• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارک اوباما کو امریکی سلطنت پر حکمرانی کے لئے چار سال اور مل گئے ہیں۔ ایک رنگدار شخص کو چار سال اس لئے ملے کہ اس نے ہر برادری کے لئے نرم گوشہ کی پالیسی کو اپنایا، عورتوں کے54 فیصد ووٹ ملے اس لئے کہ وہ عورتوں کے بچے ضائع کرنے کے حق کو تسلیم کرتا تھا۔ کالوں نے رنگ اور خود کا احساس تخافر برقرار رکھنے کے لئے ووٹ دیا۔ اسپین سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر اوباما نے خصوصی توجہ دی جنہوں نے بہت منظم طریقے سے مہم چلائی۔ پاکستانیوں کو اوباما کی امیگریشن پالیسی پسند تھی اور پاکستانی خواتین نے مصلحوں پر بیٹھ کر دعائیں کےں اور اوباما کے جیتنے کی مہم چلائی۔ اس دفعہ اسرائیلی برادری قدرے کمزور پڑی اور چرچ جانے والے عیسائیوں نے اوباما کو زیادہ تعداد میں ووٹ دیئے۔ ’اوباما سب کے لئے‘تصور نے کام دکھایا، اس نے نوجوانوں کو روزگار کی امید دلائی تو صنعت کاروں کو اُن کی صنعتوں کے تحفظ کا یقین دلایا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں سے زیادہ محبت کرنے والے شخص کے طور پر سامنے آئے، یہ بات امریکہ کی بکھری ہوئی سوسائٹی کے لئے زیادہ پسندیدہ ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد انہوں نے بہت خوبصورت تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے امریکہ کی فتح، نوجوان اور بوڑھوں، عورتوں اور مردوں، امیر غریب، کالے یا گورے، کسی بھی ملک سے آئے امریکیوں کی فتح ہے۔ انہوں نے ان خوبصورت الفاظ میں شکریہ کے ساتھ امریکی عوام کو یہ عندیہ بھی دیا کہ جنگ کی دہائی ختم ہوگئی، بہترین وقت آنے والا ہے۔ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ملک دینا چاہتے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ جنرل پیٹریاس مستعفی ہوگئے۔ جنرل لیون پینٹا کو بھی جانا ہے اگر جنگ کے دباﺅ کو واقعی ختم ہونا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے دونوں ایوان نمائندگان بٹ گئے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلکن کی اکثریت اور جبکہ سینیٹ میں اوباما کی پارٹی ڈیموکریٹس کو قدرے برتری حاصل ہے۔اوباما کی پارٹی کے پاس 51 تو ری پبلکن کے پاس 44 نشستیں ہیں۔ یوں اوباما کے لئے مشکلات موجود رہیں گی۔ پینٹاگون کے دباﺅ کو وہ توڑنے کی کوشش کریں گے البتہ وہ ہلیری کلنٹن کی جگہ کسی اور کو وزیر خارجہ بنانا چاہتے ہیں جس کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ آئندہ کے الیکشن میں ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن ہوسکتی ہیں۔ کہتے ہیں سینڈی طوفان نے اوباما کو جتوانے میں مدد کی کیونکہ وہ امدادی سرگرمیوں میں جت گئے تھے اور کانٹے کے اس مقابلے میں جہاں ہر جگہ وہ برابر چل رہے تھے ایکدم سے ہوا کا رُخ اوباما کی طرف مڑ گیا۔ لوگ اسے سینڈی طوفان کا مرہون منت قرار دے رہے ہیں۔ بقول امریکی اخبارات اوباما کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ انہیں وہ کچھ امریکی عوام کو دینا ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ 2012ءویسے بھی قیادت کی تبدیلی کا سال تھا۔ روس میں پیوٹن وزیراعظم سے صدر بن گئے۔ یہ امریکہ کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی، چین میں ژی جیان پنگ صدر بننے والے ہیں وہ ایک سخت گیر اور خصوصاً امریکی دنیا اور مغرب کے لئے وہ کافی اجنبی ہوں گے۔ وہ 8 نومبر کو ہونے والے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں لیڈر بن کر ابھریں گے۔ اسی طرح سے فرانس میں سرکوزی کرسی صدارت خالی کر گئے اور اُن کی جگہ فرانکونس ہولنڈے صدر بن گئے ہیں۔ اس طرح دُنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اوباما کا اپنی جیت کے بعد یہ کہنا کہ جنگ کی دہائی ختم ہوئی بہت معنی رکھتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور عمران خان نے امریکی صدر سے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند ہوجائیں گے۔ امریکہ اپنی افواج افغانستان سے سرعت سے نکال لے گا اور اوباما ہر وقت حالت جنگ میں رہنے والے ملک کا تصور ختم کردیں گے۔ پاکستان سے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے ان کوکچھ زیادہ ہی کرنا پڑے گا اگرچہ پاکستان کے دانشوروں اور صنعت کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا، پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کر لینا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ درست نہیں ہوگا ہمیں اپنی آزاد پالیسی کی طرف بڑھتے قدم کو نہیں روکنا چاہئے اور امریکہ کے غلط، ناجائز اور دھمکی آمیز دباﺅ کو برداشت نہیں کرتے رہنا چاہئے۔ امریکہ ایران سے اپنا معاملہ درست کرنے جارہا ہے اس سے مصالحت کا ارادہ رکھتا ہے اس سلسلے میں ولادی میرپیوٹن نے سفارت کاری کی ہے۔ اگر ایران امریکہ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائے گا کہ وہ ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہا تو امریکہ اور ایران قریب آجائیں گے اس کے لئے پھر پاکستان کو تیار رہنا چاہئے یا پھر ایران کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہئے کہ وہ ہمارا ساتھ دیتا رہے گا اور ہماری قیمت پر امریکہ سے سودے بازی نہیں کرے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ایران کے خلاف اپنی سرزمین کو استعمال نہیں کرنے دیا۔ شمسی ایئربیس جس کو ایران کے خلاف استعمال ہونا تھا اس کو پاکستان نے اگرچہ اپنی ہی وجہ سے خالی کرایا تاہم اب پاکستان کی طرف سے ایران کو گھیرنے کے لئے نہ تو شمسی ایئر پٹی پر اور نہ ہی جیکب آباد میں امریکی موجود ہیں۔ ہم نے تاحال امریکہ کو کوئٹہ میں قونصل خانہ نہیں کھولنے دیا کیونکہ اس طرح وہ بلوچستان اور ایرانی سیستان کو ملا کر ایک ملک بنانے کے منصوبے پر کام کرے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ، انڈیا، اسرائیل یا مغرب کے کسی ایسے منصوبے کو جو آزاد ریاستوں کی سرحدیں تبدیل کرتا ہو کسی کو ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ چین ہمارا اس سلسلے میں ساتھ دے رہا ہے اور روس کی بھی یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ کسی ملک کی سرحدوں میں تبدیلی کے خلاف ہے۔ امریکہ کو بھی چاہئے کہ کسی ایسے منصوبے کو اب خیرباد کہہ دے اور اسرائیل کا تابعدار ملک بننے کی بجائے مسلمان ممالک سے دوستی کی پالیسی پر گامزن ہو تو اس کے مفاد میں ہے۔ پھر امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے صدر بارک اوباما کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ مسجدوں میں ہر جگہ پاکستانی امریکی، اوباما کے حق میں کنویسنگ کرتے نظر آئے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی بزرگ خواتین نے دعاﺅں کے لئے مصلے بچھائے ہوئے تھے اور ان کی کامیابی کی دعائیں مانگتی نظر آئی تھیں۔ اس لئے ان پاکستانیوں کے ووٹ لابنگ اور دعاﺅں کا احترام صدر امریکہ بارک حسین اوباما پر لازم ہے اور امریکہ میں مقیم پاکستانی برادری کو اس سلسلے میں اوباما پر ایک تحریک کے ذریعے دباﺅ بڑھانا چاہئے کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کریں امریکہ کی پاکستان کے خلاف پالیسی جارحانہ ہے اور انتہائی دباﺅ کی پالیسی ہے اس کو اب تبدیل ہوجانا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ چین کے گرد گھیرا ڈالنے اور اُس کی پیش قدمی روکنے کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے مگر پاکستان کے ساتھ اُس کا جارحانہ ایک کاﺅ بوائے کا انداز رہا ہے اس کو اب بدل جانا چاہئے۔ ایک تابع ملک نہیں بلکہ ایک ساتھی ملک کی طرح سے پاکستان کے ساتھ برتاﺅ کرنا چاہئے جو وزراءاور افسران اوباما کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حائل تھے وہ شاید اوباما کی نئی انتظامیہ میں شامل نہ ہوں، ڈیوڈ پیٹریاس کو اوباما انتظامیہ نے محبت کے جال میں فریم کرکے چلتا کیا ، لیون پنیٹا شاید اب وزیر نہ بنیں کیونکہ وہ بھی اوباما کی راہ میں حائل تھے اور ہلیری کلنٹن وعدہ فردا کے چکر میں آگئی ہیں کہ اوباما کے بعد ڈیموکریٹس کی صدارتی امیدوار ہوں گی۔
تازہ ترین