• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے عجوبۂ روزگار حالات اور وہ بھی عجوبۂ روزگار جنگ (Hybrid Warfare) کے زمانے میں۔ کوئی سر دُھن کے بھی کرے تو کیا، جو شنوائی ہی نہیں۔ ماسوا بڑے چھوٹے لاڈلوں کے تقریباً ہر بڑی پارٹی انتخابی عمل کے اغوا کا پرچہ کٹوانے جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلسِ عمل، اے این پی، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان، سبھی اپنا اپنا رونا رو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا تو میاں نواز شریف اور مریم نواز کی سزا کے بعد قوتوں کے ہاتھوں دیوار سے لگائے جانے کا گلہ شدید تر ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ہاتھوں کافی زچ ہوئی لگتی ہے۔ جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان زیادتیوں کا واویلا کر رہی ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی پر سینیٹ میں بھی بھاری اکثریت سے سینیٹرز نے مبینہ دھاندلی پر شور غوغا کیا ہے۔ یہ لاڈلوں کے لیے بھی کوئی اچھا شگون نہیں۔ اور اب خود عمران خان نے بھی معلق پارلیمنٹ کے امکان پر جانے کس کو خود غرضی کے طعنے دینے شروع کر دیئے ہیں۔ یہاں تک کہ خان صاحب نے اب اپوزیشن میں بیٹھنے کی نرالی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ اب یہ لگ رہا ہے کہ نواز شریف کے جیل جانے پر نواز مخالف جذبات ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور عمران خان کے نہ صرف نواز مخالف ایجنڈے بلکہ ہر طرح کے مشکوک کردار کے حامل لوگوں کی تحریکِ انصاف میں تھوک کے حساب سے بھرتی سے کرپشن کے خلاف اخلاقی مہم کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ لہٰذا، جہاں ہمیں عمران خان کے پنجاب کے جلسوں میں زیادہ تر خالی کرسیاں نظر آ رہی ہیں، وہاں مسلم لیگ ن میں غم و غصہ کی لہر بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں کسی کو بلاول بھٹو کی پنجاب میں بڑھتی ہوئی پذیرائی پہ حیرانی نہیں ہونا چاہیے۔ یقیناًجو بائیں بازو کا خلا نظر آتا تھا وہ اب کم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، گو کہ ان انتخابات کی حد تک یہ کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے پائے۔ یہ ضرور ہے کہ اب پیپلز پارٹی کو پہلے کی نسبت پنجاب میں زیادہ ووٹ ملیں گے جس کا زیادہ نقصان تحریکِ انصاف کو ہونے جا رہا ہے، کہیں کم کہیں زیادہ۔ اب تک تو دیکھنے سننے میں جو آیا ہے، اُس سے لگتا ہے کہ اربابِ اختیار نے کچھ زیادہ ہی مارا ماری (over kill) کر دی ہے۔ اور یہ ہر ضلع میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ کون کیا کیا تاریں ہلا رہا ہے جس سے انتخابات کی غیرجانبداری پر بہت تشویشناک سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ریاست کے لیےلازم ہوتا ہے کہ وہ سماجی و سیاسی کشمکش میں غیرجانبدار بھی ہو اور اُس کی غیرجانبداری نظر بھی آئے۔ غیرجانبداری کا بھانڈا تو پھوٹا ہی پڑا تھاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج نے اپنے بار سے خطاب میں اس کا بوجھ عدلیہ و انتظامیہ میں برابر بانٹ دیا ہے۔ تین بار منتخب وزیراعظم کی سزا، گرفتاری اور اپیل کے انتخابات کے بعد تک التوا نے ہمارے عدالتی نظام پہ پہلے سے موجود سوالات کو اور تند و تیز کر دیا ہے۔ پاکستان کے مقبوضہ میڈیا میں نہ سہی، تمام دُنیا کے میڈیا میں ان انتخابات کی ساکھ پہ جو سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں جو منظر ہر جگہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور متاثرہ جماعتیں جس شدت سے آہ و بکا کر رہی ہیں اس سے ان انتخابات کا ہونے سے پہلے ہی اخلاقی جواز بُری طرح سے مجروح ہو چکا ہے۔ اکثریت حاصل نہ کر پانے کی مایوسی میں اب عمران خان نے اکثریت حاصل کرنے اور مضبوط حکومت کے لیے جو دہائی دینی شروع کر دی ہے وہ قابلِ غور ہے۔ خان صاحب نے نہ صرف عوام بلکہ شاید کرشمہ سازوں کو بھی ’’خودغرضی‘‘ کے طعنے دینے شروع کر دیئے ہیں۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اربابِ اختیار کیوں اُن کے ہاتھ میں ایک مضبوط حکومت کی ڈوری پکڑا کر ایک اور طاقتور وزیراعظم کا خطرہ مول لیں گے؟
ان انتخابات کے بارے میں اب تک کے تمام جائزوں اور زائچوں کے مطابق کوئی واحد پارٹی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرتی نہیں دکھائی دیتی اور غالباً جس طرح کی انتخابی شطرنج نظر آرہی ہے، اس کا بڑا مقصد سب سے زیادہ پاپولر لیڈر اور اُس کی جماعت کے پر کاٹنا تھا، نہ کہ ایک پاپولر اور طاقتور وزیراعظم کو نکال کر ایک دوسرے تر و تازہ اور توانا وزیراعظم کو تخت پر بٹھانا۔ غالباً مقصد پورا ہوتا دکھتا ہے۔ اور ایک معلق قومی اسمبلی وجود میں لائے جانے کے انتظامات ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل تینوں لیڈروں (عمران خان، شہباز شریف اور آصف زرداری) میں سے کس کو چننا ہے، اربابِ اختیار کے لئے کوئی مشکل چناؤ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن، نواز شریف کی اسیری کے باعث اب برادرِ خورد شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے جو ہر وقت صلح جوئی سےہر کام کرنے کو تیار ہیں اور لیگیوں کو اس کے علاوہ چاہیے بھی کیا، بھلے میرے دوست پرویز رشید کیسے ہی چیختے چلاتے رہیں۔ ویسے بھی مسلم لیگ ہو یا آج کی پیپلز پارٹی اُس میں فارورڈ بلاک بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ البتہ، بنا بنایا کھیل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ایک نئے عمرانی معاہدے سے بگڑ سکتا ہے اور یہ دونوں پارٹیاں اب کھل کھلا کر اس کے لیے بے چین نظر آتی ہیں۔ ایک معلق پارلیمنٹ میں مخلوط حکومت بنانے کا ہنر اور شوق عمران خان کو ہے نہ شہباز شریف کو۔ مصالحت کا فن تو فقط آصف زرداری کو آتا ہے اور اتنا آتا ہے کہ مصالحت کے کھیل میں وہ اپنی پارٹی کافی حد تک گنوا بیٹھے ہیں۔ اور اگر زرداری اپنا کرشمہ دکھا دیتے ہیں تو پھر نوجوان بلاول نے اپنی ترقی پسند اور اُصولی سیاست کی جو چنگاری دکھائی ہے وہ الاؤ بننے سے پہلے ہی بجھ جائے گی۔
پرویز رشید کی طرح مجھے بھی ڈر ہے کہ 25جولائی کو لاڈلے کی آخری فرمائش پوری کرنے کے لیے اگر جھرلو چلایا گیا تو 26 جولائی کو انتخابی کامیابی کے نقاروں کی جگہ ہر طرف دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور مچے گا کہ نومولود قومی اسمبلی اور کم از کم دو صوبائی اسمبلیاں بھی تولد ہوتے ہی اپنی وقعت کھو بیٹھیں گی۔عجوبۂ روزگار جنگ کے زمانے میں عجوبۂ روزگار انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے پاکستان کو اس کی تاریخ کے سب سے خطرناک معاشی بحران سے کون نپٹ سکے گا۔ ایسے میں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے، جب ہم خود ہی اپنی بیخ کنی پہ تُلے ہوں۔ اسے کہتے ہیں عجوبۂ روزگار جنگ کے ہاتھوں اپنی ہی تباہی۔ اربابِ اختیار ذرا ہاتھ روکیے اور کم از کم 25 جولائی کو عوام جیسی کیسی منشا کا اظہار کریں، اُنہیں کرنے دیجیے، اُن سے زیادہ پاکستان کا حامی و ناصر کون ہوگا؟ ایسے عجوبۂ روزگار انتخابات اور وہ بھی عجوبۂ روزگار جنگ (Hybrid Warfare) کے زمانے میں۔ کوئی سر دُھن کے بھی کرے تو کیا، جو شنوائی ہی نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین