• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان بیرونی محاز پر

انزیلہ طاہر

چین کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دے کر سی پیک کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے گا، روس کے ساتھ 2013-18کے درمیان قائم ہونے والے تعلقات میں مزید بہتری،بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مستحکم تعلقات قائم کئے جائیں گے،بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے لوگوں کے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کو دائو پر لگائے بغیر اس مسئلے کو حل کریں گے،ترکی کے ساتھ آزادانہ تجارت کو حتمی شکل دے کر پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی میں مزید تیزی لائی جائے گی

پاکستان مسلم لیگ (ن)

ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد ایک ایسا بین الاقوامی ماحول پیدا کرنے میں مدد دینا ہے جس میں پاکستان اپنی سالمیت برقرار رکھے اور امن و آشتی سے ترقی کرتا رہے۔ اس مقصد کے تحت ہمیں ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو ہماری سلامتی، سالمیت اور خوش حالی میں دلچسپی رکھتے ہوں،پیپلز پارٹی اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ کشمیر کے تنازعے کا کوئی جنگی حل نہیں ہے۔ ہماری پارٹی کی پالیسی اور پختہ یقین ہے کہ اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا دفاء کیا جائے

پاکستان پیپلز پارٹی

دو طرفہ تعلقات کے باب میں تحریک انصاف چین اور خطےمیں موجود دیگر اتحادیوں جن میں روس کے ساتھ تعاون کے ابھرتے ہوئے مواقع شامل ہیں، کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری میں توسیع کے لئے اقدامات اُٹھائے گی۔ دو طرفہ کردار اور مفادات کا باہم اشتراک جیسے عوامل امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد بنیں گے،ہندوستان کے ساتھ پر امن اور باہمی طور پر دوستانہ پڑوسی تعلقات کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ جموں کشمیر سمیت تمام عمومی اور ضروری مسائل کو پر امن اقدامات اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی روایت کو دونوں ممالک کے تعلقات کا مرکزی نکتہ بنایا جائے گا

پاکستان تحریک ِ انصاف

کشمیر کا نام سنتے ہی جنگ، لاشیں، حراستیں، جبری گمشدگیاں، حراستی قتل، املاک کی تباہی و بربادی، پیلٹ گن سےچھلنی، بے بینائی لوگ، ظلم و جبر کے سائے میں پلتی ہوئی زندگیاں، لاپتہ شوہروں کی منتظر ’’نصف بیوہ خواتین‘‘، انتظار میں بیٹھی وہ ماں جس کا بیٹا قابض فوج کے تاریک عقوبت خانوں میں مار دیا گیا، اجتماعی قبریں اورعصمت دری کا شکار زندہ لاشیں ذہن میں آتی ہیں۔ کشمیر جو کبھی ایشیا کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا آج دنیا کے خطرناک ترین تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر، پاکستان، ہندوستان اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آرہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اورہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ کشمیر میںپہلی جنگ 1947، دوسری 1965اور تیسری 1999میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتاہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔

