• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک شخص اپنے دوست کو کہہ رہا تھا ’’ میں اور میرا باپ دُنیا کے سب سے بڑے نجومی ہیں ‘‘ دوست بولا یہ کیسے ممکن ہے ؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ ہماری کی گئی پیش گوئی کبھی جھوٹی ثابت نہیں ہوتی ، دوست یہ بات سن کر ’’ سچی مچی ‘‘ حیران ہوا اور بولا ’’ یار یہ تو بہت ہی حیران کن بات ہے کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہاری بات کبھی جھوٹی نہ ہوئی ہو ؟ اُس نام نہاد نجومی نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر میرا باپ کہے کہ آج بارش ہو گی تو میں کہتا ہوں نہیں ہوگی ، میرا باپ کہتا ہے کہ پاکستان میں 2018کے الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے تو میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ نہیں ہوں گے ، میں کہتا ہوں کہ مسلم لیگ ن جیتے گی تو میرا باپ کہتا ہے کہ نہیں تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے گی ، ہم دونوں کی طرف سے کی جانے والی باتوں میں سے ایک کی بات ٹھیک ہو تی ہے ، تو کیا ہم دُنیا کے سب سے بڑے نجومی نہ ہوئے کہ جن کی کہی گئی بات کبھی جھوٹی ہی نہیں ہوتی ؟ نجومت کی یہ باتیںسننے والا اُس شخص کا منہ دیکھتا رہ گیا اور اپنے چہرے پر اُبھرنے والی حیرانی کی سلوٹیں سجائے اپنی راہ ہو لیا ۔ایسی ہی کچھ نجومت ہمیں آج پاکستان میں ہونے والے قومی انتخابات کے بارے میں سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہے ، کچھ دِن کہا جاتا رہا کہ قومی انتخابات نہیں ہوں گے ، پھر یہ کہ پی ٹی آئی میدان مارے گی ، میاں نواز شریف اورمریم نواز لندن سے واپس نہیں آئیں گے ، کیپٹن صفدر گرفتار نہیں ہوں گے ، حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں سزا نہیں ہو گی ، پیپلز پارٹی صرف سندھ میں سولو پرواز کرے گی وغیرہ وغیرہ لیکن سب کچھ اِس کے بر عکس ہو رہا ہے ۔جو اندازہ گو یہ کہتے تھے کہ فلاں سیاسی پارٹی پاکستان کا اقتدار سنبھالے گی ان کے اندازے اب کچھ یوں ہیں کہ نہیں نہیں اب دوسری پارٹی جیتنے کی پوزیشن میں آگئی ہے ، یعنی وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندازے بھی بدلتے جا رہے ہیں ۔ خیر کوئی کچھ بھی کہے آج الیکشن بھی ہو رہے ہیں اور شام تک نتائج آنا بھی شروع ہو جائیں گے جن سے معلوم ہو جائے گا کہ کون سی پارٹی نے حکومت کا تاج اپنے سر پر سجانا ہے ۔پاکستان کے قومی انتخابات 25جولائی کو منعقد ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ایم این ایز نے اپنی وفاؤں کو بدلتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹیوں میں اپنے مستقبل کو محفوظ اور تابناک سمجھتے ہوئے وہاں پناہ تلاش کر لی ہے ایسے افراد میں مسلم لیگ ن کے ایم این ایز کی تعداد سب سے زیادہ ہے جنہوں نے یا تو تحریک انصاف سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا یا آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی ہے ۔ 2013 کی قومی اسمبلی کے 43فیصد سے زائد (272میں سے115) ارکان ایسے ہیں جنہوں نے یا تو اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر لی ہے یا پھر وہ 2018کے الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور قسمت آزما رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے 54فیصد (115میں سے61)سابق ارکان قومی اسمبلی یا تو پارٹی چھوڑ گئے ہیں یا پھر وہ آزاد امیدوار کے طور الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا سرے سے الیکشن ہی نہیں لڑ رہے۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو الیکشن2018 آپریشنز کو برا ہ راست دیکھنے والے سرکاری اداروں نے دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے12فیصد (115میں سے14) سابق ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے ، آزاد امیدوار کے طور الیکشن لڑ رہے ہیں یا پھر وہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہے جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو اس کے 10فیصد(115میں سے12ارکان ) نے یا تو پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے یا پھر الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، تحریک انصاف کے صرف5فیصد (115میں سے6) ارکان نے پارٹی چھوڑی ہے۔ دیگر 22ارکان کا تعلق مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، نیشنل پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ( ف) آل پاکستان مسلم لیگ، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد پاکستان سے ہے۔ان وفا بدلنے والے48 فیصد (115میں سے55) ایم این ایز کا تعلق پنجاب سے جبکہ 25فیصد (115میں سے28) کا تعلق سندھ سے ہے۔ویسے دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے پاکستان کے بڑے شہروں میں اپنی انتخابی مہم پر زیادہ زور دیا ہے ، مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے شہروں میں تحریک انصاف کے جھنڈے اور عمران خان کی تصاویر والے بینرز زیادہ تعداد میں آویزاں ہیں جو عوامی شعور اور سسٹم کی تبدیلی کا واضح اشارہ دے رہے ہیں ۔بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے انتخابی نتائج آج ثابت کر دیں گے کہ پاکستان میں آئندہ حکومت پی ٹی آئی کی ہوگی ، کیونکہ لاہور ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، جنوبی پنجاب ، اسلام آباد اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں میں پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کو بہت وقت دیا ہے ، دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بھی وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ حاصل کرنے والوں کی دوڑ میں شامل ہیں ، مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف اُن کی بیٹی مریم اور داماد کی’’ جیل یاترا ‘‘ بھی پارٹی کو کچھ زیادہ فائدہ دیتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ احساس جیتنے کی اس مہم میں عوام نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا کہ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا ملنے پر مسلم لیگ ن کو بڑا جھٹکا لگا جس کا اثر براہ راست عوام کے اُس احساس کو ہواجو میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کو جیل کی سزا ملنے پر آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا ۔پاکستان میں مقیم اہل وطن کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی صورت ِحال پر سب سے گہری نظر تارکین وطن پاکستانیوں کی ہے جو دِن رات ٹیلی وژن ا سکرین کے سامنے بیٹھے اپنے وطن میں ہونے والے سیاسی دنگل کے نتائج جاننے کے لئے بے تاب نظر آ رہے ہیں ، لاکھوں روپوں کے ٹکٹ خرچ کرکے سیکڑوں تارکین وطن پاکستانی اپنی پسندیدہ پارٹی کی جیت میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے دوسرے ممالک سے پاکستان پہنچ چکے ہیں اِس حسرت کو دِل میں لئے کہ شاید پاکستان میں کوئی ایسی حکومت بن جائے جو تارکین وطن پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے احکامات صادر فرما دے تاکہ اِن کماؤ بیٹوں کا وقت بچے اور سفر کی مد میں اُن کے پیسوں کا ضیاع نہ ہو ۔یورپی ممالک میں مقیم تارکین وطن پاکستانی اپنے وطن عزیز میں سسٹم اور سیاستدانوں کے چناؤ میں تبدیلی کے سب سے بڑ ے خواہاں ہیں ، اب تارکین وطن پاکستانیوں کی اُمید کب بر آتی ہے اِس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ۔کیونکہ پاکستان میں آج تک جتنی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آئیں انہوں نے تارکین وطن کو اُن کے مسائل کو فوری حل کرنے کا’’ لالی پاپ ‘‘تھماتے ہوئے انہیں مستقبل کے ایسے سہانے خواب دکھائے جو ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے ۔

تازہ ترین