• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! کل(25جولائی) کو ہونے والے ملکی عام انتخابات کئی لحاظ سے تو روایتی ہی ہیں، لیکن یہ پاکستان کے ظہور پذیر سیاسی حقائق اور خاصے تبدیل شدہ قومی ماحول میں ہورہے ہیں۔ سو، اس کا نتیجہ فقط وفاقی اور صوبائی حکومتوں، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کی روایتی تشکیل تک ہی محدود نہ ہوگا، بلکہ انتخابی نتائج ’’ بحرانی ریاست‘‘ کے تشخص کے حامل پاکستان کے موجودہ قومی سیاسی و حکومتی انداز ، سماجی سیاسی کلچر اور قومی معیشت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کریں گے۔ ان کی تیزی سے بیخ کنی ہوگی یا یہ زخمی اسٹیٹس کو کو بحال کرکے مزید طاقتور بنائیں گے۔ رخصت ہوئی منتخب حکومتوں کے اپنی اپنی باری پوری کرتے، آخری دو سالوں میں ملکی حالات جاریہ میں جو غیر معمولی اور غیر روایتی تبدیلیاں برپا ہوئی ہیں، اس کے نتیجے میں کچھ سالوں سے دم توڑتی 70ء میں جنم لینے والی رائٹ لیفٹ کی سیاست(جس سے اور بہت کچھ نکلا) تو اپنی موت آپ مرگئی۔ نئی تقسیم رائٹ اور رونگ کی ہے۔
قومی سیاسی معرکے کی صورت ملکی سطح پر دو متصادم سوچوں کے پیدا ہونے سے ہوئی۔ ان متضاد انداز ہائے فکر پر آج قوم منقسم ہے تبدیلی یا اسٹیٹس کو۔
دلچسپ صورت یہ ہے کہ جو پاکستان کو ایسے ہی چلاتے رہنے کے حامی ہیں، جیسے پاکستان چل رہا ہے۔ ان کے نزدیک آمریتوں میں آئین کا جو حلیہ بگڑا تھا وہ درست کرکے اصلی آئین بحال کردیا گیا ہے، وقت پر انتخاب کا انعقاد ، منتخب حکومتوں کا اقتدار کی مدت پوری کرنا ہی بحالی جمہوریت کا اصل اور بڑا حاصل ہے۔ مزید منتخب حکومتوں کو فری ہینڈ دینا ، جیسا کہ حکومتوں کو 2008-18کے عشرے میں ملا، وہ ملارہے، وہ دعویدار ہیں کہ اسی طرح بتدریج سیاسی و جمہوری عمل مستحکم ہوگا، جس سے حکومتیں مستحکم ہوں گی اور عوام الناس کی خوشحالی اور بہتری کی جملہ اقسام کا حصول ہوسکے گا۔ ان کے نزدیک یہ ہی راہ راست ہے، گویا اسٹیٹس کو ، وہی قومی سیاست پر دو سیاسی خاندانوں کا غلبہ، تھانہ کچہری نظام، پارلیمان ڈھیلی ڈھالی، بس منتخب ہو، ٹیکس ریفارمرز کوئی بڑی ترجیح نہیں، تعلیمی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں، بلدیاتی نظام نہ بنے، بنے تو نہ چلے، عدالتی حکم پر انتخاب ہو کر بھی نہیں بنا تو خیر ہے’’جمہوری عمل‘‘ تو چل رہا ہے، اوپر حکومتیں تو منتخب ہیں۔ گویا اس سیاسی سوچ کامحور ’’سب چلتا ہے، ایسے ہی چلنے دو‘‘ کی پیروی اور اس پر اطمینان رہا۔ دوسرا مطلب، یہ سوچ اسٹیٹس کو کا دفاع ہے، جس کے لئے ہر روایتی حربے سے انتخاب جیتنا لازم ہے۔
