• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں اس بات کا رواج ہے کہ اگر کسی چیز یا عمل کےلیےالزام لگانےکےلیےکوئی نہ مل رہا ہو تو ہر بری چیز کا قصور وار بین الاقوامی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کو قراردیتے ہیں۔ اسی رواج کے تسلسل میں ہی چند دن پہلے عمران خان صاحب نے کراچی میں اپنے جلسے سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی انتخابات 2018 کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاجا رہا ہے وہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں قوتیں پاکستان مسلم لیگ ن کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں اور اسی کےلیےیہ تمام کوششیں اور سازشیں کر رہی ہیں ۔شاید خان صاحب کا اشارہ اس ردعمل کی طرف تھا جو حنیف عباسی کے خلاف رات11 بجے آنے والے فیصلے پر سامنے آیا۔ جس نے میڈیا، سوشل میڈیا اورعوامی حلقوں کو حیران کر دیا کہ الیکشن سے صرف تین دن پہلے اس سب کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک ایسا کیس جس کی تاریخ اگست کی تھی اس کو کس طرح دن رات سماعت کرا کے فیصلہ سنایا گیا۔
خان صاحب کی یہ بات بہت حیران کن اس لیےبھی ہے کہ کیا انٹرنیشنل میڈیا، اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی میڈیا، جس کی طرف بھی انہوں نے اشارہ کیا، اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ پاکستان کے الیکشن میں اتنی بڑی مداخلت کر سکتا ہے اور ہماری جمہوریت کو اس طرح خطرے میں ڈال سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو ہم سب کس ہوش میں تھے جب یہ بین الاقوامی طاقتیں ہمارے الیکشن کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں اور اس مشن میں اتنی کامیاب ہو رہی تھیں؟ کیا ہم اتنے ہی بے بس ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے انتخابات کو متنازع بنانا اور ان میں کسی پارٹی کے حق میں دھاندلی کرا نا اتنا ہی آسان ہے؟
پاکستانی اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں اور کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی بیرونی طاقت پاکستان کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائے۔ اس لیے ایسے الزامات یا تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ لگانے چاہئیں ورنہ اس پریشان قوم کومزید پریشان کر کے اور ملک کی دفاعی صلاحیتوں کودنیا کے سامنے اتنا کمزور دکھا کر ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔
بہت سے نوجوان خان صاحب کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ ان سے انسپائر ہوتے ہیں اور ان کے فین ہیں۔ اسی وجہ سے یہ تنقیدبھی کی جاتی ہے کہ خان صاحب جو الفاظ اپنے سیاسی حریفوں کےلیے استعمال کرتے ہیں ان کا نوجوانوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور ہمارے سیاسی کلچر میں اس وجہ سے ڈائیلاگ کی جگہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سب سے لمبے جمہوری دور کا یہ تیسرا الیکشن ہے۔معاشرےکےچند حلقوں نےاس الیکشن کی شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ کل الیکشن کے دن کم از کم کوئی یہ شکایات نہ کر سکے کہ الیکشن کے دن دھاندلی ہوئی۔ ہماری ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے، اس جمہوری دور میں ہم نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا ہے۔ پاکستان کی جیت اسی میں ہے کہ ہم اس جمہوری تسلسل کو جاری رکھیں اور اس نظام سے لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لائیں اور اگر ہم نے اس ملک کوحقیقتاً آگے لے کر جانا ہے تو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے بجائے اس کے کہ ہم اپنی غلطیوں کاساراملبہ ہر بار کی طرح انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا پر ڈال دیں۔

تازہ ترین