• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کراچی کی خواتین فُٹ بالرز بھی کسی سے کم نہیں

کراچی کی خواتین فُٹ بالرز بھی کسی سے کم نہیں

ارشد غوری

اگرچہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فُٹ بال میں دِل چسپی رکھتی ہے، جس کی ایک جھلک حالیہ ورلڈ کپ میں بھی نظر آئی، مگر خود پاکستان میں فُٹ بال پر نزع کی سی کیفیت طاری ہے۔ انٹرنیشنل فُٹ بال فیڈریشن( FIFA)کی جاری کردہ رینکنگ کے مطابق، ان دنوں دنیائے فُٹ بال میں پاکستان کا نمبر203 ہے۔ 1993ء میں ہم 140ویں، 2000ء میں190 اور 2009ء میں 155ویں نمبر پر آگئے۔ گویا فُٹ بال کی عالمی درجہ بندی میں ہمارے ڈوبنے، ابھرنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، مگر پچھلے کچھ عرصے سے صرف زوال ہی زوال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں فُٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 30لاکھ کے لگ بھگ ہے، تاہم خاطر خواہ سہولتیں نہ ملنے کے سبب ان کھلاڑیوں کو مُلکی اور عالمی سطح پر اپنے جوہر دِکھانے کے مواقع نہیں ملتے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ کئی ادارے پاکستان میں فُٹ بال کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں، جن میں’’ کے الیکٹرک‘‘ سرِ فہرست ہے۔ اگر آٹھ، نو سال پیچھے چلے جائیں، تو اسی ادارے نے2009 ءمیں’’ یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ کے تحت کراچی سے تعلق رکھنے والے 13سے15سال کی عُمر کے کھلاڑیوں کے مابین مقابلے کروائے تھے، جن میں کھلاڑیوں کو تربیتی سامان اور کیش انعامات بھی دیے گئے۔ ان مقابلوں کے ذریعے نیا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ نیز، ان کھلاڑیوں نے کئی مواقع پر پاکستان کی نمایندگی کرکے کام یابیاں بھی حاصل کیں۔ اگر محکمہ جاتی سطح پر فُٹ بال کی بات کی جائے، تو بھی ادارے نے گزشتہ برسوں میں اپنی رینکنگ کو بہت حد تک مضبوط کیا۔ محمّد عیسیٰ سمیت کئی اور قومی سطح کے فُٹ بالرز اسی ادارے کی ٹیم کا حصّہ رہ چکے ہیں۔

کے الیکٹرک نے خواتین فُٹ بالرز کی حوصلہ افزائی اور اُنھیں عالمی مقابلوں کے لیے تیار کرنے پر بھی خصوصی توجّہ دی ہے۔ اس ضمن میں مارچ 2018 ء میں منعقدہ’’گرلز فُٹ بال لیگ‘‘ کو بہ طورِ مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں آٹھ ٹیمز نے حصّہ لیا، جن میں نسیم حمید فُٹ بال اکیڈمی، مارتھا ویمن فُٹ بال کلب، کراچی ککز فُٹ بال اکیڈمی، محسن جیلانی فُٹ بال اکیڈمی، ایلیٹ اسپورٹس اکیڈمی اور سوشل بونڈ کی ٹیمز شامل تھیں۔ ٹورنامنٹ کے فائنل میں نسیم حمید اکیڈمی کی ٹیم نے مارتھا ویمن فُٹ بال کلب کو ایک دِل چسپ مقابلے کے بعد پینیلٹیز پر 2-0سے مات دی۔ لیگ جیتنے والی ٹیم کو 100,000روپے، جب کہ رنراَپ کو 75,000 روپے بہ طورِ انعام پیش کیے گئے۔ لیگ کی رنگا رنگ اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی، صوبائی سیکریٹری اسپورٹس اینڈ ینگ افیئر، ڈاکٹر نیاز عباسی تھے۔ 

اس موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ یہ انتہائی خوش آیند بات ہے کہ’’ اب مختلف اداروں کی جانب سے باکسنگ اور فُٹ بال کی خواتین کھلاڑیوں کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ بلاشبہ، گراس روٹ لیول پر اس طرح کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔‘‘ تقریب میں بلوچستان کے وزیر اسپورٹس، کرنل ریٹائرڈ یونس چنگیزی، ادارے کے چیف مارکیٹنگ اینڈ کمیونی کیشن آفسیر، سیّد فخر احمد اور سائوتھ ایشین گیمز 2010ء میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی پاکستانی ایتھلیٹ، نسیم حمید بھی شریک تھیں۔ نسیم حمید نے اس لیگ کے کام یاب انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنی ٹیم کو فائنل جیتنے پر مبارک باد دی۔

کراچی کی خواتین فُٹ بالرز بھی کسی سے کم نہیں

اُن کا کہنا تھا کہ’’ اگر میڈیا پر بھی ان بچّیوں کو پزیرائی ملے، تو یہ مزید کام یابیاں حاصل کریں گی اور اُن کا ٹیلنٹ مزید نکھرے گا۔‘‘ ادارے کی ہیڈ آف سسٹینبلٹی ڈیپارٹمنٹ، زہرہ مہدی انیق نے، جو ادارے کی جانب سے سماجی بہبود کے کئی پروجیکٹس کام یابی سے مکمل کرچکی ہیں، کہا کہ’’ ہمارا ادارہ بچّیوں کو کھیلوں میں آگے بڑھنے کے حوالے سے گراس روٹ لیول پر کام کررہا ہے۔ اس لیگ سے قبل ہم’’ گرلز باکسنگ ٹورنامنٹ‘‘ بھی کروا چکے ہیں، جسے بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور باکسنگ میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی ایک پلیٹ فارم ملا۔ فُٹ بال لیگ کروانے کا مقصد بچّیوں کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے، جن سے اُن کے ٹیلنٹ کو مزید پزیرائی ملے۔‘‘

خواتین کھلاڑی…مختصر تعارف اور گفتگو

قرّاۃ العین(کوچ): قرّاۃ العین، نسیم حمید اسپورٹس اکیڈمی کا حصّہ ہیں اور 2004ء سے پروفیشنل فُٹ بالر کے طور پر اس کھیل سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے2008ء سے فُٹ بال کی کوچنگ شروع کی۔ کھیل کے ساتھ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دے رہی ہیں۔ عینی CاورDلائسنس ہولڈر ہیں اور’’گوتھیا کپ، چائنا 2007ء‘‘ میں بھی حصّہ لے چکی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ لڑکیوں کو فُٹ بال سمیت دیگر کھیلوں میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی فِٹنس کے ساتھ، صحت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے۔ نیز، فزیکل ٹریننگ، روزانہ کی پریکٹس اور اچھی خوراک ایک کھلاڑی کی کام یابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‘‘ اُنھوں نے’’ گرلز فُٹ بال لیگ‘‘ کے انعقاد کو قابلِ قدر اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ نجی شعبے کی جانب سے ایسے ٹورنامنٹس کا انعقاد لڑکیوں میں فُٹ بال کے رجحان کو فروغ دینے کا اہم ذریعہ ہے۔‘‘ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کی ٹیم اب مزید ٹورنامنٹس کے لیے تیاری کررہی ہے اور امن فائونڈیشن کے ٹورنامنٹ میں بھی حصّہ لے گی۔

انتیا عامر ( کوچ): انیتا کئی برسوں سے فُٹ بال کے کھیل سے منسلک ہیں اور آغا خان جیم خانہ فُٹ بال ٹیم میں مڈ فیلڈر کے طور پر کھیلتی رہی ہیں۔ اِن دنوں’’ مارتھا اسپورٹس اکیڈمی‘‘ میں بہ حیثیت کوچ فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ کھیلوں میں شمولیت سے خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے لڑکیوں کو کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلنا چاہیے۔‘‘ گرلز لیگ کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ’’ اس ٹورنامنٹ میں حصّہ لینے والی لڑکیوں کی خواہش ہے کہ وہ قومی فُٹ بال ٹیم کا بھی حصّہ بنیں۔ ہماری ٹیم اس لیگ کے فائنل میں پہنچی اور رنر اَپ ٹرافی جیتی ، جو یقینًا اعزاز کی بات ہے۔ نیز، ہمیں فُٹ بال فیڈریشن پر عاید پابندی ہٹائے جانے کی بھی بے حد خوشی ہے اور امید ہے کہ اب فُٹ بال سے وابستہ سرگرمیوں میں مزید اضافہ نظر آئے گا۔‘‘

اُشنہ جنید( اسٹرائیکر ) : 13سالہ اُشنہ، ساتویں کلاس کی طالبہ ہیں اور نسیم حمید اکیڈمی، فُٹ بال ٹیم میں اسٹرائیکر کے طور پر کھیلتی ہیں۔ فُٹ بال کی باقاعدہ پریکٹس کے ساتھ، تعلیمی معاملات میں بھی کسی سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی طالبہ ہونے کی حیثیت سے اُن کا کلاس کی ٹاپ3اسٹوڈنٹس میں شمار ہوتا ہے۔ فُٹ بال کھیلنے پر گھر والوں کے رویّے کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ والد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کی طرح مجھے بھی کھیلنے کے سب مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور مَیں اس کھیل میں مزید آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘

زینب نور (گول کیپر): 17سالہ زینب فرسٹ ائیر کی طالبہ ہیں۔’’ گوتھیا کپ، چائنا‘‘ میں بھی حصّہ لے چکی ہیں اور’’ گرلز فُٹ بال لیگ‘‘ کے فائنل میں بھی اپنی شان دار کارکردگی کی بہ دولت ٹیم کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے فائنل میں12گول روک کر خُوب داد سمیٹی۔ 4بہنوں اور 2بھائیوں پر مشتمل گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، جب کہ والد رکشا ڈرائیور ہیں۔ کہتی ہیں کہ’’ والد صاحب ہمیشہ میری کام یابی پر خوش ہوتے ہیں اور رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ قومی فُٹ بال ٹیم کا حصّہ بن کر عالمی مقابلوں میں حصّہ لینا میرا خواب ہے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے محنت بھی خُوب کرتی ہوں۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین