• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 25؍ جولائی 2018ہے۔ پاکستانی اپنے آئندہ منتخب حکمرانوں کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستانی ووٹروں نے آج کے عام قومی انتخابات کے حوالے سے انتخابی امیدواروں کو حساس ترین ذہنی آزمائشوں اور سوالات کے دائروں میں اپنی مرضی سے گھمایا، ڈیرہ غازی خاں جیسے علاقوں میں عوامی سوالات سے الرجک ہو کر ایک قبائلی سربراہ قسم کے امیدوار نے سوال کنندہ ووٹر سے یہ بھی کہا ’’اک اتنی سے پرچی پر تمہارے پائوں زمین پر نہیں لگتے‘‘، سوال کنندہ ووٹر کے پائوں تو زمین پر نہ لگے لیکن قبائلی سربراہ اس ’’پرچی‘‘ کیلئے انہی پاکستانیوں کے سامنے قلباً ایک منافقانہ غیظ و غضب کے ساتھ اور ظاہراً آہ و زاری اور منت سماجت سمیت اس ’’پرچی‘‘ کے دربار میں جھکتا، سسکتا اورلڑھکیاں لیتا چلا گیا۔
یہ پرچی ’’ووٹ‘‘ کہلاتی ہے۔
دلفگار سیاسی تاریخ کے اس ملک پاکستان میں ووٹ کی یہ پرچی اس دھرتی کے بعض خود ساختہ طاقتور کرداروں کا ہمیشہ ذہنی کینسر بنی رہی۔ انہوں نے اس کینسر سے نجات پانے کے لئے سیاستدانوں کے خلاف ذلیل ترین جھوٹے پروپیگنڈے کو پاکستان میں ایک اصولی سیاسی اصول کی ’’تہذیب‘‘ رائج کی، وطن کی دھرتی کو 1953ء سے لے کر آج تک فرقہ وارانہ فسادات اور خونریزی کی انسانیت سوز آماجگاہ میں مستقلاً تبدیل کر دیا، آئین کی بے عزتی کی سطح اور نوعیت دیکھ کر بے عزتی کے طے شدہ پست ترین معیارات بھی اپنی چھاتیاں پیٹنے لگے۔ ایک کردار نے کہا ’’بارہ صفحے کی دستاویز ہے جب چاہوں۔۔۔‘‘ آگے جملے کا آخری حصہ نہیں لکھ سکتا، ہمیشہ ایسا لگتا ہے جیسے خوف خدا اور امانت عوام کے تناظر میں کوئی حد درجہ بے دید شخص ہمارے وطن کے سینے پر دونوں ایڑیاں رکھ کر ہماری شام غریباں منا رہا ہے۔ ملک ٹوٹ چکا تھا پھر 88سے 99تک ہر منتخب جمہوری حکومت خواہ ان حکومتی کرداروں میں ان کی کوئی اپنی ہی پروڈکشن کیوں نہ تھی انہیں دوسرے کار ہائے خاص سے برطرف کراتی گئیں۔
پاکستان کی دلفگار سیاسی داستان کے ان ذمہ داروں نے ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘کی اہانت اور تذلیل کے لئے ملک و قوم کے احترام پر مبنی ہر قاعدے، ہر رواج اور ہر روایت کو سرعام رسوا کیا، جب پاکستان دو لخت ہوا تب بھی ان پس پردہ قوتوں کو کسی کی حق گوئی نے چھونے تک کی جسارت نہ کی۔
عوام مگر ان سے جیت گئے، یہ خاک بسر ہوئے، ان کے تکبر کا جنازہ اٹھا جس میں کبھی کوئی پاکستانی شریک نہ ہوا، عوام ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے ساتھ نغمہ سرا رہے اور آج وہ تین کونوں کے اسی آئینی سائبان تلے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے جا رہے ہیں۔
سید مودودی نے مسلسل تین عام انتخابات کے انعقاد کو اس ملک کے تمام کینسروں کا واحد علاج قرار دیا تھا۔
نواز شریف منتخب حکومت یا اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی منتخب حکومتوں نے جو غیر ذمہ داریاں کیں اور مخالفین نے جمہوری تسلسل کی مخالفت میں جن رویوں کی راہ اپنائی وہ یقیناً پاکستان کی تاریخ کے منفی پہلوئوں کا شاہکار ہیں بایں ہمہ دونوں حکومتوں نے اندرونی اور بیرونی سطح پر ایٹمی دھماکوں اور سی پیک منصوبے سمیت ملک و قوم کی حیرت انگیز خدمات سرانجام دیں۔ آج تمام جماعتیں اپنی اپنی خدمات کی کہانی ان تک پہنچا رہی ہیں کہ ملکی آئین فتح یاب ہو چکا اور وہ صرف عوام کو پاکستان کی جماعت کو اپنے ووٹ کی بنیاد پر منتخب یا مسترد کرنے کا استحقاق تفویض کرتا ہے۔
آج میاں نواز شریف، مریم نواز اور میاں صاحب کے داماد کیپٹن (ر) صفدر جیل میں ہیں۔ گزشتہ کالم یہاں پر ختم ہوا تھا ’’یہ تینوں جیل میں ہیں‘‘ یاد کرو وہ وقت جو آج کی تاریخ کے پیچھے ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بی بی شہید، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور آصف زرداری کے مصائب و آلام کی بھی ایک المناک تاریخ موجود ہے۔ بھٹو خاندان کی اس غم انگیز تاریخ کا 16دسمبر 1971کو ڈھاکہ پلٹن میدان میں آغاز ہوا جب بھٹو خاندان کے سربراہ نے ہمارے اس قومی المیے کے موقع پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں لکھا تھا:’’پچھلے چار دنوں سے یہ کونسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، اب ہم وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں تمہاری کوئی پروا نہیں، میں شکست کی دستاویز پر دستخط نہیں کروں گا تم پورے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لو، ڈھاکہ پر قبضہ کر لو، تم کوئی تصفیہ نہیں چاہتے، ہمیں توپوں اور اسلحہ کے زور پر خاموش کرنا چاہتے ہو، تم جارحیت کو جائز قرار دینا چاہتے ہو، تم ہر اس عمل کو جائز قرار دینا چاہتے ہو جسے آج تک ہم نے ہمیشہ ناجائز سمجھا ہم لڑیں گے، ہم نیا اور عظیم ترین پاکستان بنائیں گے، یہاں بیٹھنا میری ذات او رمیرے ملک کی توہین ہے‘‘ پھر انہوں نے اپنے کاغذات پھینک دیئے اور کرسی سے اٹھ کر اجلاس سے باہر نکل آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی یہ تقریر پاکستان کے اندر موجود جمہوریت دشمنوں کا چارہ بن گئی اور پھر اس خاندان کو جمہوریت کی جنگ میں نوڈیرو کی شہادت گاہیں بھی آباد کرنی پڑیں، مگر یہ دلدوز داستان پھر سہی۔
وقوعہ کیا ہے؟ یہ کہ آج 25جولائی 2018اس ملک کے وارث عوام کا ووٹ ہی پاکستان کے حکمرانوں کا فیصلہ کرنے کا مجاز اور اتھارٹی ہے۔
جمہوریت میں وہ ہارتے ہارتے اپنا انسانی شرف بھی ہار گئے ہیں لیکن آج بھی وہ جمہوریت کو شکست دینے کے لئے فساد الارض کی کشتی کے پتوار سنبھالے ’’اپنا کام‘‘ کرنے سے باز نہیں آ رہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین