• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اپنے اپنے ذہنی پس منظر، مزاج اور مطالعے کا نتیجہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ حوصلہ بڑھاتے اور کچھ گھٹاتے ہیں، کچھ ڈراتے اور کچھ سمجھاتے ہیں۔میں مزاجاً خوش فہم ہوں اور پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ پر امید اور خوش فہم رہتا ہوں۔انتخابات سر پہ آ چکے اور انتخابات پر ہر قسم کا کیچڑ اچھالا جا رہا ہے ۔الزامات اور شکوک کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور باقاعدہ ایک مہم کے ذریعے عسکری ایجنسی پر پری رگنگ کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔ان الزامات کی نوعیت اور واقعات کی کڑیوں کو دیکھیں تو ان میں وزن اور منطق بھی نظر آتی ہے جسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس صدیقی نے اپنے فیصلے میں لکھ کر اور پھر بار میں بیان دے کر قابل توجہ بنا دیا ہے ۔چونکہ سپریم کورٹ جسٹس صدیقی کے بیان کا نوٹس لیکر انکوائری کا وعدہ کر چکی ہے اس لئے میں اس بارے مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ کی انکوائری کا انتظار کیا جائے البتہ میری کچھ ریٹائرڈ دوست ججوں سے بات ہوئی تو ان سب کا کہنا تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی کا یوں بار میں بیان دینا جج کے کنڈٹ کی خلاف ورزی ہے ۔عدلیہ کے احترام اور وقار کا تقاضا تھا کہ وہ عوامی سطح پر بیان دینے کے بجائے آئینی راستہ اپناتے اور یوں عدلیہ کو اس فیصلہ کن اور نا زک مرحلے پر بے وقار کرنے کی کوشش نہ کرتے ۔انہوں نے اور بھی کئی باتیں کہیں جن کا ذکر مناسب نہیں۔
ہمارے عالم و فاضل تجزیہ نگاروں کا فرمان ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان خون کی لکیر کھینچی جا چکی ہے انہیں اندیشہ ہے کہ یہ لکیریں خون کی ندیاں بن جائیں گی اور شاید قتل وغارت کا سماں ہو گا ۔کچھ حضرات انتخابات کے حوالے سے ’’ہنگ‘‘ پارلیمنٹ کے خدشے کا اظہار کرکے انتخابی ایکسرسائز اور سیاسی عمل کو ہی غیر سود مند قرار دے رہے ہیں۔کچھ حضرات کو خطرہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اعلان کردہ منشور پر عمل کرنے کی اہل نہیں اور وہ محض حسین خواب دکھا رہی ہیں کچھ حضرات درپیش مسائل اور خاص طور پر برباد اکانومی بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، گھٹتے فارن ایکسچینج ریزرو اور نوے بلین ڈالر کے غیر ملکی قرض کا ذکر کرکے ’’ڈیفالٹ‘‘ دیکھتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ یہ لیڈر اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ تجزیہ نگاروں کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ مخلوط حکومت اور کمزور پارلیمنٹ کے سبب کمزور وزیر اعظم ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائیں گے اسی حوالے سے کچھ تجزیہ نگار علم جعفر کے ماہرین یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ ان کا بھی وہی انجام ہو گا جو میاں نواز شریف کا ہوا ۔