دوسری سوچ اس محدود ادھوری جمہوریت کو اس کے خطرناک نتائج سمیت اکھاڑ پھینکنے کی سوچ ہے، جس کا پرجوش خیر مقدم ملک بھر میں تازہ الذہن نوجوانوں اور بڑی بھاری تعداد میں روایتی سیاست میں کوئی دلچسپی نہ رکھنے والی خواتین نےکیا۔ سو، عمران خان کی اسٹیٹس کو کے خلاف 22سالہ جدوجہد کو ایسی مہمیز لگی کہ کامیابی کے لئے اس کے یقین کا گراف اسکرین و کاغذ کے کناروں سے باہر نکلتا معلوم دیا۔ اس نے شدت سے مطلوب اور تکمیل نفاذ ، آئین کی بڑی قومی ضرورت’’احتساب‘‘ پر ایسا فوکس کیا کہ اسے میڈیا کے ایجنڈے کی اولین ترجیحات میں شامل ہی نہیں کرایا، بلکہ اتنی سرگرمی اور دلیل سے احتساب کی ضرورت کا احساس دلایا کہ یقیناً یہ مدد خدا ہی ہے کہ پاناما لیکس جیسا ناقابل تردید اسیکنڈل بحر اوقیانوس سے ہزار ہا میل سے ہوا کے دوش پر سفر کرتا بذریعہ پرنٹ میڈیا (دی نیوز و جنگ) پاکستان میں لینڈ کرگیا تو دیکھتے دیکھتے قومی سیاسی صحافتی منظر پر چھاگیا کچھ کو تو اسی وقت تبدیلی کا چاند نظر آگیا۔ تبدیلی جو اسٹیٹس کو کے لئے چیلنج ہی نہیں بنی تحریک انصاف الیکشن ۔13میں ہی اس پر ’’حملہ آور‘‘ ہو کر ’’تیسری بڑی پارلیمانی قوت‘‘ کی شکل میں جگہ بناچکی تھی۔ عمران کے جنون کا عالم یہ تھا کہ وہ مشکوک و متنازع (جسے حکمراں بھی مان رہے تھے)الیکشن سے نئی حکومت بنتے ہی اس پر انگلیاں اٹھاتے نئی منتخب حکومت کواکھاڑنے پر تل گیا۔ اتنا کے ہوش پر جوش غالب آتے آتے طویل تر ہوتا دھرنا گلے پڑتا معلوم دیا، تاہم پشاور میں طفلان مکتب کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی، اس قومی المیے میں دھرنے سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا، لیکن عمران کاحکومت اکھاڑنے کا جوش بمشکل دھرنا تو ختم ہوا لیکن خاتمہ حکومت کا عمرانی بیانیہ اسٹیٹس کو کو اکھاڑ پھینکنے اور اس کے لئے کڑے احتساب کے مطالبے میں تبدیل ہوا تو پاناما وارد ہوگیا۔ گویا ایک بڑے اور نووارد ذریعہ سیاست سے تبدیلی کی صدا مسلسل بلند ہونے لگی جو قانونی جدوجہد میں تبدیل ہوتی گزرے سال 26جولائی کے سپریم کورٹ اور سال رواں کے 13جولائی کے نیب کورٹ کے فیصلے، فیصلوں میں ڈھل گئی۔ تبدیلی کا گیٹ وے کھل گیا، سفر تیز تر ہے۔ احتسابی عمل نے انتخابی عمل سے کافی پہلے ہی تبدیلی بذریعہ آئین و قانون کی جدوجہد کا حاصل ٹاپ سے ڈائون نتیجہ خیز احتسابی عمل کے حالیہ نتائج کو بنادیا۔ امر واقع یہ ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ جو ’’حریت پسندی‘‘ اختیار کرکے نیا روپ اختیار کرنے پر تل گیا تھا، اس میں وہ مات کھاگیا۔ حکمران ن لیگ نے اسٹیٹس کو کو بچانے کے لئے احتسابی عمل اور قانونی کارروائی پر جو’’حملے‘‘ کئے، ’’آئین و قانون کی بالادستی‘‘ کے بڑھتے قومی شعور اور اس ضرورت پر قومی بیداری حملہ آوروں کے آڑے آگئی۔ تبدیلی والے’’سب چلتا ہے، ایسے ہی چلتا رہے‘‘ کی سوچ پر پوری شدت سے اہداف حاصل کرتے’’تابڑ توڑ‘‘ حملے کررہے ہیں۔ اسی سے گھبرا کر ن لیگ نے قانون کی عدالت کے مقابل ’’پولنگ ڈے‘‘ کو عوامی عدالت قرار دیتے ہوئے اس کی تشریح ’’اصلی عدالت‘‘ کے طور کی ہے، اور دس سال تک کروڑ ہا ووٹرز کی طرح طرح سے تذلیل کے بعد’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے، لیکن ووٹرز کے تیور بدل چکے، وہ صرف منتخب حکومتوں کے قیام اور تسلسل کو اپنی عزت نہیں مان رہے، بلکہ اپنی عزت نفس اور اجتماعی تکریم کو آئین میں بیان کئے بنیادی حقوق کے حصول سے منسوب کررہے ہیں جو ملک پر دو خاندانی حکومت کے ماڈل کے تسلط نے غصب کئے۔ جس میں میرٹ اور اہلیت کی جگہ نااہلیت اور درباری خوشامدنے لے لی۔ تبدیلی والے’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘ کو اپنا بیانیہ ہی نہیں سیاسی ایجنڈا بنا کر اس ہدف میں ابتدائی کامیابی کے بعد اس کی تکمیل کے لئے جہد مسلسل میں ہیں، ایسے میں کل ہونے والے انتخابات پوری قوم کو موقع فراہم کررہے ہیں کہ ووٹرز فیصلہ کریں کہ انہیں ملکی سیاسی منظر اور اقتدار پر باری باری دو خاندانوں کا غلبہ قبول ہے یا وہ کسی ایسی قیادت اور جماعت کو حکومت بنانے کے لئے منتخب کریں گے جو احتسابی عمل شروع کرانے میں کامیاب ہوئی، جس کا بڑا دعویٰ اور عزم یہ ہے کہ وہ پاکستان کو’’برہمنوں‘‘ کے اقتدار عام پاکستانیوں کے شودر کے اسٹیٹس کو کو تاریخ کے اوراق میں دفن کردیں گے۔
رہا دھاندلی، خلائی مخلوق اور نادیدہ قوتوں کی مداخلت کا شور غوغا، اس کی پہچان تو سب سے زیادہ محافظین اسٹیٹس کو کو ہی ہے جس نے’’دو خاندانی نظام حکومت‘‘ کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا ، لیکن پروپیگنڈے کا سارا رخ اسی طرف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران کو وزیر اعظم بنانے والی ہے(جیسے انہیںبناتی رہی) گویا خود عمران نے خود کچھ کیا نہ کررہا ہے، جیسے پاناما ، ایفیڈرین، لندن کی پارک لین پراپرٹی، مارسرگنج کا پہلے بیمار اور بیمار ہو کر لندن فرار ہونا، ڈاکٹر عاصم ، عذیر بلوچ ، عوام کو پانی اور سستی روٹی کے منصوبوں پر اربوں کا گھپلا تو کہانیاں افسانے ہی ہیں۔
خلائی مخلوق سے جو بنے وہ انہیں ہی نظر آرہی ہے۔ شاید اس مرتبہ اتنی محدود اور محتاط ہے کہ اسے دیکھنا آسان نہیں، چلو مان لیا کہ ہے، لیکن پاکستان دشمن ’’انٹرنیشنل‘‘ ایسٹیبلشمنٹ تو کہیں زیادہ قابل دید ہے، جو پوری انتخابی مہم پر خود کش حملے کرارہی ہے اور سینکڑوں امیدواروں اور ووٹرز، ورکرز کی شہادت کی باعث بنی۔ پارٹیوں اور امیدواروں کا انتخاب تو اب ثانوی ہوگیا۔ اصل انتخاب تو یہ ہونے والا ہے کہ ملک کی معیشت اور اداروں کو تباہی سے دوچار کرنے والا’’دو خاندانی سیاسی حکومت‘‘ نظام درکار ہے، یا نئی قیادت، نئی جماعت اور ایجنسیوں کی مداخلت بھی واقعی ہورہی ہے تو ملکی ایجنسیوں کی مداخلت قبول ہے یا غیر ملکیوں کی۔ فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے، دل یا شکم۔ وماعلینا الالبلاغ

تازہ ترین