• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصغر خان کیس میں نیاکیا ہے؟ پچاس کے عشرے سے یہ عمل جاری ہے۔ لین دین، جوڑ توڑ، خفیہ ادارو ں کی مداخلت،اور دھن، دھونس، دھاندلی کااستعمال۔ 1977 کے انتخابات میں ”دھاندلہ“

خفیہ اداروں کی مداخلت اور کراچی کے سیٹھوں سے بٹورے گئے پیسے کے بغیرہو گیا تھاکیا؟ مگر اب کیاکرناچاہئے؟
جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی اپنے جرم کا اعتراف کرچکے ۔آڑوہ مرحوم صدر غلام اسحق کے ایسے احکامات کی لے رہے ہیں جن کاکوئی ریکارڈموجود نہیں۔ ایک سویلین صدر باوردی آرمی

چیف کو احکامات جاری کریںاور وہ ان پرمن وعن عملدرآمد کر گزریں۔ یہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ قائم مقام صدر پاکستان کو جی ایچ کیو بلانے اور نامزد وزیراعظم سے اپنے کچن میں پکوڑے تلوانے والے

آرمی چیف اتنے تابعدار اوراطاعت گزارہوں گے؟ کوئی آسانی سے مان نہیں سکتا۔ قوم کو پہلی بارپتہ چل رہا ہے کہ آئی ایس آئی کاایک کام چندہ مستحقین میں تقسیم کرنا بھی ہے۔ یہ دیکھنا اس کے چیف

کی ذمہ داری نہیں کہ مقصدکیا ہے؟
جن سیاستدانوں میں یہ رقم تقسیم ہوئی ان کے نام منظر عام پر آ چکے ہیں۔ کچھ نے قبول کیا کچھ انکاری ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد موجودہ پارلیمینٹ، حکومت، سیاسی اشرافیہ

اور قوم کے پاس تین آپشنز ہیں (۱) جن فوجی جرنیلوں نے کراچی کے سیٹھوں سے یہ رقم بٹوری اور انتخابی دھاندلی کے لئے استعمال کیا، جن سیاستدانوں، مذہبی رہنماﺅں اور صحافیوں نے یہ مال

حرام خفیہ ایجنسیوں سے وصول کیا،خیانت، مجرمانہ، مالی بددیانتی اور سیاسی و اخلاقی دیوالیہ پن کے مرتکب ہوئے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکرسخت ترین سزائیں دی جائیں۔ انہیںقومی مجرم ڈکلیئر

کیا جائے اورتاحیات سیاسی وانتخابی عمل میںشرکت پر پابندی کردی جائے۔ منتخب حکومت جرا¿ت کا مظاہرہ کرے اوراسلم بیگ کی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میںہرگز نہ لائے۔ تطہیر کا عمل مکمل ہونا

چاہئے خواہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے۔ (۲) سیاسی و انتخابی عمل صرف 1990 میں دھن،دھونس، دھاندلی کی آلائشات سے داغدارنہیں ہوا اور خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ کراچی و

لاہورکے سیٹھ صرف ایک بار ہی حکومت وقت کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوئے ۔1993 میں پنجاب حکومت کی تبدیلی، جعلی لانگ مارچ، پیر صابر شاہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد اور 2009 میں آئی

بی کے فنڈز استعما ل کرنے کے علاوہ 2002میں وسیع پیمانے پر وفاداروں کی خرید و فروخت کا عمل بھی پاکستانی قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ ایک بااختیار اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن اس دور

کے سول و فوجی افسروں، ضمیر فروش سیاستدانوں اورلین دین میں مصروف کاروباری شخصیات کا سراغ لگا کر احتساب و مواخذے کے اس عمل سے گزارے جس کی سفارش اصغر خان کیس میں

عدالت عظمیٰ نے کی ہے اورانہیں بھی قومی مجرم قراردے کر نشان عبرت بنایا جائے۔
(۳) اگر ہماری منتخب حکومت، سیاسی قیادت اور سول وفوجی اسٹیبلشمنٹ اس پرتیار نہیں توپھر عام معافی کا اعلان کرکے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور منفی پروپیگنڈے کی موجودہ مہم بند