میں نے صرف نمایاں نقاط اور بار بار دہرائے جانے والے خدشات کا ذکر کیا ہے ورنہ خدشات کی فہرست طویل ہے آپ تو ماشااللہ بہادر لوگ ہیں میں خود ان خوفناک تجزیات کو پڑھ کر تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہوں ان ڈرانے والوں کے خدشات کو جس طرح بین الاقوامی میڈیا ہوا دے رہا ہے اور جس طرح انہیں بھارتی میڈیا پورے خضوع وخشوع سے اچھال رہا ہے اس سے میری تشویش میں مزید اضافہ ہو تا ہے لیکن میرا خوش فہم مزاج نہ ڈگمگاتا ہے نہ گھبراتا ہے نہ شرماتا ہے مجھے اچھی طرح احساس، تجربہ اور علم ہے کہ بھارتی میڈیا اور ان کا ساتھی انٹرنیشنل میڈیا پاکستانی فوج کے احترام اور عوامی تقدس میں شگاف ڈالنے کے لئے ہمہ وقت برسرپیکار رہتا ہے ۔ان کو خوف آتا ہے تو صرف پاکستانی قوم کے اتحاد اور مضبوط عسکری نظام سے چنانچہ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے پاکستانی قوم کا اتحاد پارہ پارہ کیا جا سکتا ہو، خانہ جنگی کے شعلے بھڑکائے جا سکتے ہوں اور قتل وغارت کی راہ ہموار کی جا سکتی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عسکری قوت پر ضرب لگائی جا سکتی ہو جس کا بہترین طریقہ پاکستانی فوج کے تقدس اور قومی اعتماد میں شگاف ڈالنا ہے ۔دنیا کی کوئی فوج بھی اپنی قوم کی مکمل حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اس لئے ان کی حکمت عملی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ پاکستانی عوامی کو اپنی فوج کے بارے میں گمراہ، بدظن اور بدحوصلہ کیا جائے۔اس حکمت عملی پر پوری طرح عمل کرنے کا بہترین موقع انتخابات تھے کیونکہ انتخابات کے موقع پر معاشرہ سیاسی حوالے سے تقسیم اور گروہ بندی کا شکار ہو جاتا ہے ۔اس خطرے کو ہوا دینے کے لئے دہشت گردی بھی کروائی گئی جس کا سب سے زیادہ دردناک اور خونین مظاہر ہ بلوچستان میں ہوا۔یقین رکھیئے کہ اگر فوج پوری طرح الرٹ نہ ہوتی آپ کے جوان اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھ کر بارڈروں کی حفاظت نہ کرتے اور ہماری خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو ان انتخابات کو دہشت گردی کے منظم و مسلسل واقعات کے ذریعے پوری طرح سبوتاژ کرنے کی سازش تیار تھی ۔چند ایک افسوسناک اور لہولہان کرنے والے واقعات ضرور ہوئے لیکن یہ ہمارے حوصلے پست کر سکے نہ انتخابات کو التوا کا نشانہ بنا سکے۔ رہا اسٹیبلشمنٹ پر پری رگنگ کا الزام تو آرمی چیف کے علاوہ فوج کے سینئر افسران کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کا انتخابات میں کوئی عمل دخل نہیں ۔آرمی چیف نے تو سینیٹ میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آپ ثبوت دیں میں کل مستعفی ہوتا ہوں میرا دل کہتا ہے کہ ہمارا آرمی چیف غلط بیانی نہیں کرتا لیکن نچلی سطح پر میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات، ان کا جیل جانا اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر شپ کے الزامات پر نظر ڈالیں تو ان میں وزن بھی نظر آتا ہے اور شکوک کو تقویت بھی ملتی ہے ۔بہتر ہو گا کہ عسکری قیادت ان الزامات کی انکوائری کے لئے اقدامات کرے کیونکہ محض تردیدی بیانات شکوک کے ان بادلوں کو صاف نہیں کر سکتے۔
تاریخ کی وادی میں قدم رکھتا ہوں اور بہت سے ترقی پذیر جمہوری ممالک کے انتخابات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے کسی ایسے الیکشن کی نظیر نہیں ملتی جس پر پری رگنگ، خون خرابے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کا الزام نہ لگا ہو لیکن میرا بار بار کا مشاہدہ ہے کہ انتخابات ہوتے ہی فضا یکسر بدل جاتی ہے،تقسیم کی خونی لکیریں ختم ہو جاتی ہیں خطرات دم توڑ دیتے ہیں اور نئی حکومت کے قیام کے جوش و جذبے میں ماضی کو بھلا دیا جاتا ہے ۔یقین رکھیئے یہاں نہ خون کی ندیاں بہیں گی نہ لوگ ایک دوسرے کی گردنیں ناپیں گے نہ نئی حکومت انتقام لینا افورڈ کر سکے گی میں کسی کے وزیراعظم بننے کی پیش گوئی کرکے پری رگنگ کا الزام مول لینا نہیں چاہتا لیکن اتنی بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس بار ووٹ مقابلتاً کم پڑیں گے اور الیکشن کمیشن نے فوج کی مدد سے اتنے اچھے انتظامات کئے ہیں کہ دھاندلی کا الزام لگانا نہایت مشکل ہو گا ۔اگر لوگ جرات سے کام لیکر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیں اور انتخابات کی شفافیت، آزادی اور انصاف نظر آئے تو ان شاء اللہ انتخابی نتائج کو بھی قبول کر لیا جائے گا
اگر چہ ہارنے والے پری پول رگنگ کا الزام دہراتے رہیں گے یہ ہماری دیرینہ روایت ہے ہمیں آگے بڑھنا ہے اور تمام مشکلات کو عبور کرکے آگے بڑھنا ہے۔جمہوری سفر جاری و ساری ہے اللہ کے فضل وکرم سے انتخابات کا عمل جاری ہے اور اسے ہر قیمت پر جاری رہنا چاہئے اس ساری صورتحال میں جو خطرات و خدشات میں لپٹی ہوئی ہے صرف ایک ہی خوش کن اور حوصلہ افزا پہلو ہے کہ قومی سطح پر انتخابات کا سلسلہ جاری ہے جو جمہوری عمل کو پختہ کرے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ الزامات کی دھول بٹھا دے گا ۔
ایک بات یاد رکھیں کہ احتساب نہ صرف جمہوریت کی روح ہے بلکہ پاکستان میں لوٹ مار اور کرپشن کے ناسور کا علاج بھی ہے ۔ بے رحم احتساب انصاف اور قانون کے دائرے میں جاری رکھنا وقت کا اہم تقاضا ہے اگر اسے روک دیا گیا یا اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا تو پھر شاید آئندہ احتساب کرنا ممکن نہیں رہے گا۔قرضوں کی دلیل سے نکلنے کے لئے اوراکانومی کی بحالی کا شارٹ کٹ اختیار کرنے کے لئے سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑے تقریباً دو سو ارب ڈالر ملک میں واپس لانا اور ایک لیڈر کے چھ کروڑ ڈالر جو کوٹیکنا اور ایس جی کمپنی سے کمیشن کے طور پر وصول کئے گئے واپس لانا ناگزیر ہے تاکہ مثال قائم کی جائے قرضے لیکر معاف کروانے والوں سے اربوں روپے واپس لیکر معیشت کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں لیکن یہ احتیاط لازم ہے کہ سرمایہ کار کو ملک سے بھگایا نہ جائے بلکہ واپس لایا جائے ۔تعلیم، سائنس اور صحت کے شعبے سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں مجھے یقین ہے کہ آنے والی حکومت ان چیلنجوں سے نبٹ لے گی بشرطیکہ اسے عوامی تائیدحاصل رہی۔ ’’ہنگ‘‘ پارلیمنٹ ہو یا مخلوط حکومت وہ اپنی کارکردگی سے مضبوط ہو گی اور کارکردگی اچھی ہو گی تو عوامی حمایت اسے مزید مضبوط بنائے گی۔ یاد رکھیں انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے والا حکمران بادشاہ نہیں ہوتا کہ وہ عام معافی کا اعلان کردے۔ وہ آئین اور قانون کا پابند ہوتا ہے احتساب کے حوالےسے مخلص حکمران کا اولین فرض احتساب کے اداروں کو اس قدر مضبوط اور آزاد بنانا ہے کہ وہ منصفانہ احتساب کرسکیں ۔بدحوصلہ نہ ہو، خدشات کو دلوں سے نکال دیں، صبح نو کا خوش فہمی سے استقبال کریں اور اپنے ووٹ کا فیصلہ بلاخوف اور ضمیر کی آواز کے مطابق کریں۔اللہ کے فضل وکرم سے اب پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری اور فلاحی ریاست بننا ہے اور مسائل کے پہاڑوں سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین