• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب اپنی اپنی ذات میں ہوتے تو ایک فرد ہیں، مگر ہم سب نادانستہ طور پر بہت کچھ ہوتے ہیں، دس دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوئے آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ آپ کے سر میں درد ہے۔ آپ کا سر دکھ رہا ہے۔ آناً فاناً آپ کے دوست درد سر دور کرنے کے لئے آپ کو دس بیس دوائوں کا نسخہ بتا دیں گے۔ بڑھ چڑھ کر تجویز کی ہوئی دوائوں کی کرامتیں بیان کرنے لگیں گے۔ مثلاً منے کاسر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ میں نے اسے ایسپرو کی گولی کھلا دی۔ جیسے کرشمہ ہو گیا۔ گولی کھاتے ہی سردرد غائب، منا فٹ بال میچ کھیلنے چلا گیا۔ میچ میں اس نے سر کی ٹکر سے تین گول کئے اور ہیٹ ٹرک کر ڈالی، ایک اہم میٹنگ کےدوران باس Bossاچانک سر درد محسوس کرنے لگے۔ قریب بیٹھے ہوئے ممبر نے جیب سے گولیوں کا پتہ نکالا اور ایک گولی باس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ باس نے پانی کے ایک گھونٹ سے گولی پھانکی۔ گولی پھانکنے کے فوراً بعد انہوں نے میٹنگ کے ملازمین کی مراعات میں اضافہ کر دیا۔ میرے ماموں، دوسرے تیسرے سال حج کرنے جاتے ہیں اور اپنے ساتھ سر درد کی گولیوں کے ڈبے لے جاتے ہیں جوخود بھی کھاتے ہیں، اور دیگر حاجیوں کو بھی کھلاتے رہتے ہیں۔
کسی سے آپ اگر اتنا کہہ دیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آپ کی سانس پھول جاتی ہے۔ وہ کہنے لگے گا، لگتا ہے انڈے، مکھن، اور تلی ہوئی چیزیں زیادہ کھاتے ہو، تمہارا کولیسٹرول بڑھ گیا ہے۔ فوراً انڈے ،مکھن ،گھی وغیرہ کھانا بند کر دو، ورنہ ہارٹ اٹیک سے مر جائو گے۔ لہسن دبا کے کھایا کرو،ٹھیک ہو جائو گے۔
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ انجانے میں ہم ایک ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں۔ میری طرح پیدل چلتے ہوئے آپ کچھ لوگوں کو ایک گاڑی کو دھکا لگاتے ہوئے دیکھتےہیں، آپ فوراً ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے ماہرانہ مشورے سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں ’’ لگتا ہے گاڑی کی بیٹری بیٹھ گئی ہے۔ بڑی ناقص بیٹریاں آ گئی ہیں مارکیٹ میں۔‘‘
آپ کھسیانے تب ہوتے ہیں جب آپ کو بتایا جاتا ہے کہ گاڑی کی بیٹری ٹھیک ٹھاک ہے۔ پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔ ہم گاڑی پیٹرول پمپ لے جا رہے ہیں۔ آپ بھی دھکا لگایئے۔ عین نوازش ہو گی۔اگر کہیں کچھ لوگ مہنگائی کا رونا رو رہے ہوں، آپ فوراََ ًسے پیشتر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ایک ماہر اقتصادیات کی طرح آپ ان کو مہنگائی کے اسباب سمجھانے لگتے ہیں۔ ڈالر کی شرح کا دال کے تڑکے سے موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ جب گرمی کی شدت اور بارش نہ ہونے کی بات نکل پڑتی ہے۔ تب آپ ماہر موسمیات بن جاتے ہیں۔ جب بم دھماکوں اور دہشت گردوں کی بات نکلتی ہے تب آپ غربت، نفسیات اور سماجیات کے ماہر بن جاتے ہیں، آپ بین الاقوامی تناظر میں اپنے ملک کے مسائل کی گتھی سلجھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ غربت کا رشتہ نفسیات سے اور نفسیات کا رشتہ دہشت گردی سے ملاتے ہیں، اس کے بعد آپ بیرون ملک سازشوں کی کڑیاں اندرونی سازشوں سے ملاتے ہیں۔ موقع ملنے پر ہم زچہ اور بچہ کے بارے میں بھی اپنی بے مثال آرا بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
ہم ماہی گیری کے بارے میں بھی آپ کو کارآمد تجاویز دے سکتے ہیں۔ ہم آپ کو جھینگے پکڑنے کے گر بھی سکھاتے ہیں۔ ہم سب اپنی ذات میں ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ انجینئر ہوتے ہیں، ماہر نفسیات ہوتے ہیں، جوتشی بھی ہوتے ہیں،نجومی ہوتے ہیں، کھوجی یعنی سراغ رساں بھی ہوتے ہیں۔ ہم آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اچانک غائب ہو جانے والے باپ، بیٹے، بھائی، بھتیجے، چاچے ،مامے کہاں چلے جاتے ہیں ؟ ہم آپ کو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ غائب رہنے کے بعد جب کچھ لوگ ظہور پذیر ہوتے ہیں تب وہ حواس باختہ کیوں ہوتے ہیں ؟ وہ خوف زدہ اور ڈرے اور سہمے ہوئے کیوں ہوتے ہیں؟وہ اپنا نام کیوں بھول جاتے ہیں؟ وہ اپنے والد کا نام کیوں بھول جاتے ہیں، وہ اپنے گھر کا پتہ کیوں بھول جاتے ہیں، وہ اپنے وطن کا نام کیوں بھول جاتے ہیں؟ اور غائب ہو جانے کے بعد جو لوگ ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتے ہیں، وہ سب کہاں چلےجاتے ہیں،؟ ان تمام رازوں سے ہم پردہ اٹھا سکتے ہیں، ہم تو اڑتی چڑیا کے پر بھی گن سکتے ہیں۔
مقدمے عدالتوں میں چلتے ہیں ،کچھ مقدمے عام نوعیت کے ہوتےہیں، برسہا برس چلتے ہیں، دس سال ،بیس سال، چالیس سال، ساٹھ سال، سو سال ! مقدمہ دائر کرنے والوں اور مقدمہ بھگتنے والوں کی نسلیں مقدمے کی پیشیاں بھگتے بھگتے نسل در نسل برباد ہو جاتی ہیں، ایسے مقدموں کو ہم اہمیت نہیں دیتے۔ ہم بااثر ،طاقتور ،سابقہ اور حاضر حکمرانوں پر چلنے والے مقدموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ مقدمے خصوصی عدالتوں میں چلتے ہیں، ایک خصوصی عدالت ہم عام آدمی بھی لگاتے ہیں، اسی عدالت میں ہم جج ہوتے ہیں۔ہم ہی استغاثہ کے اور صفائی کے وکیل ہوتے ہیں۔ ہم ہی گواہوں کو لے آتے ہیں اور ان سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ آج کل ہم نے نواز شریف پر چلنے والے مقدموں کی ایک عدالت اپنے یہاں لگائی ہوئی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا گواہ عمران خان ہے۔ نواز شریف پر سب سے بڑا الزام عمران خان نے لگایا ہے۔ اور بار بار، روزانہ ، ہر گھڑی،وہی ایک الزام لگاتا رہا ہے۔ نواز شریف ملک کے تین سو پچاس بلین روپے ہڑپ کر گیا ہے۔ عمران خان اپنے دور کا تیز ترین بالر تھا، جو بیٹس مین اس سے آئوٹ نہیں ہوتا تھا اس پر بائونسرز کی بوچھاڑ کر دیتا تھا۔ لگاتار تیز بالنگ اور بائونسر کرنے کی وجہ سے عمر ان خان کو ٹخنے پر بال برابر مگر تکلیف دہ فریکچر ہو گیا تھا۔ کوچ عمران خان کو سمجھاتے تھے کہ لگاتار اس قدر تیز بائولنگ مت کیا کرو، لنگڑے ہو جائو گے۔ آخر وہی ہوا، ٹخنے کے فریکچر نے انہیں ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا۔ اپنی عدالت میں ہم نے گواہ کے طور پر عمران خان سے بطور گواہ بار بار پوچھا ہے کہ نواز شریف نے تین سو پچاس بلین روپے کہاں سے ہڑپ کئے ہیں؟ اسٹیٹ بینک میں ڈاکہ ڈالا تھا؟ بیرون ملک سے آنے والے فنڈ کھا گیا تھا؟ ترقیاتی منصوبوں سے اربوں روپے غبن کر لئے تھے ؟ کچھ تو بتائو ۔ کوئی ثبوت تو عدالت کے سامنے رکھو، ہم خانگی ججوں کے بار بار اصرار کے باوجود عمران خان نے کسی قسم کا کوئی ثبوت ہماری عوامی عدالت میں پیش نہیں کیا ہے۔ اب تو ہمارے بار بار بلانے پر بھی وہ ہماری عدالت میں نہیں آتا، کہتا ہے،زخمی ہوں، ان فٹ ہو گیا ہوں، گواہی دینے کے قابل نہیں ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین