پوچھو)۔

این ڈی اے کے سیمینار میں سیاسی خواتین نے نازیبا سلوک پر احتجاج کیا۔ اب خواتین پاکستان کو یہاں تک تو نہ پہنچائیں کہ وہ احتجاجاً بول پڑیں
ڈاہڈے دے ہتھ قلم محمد تے وس نئیں کوئی چلنا
لسِے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ ایک امریکی این جی او ہے جس میں تقریباً پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو مدعو کیا گیا۔ خواتین نے شکایت کی کہ انہیں ایک کمرے میں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا۔ آئندہ وہ مذکورہ این جی او کے کسی سیمینار میں حصہ نہیں لیں گی۔ مشاہد حسین جو کرتا دھرتا تھے انہوں نے احتجاج بڑے غور سے سنا دیکھا اور آئندہ ایسا نہ ہونے کا وعدہ کیا ا گر خواتین کو آگے لانا ہے ، ان کے حقوق ادا کریں، ان کے ناز و انداز تو دیکھ لیتے ہیں لیکن ان کے دکھ درد معلوم نہیںکرتے، ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اب تک ہم خواتین سے استلذاذ کی حد تک ہمدردی رکھتے ہیں،تعاون اور پروموشن سے کوسوں دور ہیں، ان کی آزادیاں سلب کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے عورت کو وفادار بنالیا ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں، ہماری خواتین جی دار ہیں، اپنا حق لینا جانتی ہیں اس لئے ان کی نزاکت و لطافت سے بے جا فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں جائز فوائد پہنچانے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ مشاہد حسین ذات کے صحافی ہیں اور صحافی تو چاہے قاف ہی میں کیوں نہ ہو حق بحقدار رسید کا مسلک رکھتا ہے۔ وہ آئندہ خواتین کو بلائیں تو ہر خاتون کو فائیو سٹار میں الگ الگ کمرہ دلوائیں اور اپنے ممدوح و سربراہ کی اس سنت پر نہ چلیں کہ مٹی پاﺅمٹی ڈالنا تو دفن کرنا ہے ،اچھا ہے کہ اب چودھری صاحب بھی کوئی خاک نشینوں جیسا اور تکیہ کلام اپنا لیں۔
تازہ ترین