کی جائے اور قوم کو صاف لفظوںمیںبتادیا جائے کہ سیاست میں شفافیت، اخلاقیات، دیانت، اصولوں کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو فروغ دینا اور جوابدہی کااحساس پیدا کرنا موجودہ این

آر او مارکہ جمہوریت کی ترجیحات میںشامل نہیںاورتطہیر کاوسیع عمل قوم کولٹیرے، ضمیر فروش، خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار، خائن، اچکے سیاستدانوں سے محروم کردے گااور صادق و امین

سیاستدان و سیاسی کارکن بانجھ قوم جنم دینے کے قابل نہیں۔ اس لئے جمہوریت کی بقا و استحکام کے لے انہیں جرنیلوں، سیاستدانوں، مذہبی رہنماﺅں اور ان کے مدح سرا دانشوروں کو قسمت کا لکھا سمجھ

کرقبول کیا جائے جو لوٹ مارکے کاروبار میں عرصہ دراز سے معروف اور طاق ہوچکے ہیں۔
یہ فیصلہ اب عوام، پارلیمینٹ، عدلیہ، فوج اور میڈیا کو کرلینا چاہئے کہ ہم بحیثیت قوم دائروں کا سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں کولہوکے بیل کی طرح کرپشن کے کولہو پر جتے رہنے پر آمادہ ہیں یا آگے

بڑھنے کی کوئی خواہش موجود ہے جو لوگ جمہوریت پر شب خون اور جمہوری اداروں کے عدم تسلسل کا رونا روتے ہیں وہ اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کر یں کہ کسی خفیہ ایجنسی کے ادنیٰ

اہلکار اور کسی سمگلر، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور، گراں فروشی سے چند لاکھ روپے وصول کرنے والا سیاستدان کسی بڑے عہدے پرفائزہونے کے بعد نہ تو ان ادنیٰ اہلکاروں پر حکم چلا سکتا ہے

نہ مافیاز اور کارٹیلز کی کوئی فرمائش ٹال سکتا ہے۔منہ کھائے آنکھ لجائے۔ اسی لئے جمہورت کے استحکام، جمہوری اداروں کی بالادستی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے ہی ایسے سیاسی رہنماﺅں

اور کارکنوں سے چھٹکارا ضروری ہے جو ماضی میں فوج، خفیہ ایجنسیوںاور سیٹھوں کے پیرول پررہے اور جو آج بھی حصول اقتدار و انتخابی کامیابی کےلئے انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔
آزمائے ہوﺅںکو بار بار آزمانا حماقت اور عاقبت نااندیشی ہے اورنوجوان نسل پر عدم اعتماد جوتبدیلی کی خواہش مند ہے اورمعاشرے کو غلاظت، گندگی اورتعفن سے پا ک کرنے کے لئے پرعزم سابق

فوجی جرنیلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا پاک فوج کی توہین نہیں اور کرپٹ، خائن اور دھونس دھاندلی کے مرتکب سیاستدانوں پر تنقید جمہوریت دشمنی نہیں۔ اس لئے میڈیا پرغصہ نکالنے کے

بجائے حقیقی مجرموں کا احتساب کیا جائے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) ، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، اے این پی میں جہاں جہاں ان لوگوںنے پناہ لے رکھی ہے وہاں قانون کا لمبا اور

مضبوط ہاتھ ان کی گرفت کرنے، عدلیہ اور میڈیا یقینا قانون کو کمک فراہم کریں گے۔ قوم احتساب کا مطالبہ تیس پینتیس سال سے کر رہی ہے۔موقع اب مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھانا ہم سب کی ذمہ داری

ہے۔ میاں صاحب نے پہل کی ہے۔ تبدیلی کے علمبردار اورنوجوان نسل کی قیادت کے دعویدار عمران خان کے کیا ارادے ہیں؟ لوہا خوب گرم ہے، ضرب لگانے میں دیر ضرر رساں ہوگی۔
تازہ ترین