پاکستان بیرونی محاز پر

مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند گروپوں میں کچھ گروپ کشمیر کی مکمل خود مختار آزادی کے حامی ہیں تو کچھ اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان پورے جموں اور کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور قبائلی حملہ کے حوالے سے تاریخ دانوں اور وقائع نگاروں میں خاصا اختلاف ہے۔ اگست اور اکتوبر 1947کے نہایت اہم فیصلہ کن تین ماہ کے دوران پیش آئے واقعات پر کئی ابہام ہیں۔ پچھلے 70سالوں سے اب اکثر مورخین بشمول کشمیری رہنمائوں نے بھی کسی حد تک اس تھیوری کو تسلیم کیا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کی ایما پر آئے قبائلی حملہ آور وں کے ذریعے برپا کی گئی غارت گری کی وجہ سے ہندوستان سے فوجی مدد مانگی۔ جس کے جواب میں ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دستاویز الحاق پر دستخط کرنے کی شرط رکھی اور اس کے نتیجے میں نظم و نسق کو بحال کرنے کی خاطر 27اکتوبر 1947کو ہندوستانی فوج سرینگر میں وارد ہوئی۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان نے کبھی کشمیر پر قبضے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے مگر بھارت کا اب یہ موقف ہے کہ کشمیر سے اقوام متحدہ کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب ریاست کشمیر اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے۔ بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101، 387مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85، 846اور چین 37، 555مربع کلومیٹر علاقہ رکھتے ہیں، مگر چینی اور پاکستان کے زیرانتظام علاقوں کے برعکس ہندوستان کی مقبوضہ وادی میں بے چینی اور مظاہرے اس بات کے غماز ہیں کہ کشمیری اکثریت ہندوستانی تسلط کو ناپسند کرتی ہے جس کو دبانے کے لئے ہندوستان کی پرتشدد انسانیت سوز کارروائیاں جاری ہیں۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق 1989سے لے کر اب تک تقریباً ایک لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ جموں کشمیر کی سماجی تنظیموں کے اتحاد کے مطابق جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے افراد کی تعداد 8000سے زائد ہوچکی ہے جبکہ 143، 185افراد حراست میں لے کر ہراساں کئے گئے جن میں تقریباً 8000زیرحراست ہلاک کردیئے گئے۔ خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے 110.42 واقعات سامنے آئے اور 103.043سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔

عالمی برادری کے اکثر حلقے ہندوستان کی جانب سے کشمیریوں کی منظم نسل کشی سے آگاہ ہیں، مگر چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں۔ دسمبر 2016میں وکی لیکس کی حاصل کردہ سفارتی کیبلز نے انکشاف کیا کہ امریکی حکام کے پاس بھارتی پولیس اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے بڑے پیمانے پر کئے گئے تشدد کے ثبوت تھے اور 2005میں ریڈکراس کے عملے کی طرف سے امریکی حکام کو کشمیرمیں 2002 سے 2004تک سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں خفیہ طورپر زیرحراست افراد کے ساتھ کی گئی منظم زیادتی و تشدد کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (آئی سی آر سی) کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستانی سیکورٹی فورسز قیدیوں پر بدترین جسمانی تشدد میں ملوث ہیں جس میں مار پیٹ، برقی کرنٹ لگانا اور جنسی تشدد شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ قیدی پاکستانی دخل انداز نہیں تھے، جیسا کہ ہندوستان کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے، بلکہ عام کشمیری شہری تھے۔ خود امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ برائے انسانی حقوق 2010میں ہندوستانی فوج کی جانب سے عام کشمیریوں اور مبینہ حریت پسند نوجوانوں کے حراستی قتل کا حوالہ ملتا ہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ ہندوستان مختلف طریقوں سے دبائو ڈال کر یا جسمانی تشدد کے مختلف حربے استعمال کرکے جبری حراست میں لئے گئے عام شہریوں کو اعتراف جرم کروا کر عدالتی قتل کرتا ہے۔ دیر سے ہی سہی مگر ہمارے حکمرانوں کو کشمیری عوام کا خیال آیا اور رواں سال ووٹ کے حصول کے لئے تقریباً تمام ہی جماعتوں نے اپنے منشور میں خارجہ پالیسی پر بڑا زور دیاہے۔

پاکستان مسلم لیگ( ن)

تجارت کامرس اورہمسایہ ممالک سے تعلقات

٭چین کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دے کر سی پیک کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔

٭روس کے ساتھ 2013-18کے درمیان قائم ہونے والے تعلقات میں مزید بہتری۔

٭تین اور گیس پائپ لائنز ٹرانسمیشن لائنز اور پاور پراجیکٹس کے ذریعے علاقائی ممالک سے مزید روابط۔

٭افغانستان میں مصالحتی کوششوں میں اضافہ اولین ترجیح۔

٭بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مستحکم تعلقات قائم کئے جائیں گے۔

٭بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے لوگوں کے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کو دائو پر لگائے بغیر اس مسئلے کو حل کریں گے۔

٭ترکی کے ساتھ آزادانہ تجارت کو حتمی شکل دے کر پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی میں مزید تیزی لائی جائے گی۔

دفاع کی پرامن مضبوطی

٭اپنے اسٹریٹیجک اثاثوں کو لاحق خطرات اور سازشوں سے نمٹنے اور ان کی حفاظت کیلئے دفاعی پالیسی جاری رکھیں گے۔

٭پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے پہلے سے موجود اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حال ہی میں قائم کئے گئے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔

٭اس بیانئے کو تقویت دی جائے گی کہ پاکستان داخلی طورپر ہمدردی اور برداشت پر یقین رکھتا ہے اور باہمی احترام کی بنیاد پر دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے مواقع

٭بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔

٭دونوں ایوانوں میں ان کیلئے نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔

٭غیر ملکی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو مفت قانونی مشورے کی سہولت۔

٭غیر ملکی کرنسی میں خصوصی بانڈز کا اجراء جس کی واپسی پر غیر ملکی بینکوں سے زیادہ اچھی پیشکش کی جائے گی۔

٭پاکستان ٹیلنٹ بینک کا قیام عمل میں لاکر ایم پی ون اسکیل میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے مواقع تخلیق کئے جائیں گے۔

٭پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لاکر تارکین وطن پاکستانیوں کیلئے خصوصی کوٹہ متعارف کرایا جائے گا جس میں غیر ملکی کرنسی میں ہی سرمایہ کاری کی جاسکے گی۔

٭مختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کی واپسی کے لئے دو طرفہ معاہدے کئے جائیں گے۔

٭بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لئے یونیورسٹیز میں خصوصی کوٹہ بڑھایا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی

٭ہم یقینی بنائیں گے کہ مسلح افواج اعلیٰ ترین پروفیشنل معیار برقرار رکھیں تاکہ وہ اپنی قوم کی محبت اور احترام حاصل کریں۔

٭دفاعی اور پارلیمانی اداروں کے درمیان تعاون اور نگرانی کے لئے قریبی تعلق کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے نیو کلیئر پروگرام شروع کئے جانے کے بعد سے پاکستان پیپلز پارٹی نے ریاست کے خود مختاری کے حقوق کی بنیاد پر اسلحہ کو محفوظ بنانے اور ترقی دینے کا کام جاری رکھا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کے دفاعی مزاحمت پر مبنی نیوکلیئر پروگرام اسلحہ کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہم پاکستان کی نیوکلیئر سیکورٹی کے نقطہ نظر کو مزید واضح، زوردار اور بامعنی بنائیں گے اور ایک ذمہ دار نیوکلیئر ریاست کے طورپر اپنے بین الاقوامی قدوقامت کو منوائیں گے۔

پاکستان کی بڑی مشکل سے حاصل کی ہوئی نیوکلیئر مزاحمت اس کی قومی اور علاقائی سیکورٹی اور توازن کے استحکام کا سنگ بنیاد ہے۔ ہم پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر تمام ضروری اقدامات کریں گے، چنانچہ:

٭ہم سول نیوکلیئر تعاون اور این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والی ریاستوں کے لئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کو فروغ دیں گے، بشرطیکہ اس کی بنیاد عدم تعصب کے اصولوں اور مقصد ترک اسلحہ ہو۔

٭ہم این ایس جی اور برآمد پر کنٹرول کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعمیری تعلقات برقرار رکھیں گے تاکہ اس کی رکنیت بامعنی ہو، جبکہ این ایس جی قواعد سے مخصوص ملکوں کے استثنیٰ کی مخالفت کرتے رہیں گے۔

٭ہائی ٹیک نگرانی اور تمام ایجنسیوں کے درمیان مستعد انفارمیشن شیئرنگ کا فائدہ اٹھالیں گے، اس قسم کی تمام ایجنسیوں کا ہم رائے ہونا یقینی بنانے والی ایک جامع کوشش ہی ہماری سلامتی کو لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی۔

٭ہم سائبر حملوں کو روکنے اور سائبر ایکٹرز کو شناخت کرنے میں پاکستان کی قابلیت بڑھائیں گے۔ ہماری حکومت بیرونی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ہمارے سائبر دفاعی انتظامات کومستحکم بنائے گی۔

خارجہ پالیسی

*پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے خارجہ پالیسی ایجنڈا کی بنیاد پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی دانش اور بصیرت پر رکھے گی۔

*ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد ایک ایسا بین الاقوامی ماحول پیدا کرنے میں مدد دینا ہے جس میں پاکستان اپنی سالمیت برقرار رکھے اور امن و آشتی سے ترقی کرتا رہے۔ اس مقصد کے تحت ہمیں ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو ہماری سلامتی، سالمیت اور خوش حالی میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

*میں نے ایک ایسے پاکستان، ایسے ایشیا اور ایسی دنیا کا خواب دیکھا ہے جہاں ہم اپنے سماجی وسائل کو انسانی زندگی کی ترقی پر لگا سکیں نہ کہ اس کی تباہی پر۔

*خارجہ پالیسی کے اساسی مقصد کے طورپر ہم پاکستان کو ایک ترقی پذیر، پرجوش اور محنتی ملک کے طورپر دیکھتے ہیں جو داخلی اور بیرونی دونوں لحاظ سے پرامن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ خودمختاری، استحکام، سلامتی اور معاشی نشوونما کے ذریعے امن و خوش حالی کی جستجو آج پاکستان کی پالیسی میں زیادہ اہم ترجیح ہے۔ جغرافیائی، معاشی، پرامن بقائے باہمی اور جان دار سیکورٹی کو ایک مضبوط اور مستعد فارن پالیسی ایجنڈا کے لئے پاکستان کے نصب العین کا محرک ہونا چاہئے، چنانچہ

ہماری بین الاقوامی پالیسیاں متحرک، جامع اور قومی مفادات کو آگے بڑھانے سے ہم آہنگ ہونی چاہئیں۔ اس کی بنیاد ہمارے ملک کے جغرافیائی فوائد، آبادی کے اثاثوں اور سماجی، ثقافتی قوتوں پر ہونی چاہئے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر عالمی ترقی، علاقائی تعاون اور قومی کاوش میں ایک فعال فریق کے طور پر نمایاں کیا جائے۔

اپنے رہنمائوں کی جاندار عالمگیر میراث پر عمل پیرا پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیرقیادت پاکستان کے لئے ایک ایسی دور اندیش خارجہ پالیسی بنانے کا وعدہ کرتی ہے جو اسے نئی قوت بخشے گی، اسے لاحق خطرات اور خدشات دور کرے گی اور ملک کو خودمختاری پر مبنی فیصلوں کی واضح اور مضبوط راہ پر گامزن کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس یقین پر قائم رہے گی کہ پارلیمان کی جانب سے نگراں اور اتفاق رائے پیدا کرنا ہماری خارجہ پالیسی کے ایجنڈا کی طویل المدت کامیابی میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔

ہم یقینی بنائیں گے کہ ہمارے تمام فیصلے قومی مفاد میں ہوں، کہ وہ شفافیت پر مبنی اور عوامی جانچ پڑتال اور پارلیمانی بحث کے ذریعے پرکھے گئے ہوں۔ اس مقصد کے تحت ہم تمام متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں کی طاقت اور استعداد بڑھانے کے خواہشمند ہوں گے۔

ہم تعمیر استعداد، نگرانی اور متعلقہ فریقین کے بیانئے پر مشتمل پراجیکٹ کو دوبارہ لاگو کریں گے جس کا آغاز گزشتہ مدت حکومت میں کیا گیا تھا۔

بدلتے ہوئے عالمی نظام میں جگہ بنانا

موجودہ عالمی نظام عمیق تبدیلیوں اور جغرافیائی، اسٹریٹیجک عمل سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے روایتی اتحادوں کو محفوظ اور ان پر انحصار رکھتے ہوئے پارٹی نئے جغرافیائی، سیاسی امکانات اور شراکت داریاں وضع کرے گی جو بین الاقوامی تعلقات کے آئندہ عشرے کی عکاسی کریں۔

پاکستان کو قدم آگے بڑھانا اور منطقی انداز میں ایک ایسی خارجہ پالیسی کا ڈھانچہ تیار کرنا ہوگا جو ہمارے مفادات کو ہر ممکن حد تک فروغ دیتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ ہرممکن بہترین تعلقات قائم رکھے۔

چین

پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ چین کو پاکستان کا طاقتور ترین حلیف خیال کیا ہے اور ہمارے ایک کے بعد ایک پارٹی رہنما نے بیجنگ کے ساتھ پاکستان کا ناگزیر تعلق قائم کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ ہمارا تعلق وقت کی کسوٹی پر پورا اترا اور اقتصادی، دفاعی اور علاقائی تعاون کے شعبوں میں ہمارے بندھن مزید مضبوط اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ ہم دفاع، سفارت کاری، تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں روابط قائم کرنے کے ذریعے اسٹریٹیجک شراکت داری اور تعاون بڑھانا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے قومی مفاد اور حاکمیت کو بھی تحفظ دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کو سی پیک کے ذریعے اس کی اہم ترین سرمایہ کاری پر مدد دینا جاری رکھا جائے گا اور ساتھ ساتھ اعلیٰ سطحی شفافیت اور پاکستان کے صوبوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کیا جائے گا۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ

ریاستوں کے درمیان دو طرفہ تعلق کی بنیاد کا جائزہ لینے اور جمود کا شکار پاک امریکہ اسٹریٹیجک مکالمے کو بحال کرنے کے علاوہ ہم واشنگٹن کے متعلق اپنی اصل پالیسی کو تقویت دیں گے:یعنی امداد لینے کی بجائے تجارت میں سرمایہ کاری۔ ہم کانگریس میں جمہوری عناصر، امریکی میڈیا، دانشوروں، سول سوسائٹی، کاروباری اور تجارتی طبقات کے ساتھ متحرک تعلق کے ساتھ اپنی کثیر پہلو حکمت عملی کا فوری آغاز کریں گے۔

افغانستان

ہم افغانستان کے ساتھ عوام کی سطح پر تعلقات قائم کرنے اور کابل کے ساتھ مل کر افغان مہاجرین کی باوقار انداز میں وطن واپسی کے لیے منصو بہ سازی کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان میں سماجی اقتصادی تعمیر ِ نو اور ترقی میں مضبوط اور پائیدار شراکت داری قائم کرنے میں پاکستان کا کردار کلی نوعیت کا ہے۔ اس مقصد کے تحت ہم تشدد سے متاثر علاقوں میں پاک افغان ری کنسٹرکشن اپورچونٹی زون اور اسپیشل اکنامک زونز (SEZs)کرنے کے عزم کی تجدید ِ کرتے اور بحالی کو علاقائی امن و استحکام کا ایک جاندار ذریعے قرار دیتے ہیں۔

کشمیر

کئی دہائیوں سے جاری سیاسی جبر اور اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق کشمیر کے حق خود ارادیت سے انکار بھارتی مقبوضہ کشمیر میں وسیع تنازعات کا بنیادی سبب ہے۔ پر امن مذاکرات کے ذریعے تنازعےکو ختم کرنے کے لئے کی گئی تمام کوششوں کو بھارت نے نظر انداز کیا ہے ۔

پیپلز پارٹی اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ کشمیر کے تنازعے کا کوئی جنگی حل نہیں ہے۔ ہماری پارٹی کی پالیسی اور پختہ یقین ہے کہ اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا دفاء کیا جائے اور نئی دہلی کے ساتھ تعمیری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے بھی زور دیا جاسکتا ہے۔

ہندوستان

ہمارا یقین ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو نارمل بنانا علاقائی امن و استحکام کے لیے لازمی ہے، مگر مذاکرات تب ہی با معنی ہوں گے جب باہمی احترام کی فضا میں ہوں اور تمام بات چیت سفارتی ذرائع سے انجام دی جائے۔ طویل عرصہ سے چلے آرہے تنازعات اور مسائل پر کسی پیشگی شرائط کے بغیر متواتر اور بلا تعطل مذاکرات معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔

اپنی گزشتہ حکومت کے دوران ہم نے تجارتی تعلقات کو نارمل بنانے اور سفری پابندیاں نرم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان توانائی اور تجارت میں روابط تخفیف ِ غربت کے مشترکہ علاقائی چیلنج سے نمٹنے اور مقابلہ بازی کی بجائے اقتصادی تعاون کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہیں۔

ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی جنوبی ایشیا کو پانی کی قلت، اچانک طغیانی اور سموگ کی صورت میں ایسے چیلنجوں سے دوچار کررہی ہے جن کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو تعاون کے ذریعے یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا خطہ ماحولیاتی انحطات کو منظم کرنے اور روکنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو زیریں دریائی علاقے کے طور پر پانی پر اپنے حق کی ضمانت درکار ہوگی اور پانی کے بہائو کو متاثر کرنے والی کوئی بھی ہندوستان تعمیر دو طرفہ منظوری اور متعلقہ معاہدوں کے تحت ہونی چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کے درمیان روابط کو دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان بہتر تفہیم کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ ہم بالخصوص سیاحت، طبی علاج، طلبا کے تبادلے، فنکاروں اور کاروباری افراد کے تبادلے کے لیے ویزا کی پابندیاںنرم کرنے کے حامی ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ اس قسم کے تبادلے دو طرفہ تعلق میں سیاسی تلاطم کے اثرات سے ماورا ہوں۔

مشرقِ وسطیٰ

ہم ریاض اور تہران کے ساتھ اپنے تعلقات میں منطقی توازن پیدا کریں گے تاکہ اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کریں اور ہر ایک ساتھ روابط کے امکانات بڑھائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی توثیق کرتی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا اتحاد بدستور مضبوط رہے گا اور ہم سفارتی ، اقتصادی اور سیکورٹی میں تعاون کے ذریعے اپنے دو طرفہ تعلق کو مضبوط بنانا جاری رکھیں گے۔ ہم اپنے سفارتی اور اسٹریٹجک مفادات کی جستجو میں بھی ثابت قدم رہیں گے تاکہ خطے میں تہران کا کردار دوبارہ اہم ہوجانے کے نتیجے میں نئے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور کثیر فریقی اقدامات میں شامل ہوں۔

یوریشیا

ہم یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ پاکستان وسطی ایشیائی جمہوریائوں (CARs)کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں تبدیلیاں لائے تاکہ قریب تر پاک روس تعاون کے امکانات کو بروئے کار لایا جاسکے۔ پاکستان کا شنگھائی تعاون کی تنظیم (SCO)میں مکمل رکن کی حیثیت حاصل کرنا ہمارے لیے فائدہ بخش پلیٹ فارم کی ایک مثال ہے۔ کیونکہ ہم پین ایشیائی اسلحہ اور توانائی کی بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی والی مارکیٹ میں کمرشل اور ریاستی روابط کا مرکز و محور ہیں۔

ہماری حکومت ایک تجدید شدہ مہم میں تازہ، عزم، جوش اور یقین لائے گی تاکہ پاکستان کے علاقہ کو کسی بھی ملک کی سرزمین پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ اور پاکستان اپنے وسائل کو ایشیا میں فروغ پذیر ان پر لگانے کا عہد کرے گا۔

پاکستان تحریک ِ انصاف

ادارہ جاتی ڈھانچے میں توسیع اور جدّت: وقت کے ساتھ وزارت خا رجہ کی کارکردگی زوال پذیرائی ہوئی ہے کیونکہ وزارتی ڈھانچہ تیزی سے بدلتے عالمی ماحول کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وزارت خارجہ میں بیرونی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے چار بنیادی ادارہ جاتی لوازمات متعارف کروائے جائیں گے اور خارجہ پالیسی کے کامیاب نفاذ کے لئے مزید موثر پالیسیاں مرتب کی جائیں گی۔

(1) مجموعی طور پر کی جانے والیسول سروس ریفارمز کے جزو کے طور پر ایک زیادہ مضبوط، موثر ، فعال اور خصوصی صلاحیت کی حامل فارن سروس تشکیل دی جائے گی۔ ہماری وزارت خارجہ کو بیرونی دنیا میں پاکستان کے مفادات کی ترویج پر ہی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ بیرون ممالک بسنے والے پاکستانی شہریوں کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اس ضمن بیرون ملک بسنے والے پاکستانی شہریوں، خصوصاً ان افراد کو جو دیگر ممالک کے قید خانوں میں مقید ہیں، کے لئے تیز اور ذمہ دار قونصلر سروسز کی فراہمی تحریک انصاف کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔

(2) وزارت خارجہ میں بین الاقوامی قانون کے حوالے سے مناسب شعبے کی عدم موجودگی ایک بڑا خلاف ہے۔ جس کے ہماری خارجہ پالیسی پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بین الاقوامی قانون نہ صرف کثیر الجہتی سفارتکاری بلکہ دو طریفہ تعلقات میں بھی (معاہدوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بڑھتے ہوئے فریم ورک کے ذریعے) مرکزی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے، ہم کثیر الجہتی فورمز پر اس کا ایک کلیدی کردار دیکھ رہے ہیں۔

(3) موثر سفارتکاری کا تقاضا ہے کہ ہمارے سفارتخانوں میں ہونے والی سفارتی سرگرمیوں کے تمام پہلو جیسا کہ پریس کو ہمارے سفیروں اور وزارت خارجہ کے اختیار میں لانے کے لئے قدرے زیادہ مرکزی اور مربوط تنظیمی فریم ورک کی تشکیل۔ چنانچہ بیرونی تشہیر جو کہ ابتدائی طور پر وزارت خارجہ کا حصہ تھی، پر براہِ راست کام کیا جائے اور اسے حتمی طور پر دوبارہ وزارت سے بھی منسلک کیا جائے۔

(4) معقول فیصلہ سازی کے لئے کلیدی فریقوں اور وزارتوں سے خارجہ پالیسی سے متعلق رائے /معلومات کے تبادلے کے لئے وزیر اعظم کے دفتر میں پالیسی کوآرڈینییشن سیل قائم کیا جائے گا۔ خارجہ پالیسی کو متوازی سرکاری راستوں پر نہیں چلایا جاسکتا۔

دو طرفہ تعلقات کے باب میں تحریک انصاف چین اور خطےمیں موجود دیگر اتحادیوں جن میں روس کے ساتھ تعاون کے ابھرتے ہوئے مواقع شامل ہیں، کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری میں توسیع کے لئے اقدامات اُٹھائے گی۔ دو طرفہ کردار اور مفادات کا باہم اشتراک جیسے عوامل امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد بنیں گے۔

مجموعی طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر دو طرفہ اور کثیر الجہتی سرگرمیوں میں توسیع پاکستان کی اہم ضرورت ہے۔ علاقائی حالات اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر پرانے اتحادیوں اور روایتی دوستوں سے تعلقات صرف کافی نہیں۔

آج کے نئے ماحول میں تحریک انصاف اپنی پالیسی کے کلیدی ہدف کے طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی مطابقت قائم رکھنے بلکہ اسے بڑھانے پر خصوصی محنت کرے گی اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے اہم کثیر الجہتی فورمز کے ذریعے کثیر الجہتی سفارتکاری پر مزید فعال انداز میں اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ خلیجی ریاستوں کے مابین تنازعات کے حل میں پاکستان کو مکمل غیر جانبداری مظاہرہ کرتے ہوئے پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اقوام متحدہ پاکستان کو کثیر الجہتی سفارتکاری میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں دہشت گردی، جوہری عدم پھیلائو اور قیام امن کی عالمی کوششوں جیسے اہم ایشوز پر اپنے کردار میں توسیع کرنی چاہیے۔ ہمیں مشرقی ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں جیسا کہ لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کے ذریعے ملکی معیشت کے احیاء کے لئے سیاسی۔ اقتصادی سفارتکاری کو ترجیحاً بروئے کار لائے گی۔ وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو اس حوالے سے روڈ میپ کی فوری تیاریکا کام سونپا جائے گا۔ خارجہ پالیسی کے تمام پہلوئوں سے متعلق وزارت خارجہ اور دیگر وزارتوں کے مابین موثر روابط بھی بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔

پارلیمانی نظام اور عوام کے منتخب نمائندوں کی آواز کو تقویت دینے کے لیے تحریک انصاف آئین میں ترمیم کرے گی جس کے ذریعے مباحثے کے بعد عالمی معاہدوں کی توثیق کا اختیار پارلیمان کو سونپا جائے گا۔

-1تمام ممالک کے ساتھ عمومی طور پر اور پڑوسی ممالک کے ساتھ خصوصی طور پر دوستانہ اور پر امن تعلقات کا قیام۔

2 ملک اقوام متحدہ کے چارٹر کی تعمیل کرتے ہوئے ان کے تمام مترقی اور امن کے لئے اٹھنے والے اقدامات میں شرکت کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ بطور رکن ملک دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے کام میں اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرے گا،خصوصی طور پر بین الاقوامی سطح پر ممالک کی آزادی حیثیتوں کے لئے ایک مساویانہ معیار مقرر کرنے کے لئے ملک فعال کردار ادا کرے گا۔ ملک بین الاقوامی سطح پر اسلحے کی اتلاف اور نیوکلیئر ہتھیاروں کے خاتمہ میں جامع اور غیر جانبدارانہ عملی حصہ لے گا۔

-3 دنیا کی کثیر قطبی تصورکو سپورٹ کرنا جس سے ایک یا دو طاقتور ممالک کی عالمگیر اجارہ داری کا تدارک ہوجائے گا۔

-4 ملکی تجارت و اقتصادی کی بڑھوتری ، اس کی بازاری تنوع اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو قابل ترجیح بنانے کے لئے سیاسیات و سفارت کاری کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کرنا۔

-5 افغانستان کے ساتھ تعلقات کو خصوصی ترجیح دینا، خصوصاً پاکستان کے پختونخوا اور بلوچستان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان مذہب، تہذیب و ثقافت، زبان اور تاریخ کی مشترکات کے بنیاد پر تعلیمی ، ثقافتی و اقتصادی نیز تمام شعبہ جات میں باہمی تعاون کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ دونوں ممالک کی خود ارادیت پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے داخلی امور میں مداخلت سے احتراز کیا جائے گا۔

-6 ہندوستان کے ساتھ پر امن اور باہمی طور پر دوستانہ پڑوسی تعلقات کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ جموں کشمیر سمیت تمام عمومی اور ضروری مسائل کو پر امن اقدامات اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی روایت کو دونوں ممالک کے تعلقات کا مرکزی نکتہ بنایا جائے گا۔ اس سلسلہ میں بہت پہلے باچا خان نے کشمیر کا تنازعہ شروع ہوتے ہی جیل سے اس وقت کے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو خط لکھا تھا کہ وہ اس تنازعہ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ان کی بات کو درخورد اعتناء نہ سمجھا گیا جس کی وجہ سے اب تک یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔

-7 ایران، روس اور وسطی ایشیاء کی تمام ریاستوں کے مساوی خود مختارانہ حیثیت کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ فعال تعلقات کو جاری رکھیں گے اور اس ضمن میں ہر ملک کی داخلی امور میں دخل اندازی سے احتراز کیا جائے گا۔

-8 چین کے ساتھ موجودہ تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی مزید فعالیت اور بہتری کے لئے کوشش کی جائے گی۔

-9 اے این پی امریکہ کے ساتھ مساویانہ تعلقات کو پروان چڑھانے کی حتی الوسیع کوشش کرے گی تاکہ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی خود مختارانہ حیثیت بھی مجروح نہ ہو اور تعلقات میں پائیداری بھی برقرار ہو۔ ایسی پالیسیوں سے اجتناب کیا جائے گا جن کا نتیجہ شدید ردعمل اور مسلح تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔

-10 اے این پی کی خواہش ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھایا اور مضبوط کیا جائے۔

-11سارک شنگھائی تعاون تنظیم، او آئی سی اور ای سی او کی تنظیموں میں پاکستان کو تعمیری اور فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔

-12 ہمارے سفارت خانے غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں پر خصوصی توجہ دیں گے، خصوصاً ملائشیا، سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں مقیم بہت سارے پختونوں کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔

-13 پاکستان سیاسی مسائل کے حل کے لئے سیاسی اقدامات کو طاقت کے استعمال پر ترجیح دے گا۔

-14 پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں علاقائی دوغلے پن، گریٹ گیم یا ڈبل گیم کے بجائے آزاد خود مختارانہ اصول پر عمل پیرا ہوگا۔

تازہ ترین