• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ پاکستان میں عدل وانصاف کی ضمانت اورفوج ملکی سلامتی کے تحفظ کااعلیٰ ترین ادارہ ہے اوران دونوں کے استحکام میں دوسرے ریاستی اداروں اور پاکستان کااستحکام ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وکلاءکے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ان کی ساکھ پرسوال اٹھایا توچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار اورڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل آصف غفور نے اس پر شدید برہمی کااظہار کیا جو معاملے کی نزاکت کے پیش نظر ایک فطری ردعمل ہے۔چیف جسٹس نے کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت شروع کرنے سے قبل اپنے اظہار خیال میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے پیمرا سے جسٹس صدیقی کی تقریر کامکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔انہوں نے کہا کہ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں نہ کسی مائی کے لعل میں یہ جرأت ہے کہ ہم پر کوئی دباؤ ڈال سکے۔ججز قانون کی بالادستی پریقین رکھتے ہیں اورآئین اورقانون کے تحت فیصلے کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے جج کی تقریر ناقابل فہم اورناقابل قبول ہے۔ہم معاملے کی انکوائری کریں گے اورحقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹر پرایک بیان میں کہا کہ معزز جج نے عدلیہ اورسیکورٹی ایجنسیوں سمیت ملک کے اہم اداروں پرسنگین الزامات لگائے ہیں،سپریم کورٹ ملکی اداروں کے مفاد اورتکریم کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرے اورالزامات کی تحقیقات کرکے کارروائی کرے۔جسٹس صدیقی نے بھی چیف جسٹس کے نام ایک خط میں تحقیقات کاخیر مقدم کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کاسربراہ ایسے حاضر سروس یاریٹائرڈ جج کو مقرر کیا جائے جس نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔نیز تحقیقات اوپن کرائی جائے جس میں وکلاء میڈیا اورسول سوسائٹی کو بھی شرکت کی اجازت دی جائے۔انہوں نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ مجھے عدلیہ جیسے ادارے میں فوج جیسے معزز ادارے کے چند افراد کی مداخلت پرتشویش ہے۔اس حوالے سے متعدد بارنشاندہی بھی کی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ میرے خلاف دوریفرنسززیرالتواہیں ایسے وقت میں جب عام انتخابات سرپر ہیں اورسیاسی کشیدگی الزام تراشی اوربے اعتمادی کی فضا عروج پر ہے ریاستی اداروں کے بارے میں ایک حاضر سروس جج کا بیان بلاشبہ قومی حلقوں میں اضطراب کاباعث بنا ہے جج اپنے بیانیے پرقائم ہیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے حقائق سامنے لانے کے لئےتحقیقات کاصائب فیصلہ کیا ہے ۔فوجی ترجمان کی تشویش بھی بجا اوربرمحل ہے کہ فوج کے ادارے کی ساکھ ہر قسم کے شبہات سے بالاتر رہنی چاہئے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے معاملات ایک عرصہ سے زیرالتوا ہیں۔ان کے خلاف ریفرنسز کاخود ان کی درخواست پراوپن ٹرائل ہونے والا ہے۔گزشتہ روز اپنی تقریر میں انہوں نے ریاستی اداروں کے بارے میں جو کچھ کہا انصاف کاتقاضا ہے کہ اس کی عدالتی کمیشن سے بلاتاخیر تحقیقات کرائی جائے یہ معاملہ عدالیہ کو جودوسرے معاملات پرمضبوطی سے اسٹینڈ لیتی ہے۔موقع فراہم کرتا ہے کہ خود اپنے معاملات کابھی آئینی وقانونی تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لے ،انہیں یکسو کرے اوراپنی ساکھ کو مجروح نہ ہونے دے،ماضی میں اعلیٰ ترین عدلیہ کی جانب سے ایسے بہت سے فیصلے آئے جو آج بھی تنقید کا موضوع بنے ہوئے ہیں اب جبکہ بدلے ہوئے حالات میں ملک کے تمام قانونی ادارے آزادی سے اپناکام کررہے ہیں ۔قوم ان سے توقع رکھتی ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر تفویض کردہ فرائض بحسن وخوبی انجام دیں کسی کی حدود میں بے جا مداخلت کریں نہ کسی کو اپنی حدود میں غیر ضروری مداخلت کاموقع دیں۔جسٹس صدیقی کے الزامات کی تحقیقات سے عدلیہ اورفوج کے بارے میں پیدا ہونے والا منفی تاثر ختم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

تازہ ترین