• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25؍جولائی کا سورج نئی منزلوں کی چمک اور سہانے خوابوں کی دمک لئے طلوع ہوگیا۔ نقاش فطرت نے صبح کی روپہلی کرنوں کا سونا بکھیر دیا۔ دماغ کی گیلی گیلی سوچوں سے بھیگے بھیگے خدشات بارش کے قطروں کی طرح ٹپک رہے ہیں۔سوچ کسی ایک نکتے پر مرتکز ہی نہیں ہورہی، کٹی پتنگ کی طرح دل ڈول رہا ہے۔ آج کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کون ہوگا؟ سوال ہزار، جواب ندارد! پرجوش ماحول میں بھی ہماری حالت ایسی جیسے مون سون کی گھٹائوں سے گھرے آسمان کو دیکھ کر لطف اندوز نہیں ہوتے کہ بارش کے بعد کے خدشے اور اندیشے ڈرانے لگتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی خدشات انتخابی مہم دیکھ کر لاحق ہوئے تھے اور آج گرم سیاسی حالات اور تنائو کے ماحول میں انتخابی معرکہ ہے۔ کم و بیش سب سیاست دانوں نے انتخابی مہم میں اپنا سارا زورخطابت اپنے کردار ،اپنی دیانتداری کا یقین دلانے اور اپنی قوت گویائی مخالف سیاست دانوں کی کردارکشی پر خرچ کردی تھی۔ شاید ان کی زبانیں انتخابی نتائج آنے تک قابو میں رہیں، اس کے بعد کا کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ فطرت بدلی نہیں جاسکتی۔ انہیں جتنا چاہیں نظم و ضبط کے بندھن سے باندھ دیں، ان کی جتنی بھی تربیت کرلیں، ممکن ہے کچھ عرصے کیلئے اپنے آپ کو قابو میں رکھیں مگر موقع ملتے ہی اپنی اصلیت ظاہر کردیں گے۔ ایک مشہور قصہ ہے کہ فارس میں ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بن گیا۔ اس نے آتے ہی باپ کی بنائی کابینہ میں ردوبدل کردیا۔ ایک سابق وزیر انتہائی ذہین و فطین اور تجربہ کار تھا، بادشاہ نے اس سے بھی وزارت چھین لی۔ کئی لوگوں نے اس وزیر کیلئے بادشاہ سے سفارش کی لیکن بادشاہ نہ مانا۔ اس کا کہنا تھا۔ ’’اس شخص میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ میرے باپ نے اسے نہ جانے کیوں وزیر بنایا تھا۔‘‘ اصرار مزید بڑھا تو بادشاہ نے ایک شرط رکھی کہ میں وزیر سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر اس نے صحیح جواب دے دیا تو میں اسے کابینہ میں لے لوں گا۔ سب لوگ مان گئے۔ سابق وزیر کو بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا۔ ’’یہ بتائو فطرت غالب رہتی ہے یا ادب…؟‘‘ وزیر نے جواب دیا۔ ’’ادب ایک مصنوعی چیز ہے جبکہ فطرت اصل چیز ہے۔ یہ کسی بھی وقت ادب پر غالب آجاتی ہے۔‘‘ بادشاہ کو جواب پسند نہ آیا۔ وہ اسے سب کے سامنے رسوا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے وزیر کو اگلے دن کھانے پر بلوایا۔ دوسرے دن جب دربار سج گیا، دسترخوان بچھ گیا تو بلیاں شمعیں اٹھاتی ہوئی آئیں اور دسترخواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ بادشاہ نے فخریہ انداز میں سابق وزیر سے پوچھا۔ ’’یہ بتائو ،کیا ان بلیوں کے باپ شمع ساز تھے یا ان کی مائوں نے یہ کام کیا تھا؟‘‘ سابق وزیر نے کہا۔ ’’بادشاہ سلامت! آپ مجھے کل تک کی مہلت دے دیجئے، میں عملی جواب دوں گا۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ دوسرے دن ایک بار پھر دسترخوان بچھایا گیا، بلیاں شمعیں اٹھائے دستر خواں کے گرد جمع ہوگئیں۔ سابق وزیر نے آستین کو جھٹکا تو اس میں سے ایک چوہا نکلا۔ بلیوں نے جیسے ہی چوہے کو دیکھا، سب اس کی طرف لپکیں۔ ادب آداب قصہ ماضی بن گئے، شمعیں دربار میں گر پڑیں، افراتفری مچ گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے سابق وزیر نے کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے دیکھا، فطرت کیسے غالب آگئی۔ جب بلیوں کو چوہا نظر آیا تو وہ ادب آداب بھول گئیں۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے ہار مان لی اور وزیر کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔

بے شک فطرت غالب رہتی ہے، ادب آداب وقتی ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ انتخابی مہم میں سیاست دانوں کے لب و لہجے سے بھی ہوا، مزید اندازہ انتخابات کے بعد ہوجائے گا۔ جس طرح موقع ملتے ہی بلیوں نے ایک چوہے کو دیکھ کر اپنی اصلیت ظاہر کردی تھی۔ بزرگوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ اگر سنو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو یقین کرلینا مگر کسی کی فطرت بدل گئی ہے، اس کا یقین کبھی مت کرنا کہ عادات بدل سکتی ہیں، فطرت نہیں۔

انتخابی مہم میں سیاست دانوں نے سارا زورخطابت اپنے کردار اور دیانت داری کا یقین دلانے پر جبکہ اپنے مخالف سیاست دانوں کی کردارکشی پر اپنی قوت گویائی ضائع کردی۔ ان کی زبانوں سے کیسے کیسے بم گرے، اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چار الفاظ بندے کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ ہیں۔ ’’میں، ہم، میرا اور میرے‘‘ انتخابی مہم ان ہی الفاظ کے گرد گھومتی رہی۔ الزام در الزام کی سیاست نے انتخابی مہم کا نقشہ ہی بدل دیا۔

بدعنوان، بدکردار اور گدھا کے الفاظ تو ایسے ادا کئے جیسے انتخابی نشان ہیں۔ شاید قارئین کو یہ قصہ یاد ہو کہ مغل شہزادے جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو گدھا کہہ دیا تھا۔ یہ بات اکبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے شہزادے کو طلب کیا۔ شہزادے نے غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اکبر نے اس سے کہا۔ شیخو! کمہار اور بادشاہ کی زبان میں فرق ہونا چاہئے۔‘‘ شہزادے نے جواب دیا۔ ’’ابا حضور! میری زبان پھسل گئی تھی۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’بیٹا! جو شخص اپنی دو تولے کی زبان قابو میں نہیں رکھ سکتا، وہ وسیع سلطنت کیسے قابو میں رکھے گا۔ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ زبان کو لگام دینا سیکھو، سلطنت خودبخود لگام میں آجائے گی۔‘‘ اب دیکھتے ہیں ہمارے تاریخی انتخابات میں کیا ہوتا ہے۔

مغرب میں انتخابات کے دوران سیاست دانوں کے کردار، شخصیات اور صلاحیتوں کو جانچنے، پرکھنے کیلئے باقاعدہ ٹیلیویژن پر مباحثے ہوتے ہیں۔ لیڈر مخالفین کی کمزوریوں اور خامیوں پر زور نہیں دیتے، نہ ہی اپنی خوبیاں بتا کر خود ستائشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ہر سوال کا دوٹوک جواب دیتے ہیں۔ کیا کرنا ہے، کیوں کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور کب کرنا ہے؟ وہ ان چار سوالات کا جواب لاکھوں سامعین کے سامنے میڈیا کو دیتے ہیں۔ عوام سنتے ہیں اور پھر سوچ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ کیا ہم نے انتخابی مہم کو جانچا، منشور کی خوش نما سطروں کو حافظےمیں جگہ دی۔ سوچا پاکستان کو ووٹ دینا ہے لیکن کس کو…؟

یاد رکھئے ہمارا حال ہمارے ماضی کا ماحصل ہے۔ ہمارا مستقبل وہ فصل لگائے گا جس کا بیج ہم آج بو رہے ہیں، جس کی کونپلیں چند ماہ میں پھوٹ جائیں گی، جس کے پھول پانچ سال تک کھلتے رہیں گے لیکن یہ خوش رنگ اسی وقت ہوں گے جب بیج اچھے ہوں گے۔ تبدیلی کے نعروں میں مست نہ ہوں، تبدیلی کون لا سکتا ہے، یہ سوچ کر اپنا قیمتی ووٹ دیں۔ 2008ء کے امریکی صدارتی انتخابی مہم میں اوباما نے ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا "Change We Can beleve in" پھر یہی نعرہ "Change We need" میں بدل گیا۔ یہ نعرہ اتنا مسحورکن تھا کہ اس کے بل پر اوباما امریکاکے صدربن گئےلیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے نئے نظام کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا، بے روزگاری کے خاتمے کی کوئی راہ تلاش نہیں کی، نتیجہ یہ ہوا کہ تبدیلی کا نعرہ محض نعرہ ہی رہا۔ گزشتہ پانچ سال سے پاکستان میں بھی تبدیلی کا نعرہ گونج رہا ہے۔ دو نہیں ایک پاکستان کا شور بلند ہورہا ہے۔ بے یقینی اور ہلچل کی گرفت میں پرانے کینوس میں نئے رنگ بھرنے کا کام تو شروع ہوچکا ہے لیکن کینوس میں آپ نے بھی نیا مگر پائیدار رنگ ڈالنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیسے ڈالا جائے؟ کیسے پرکھا جائے؟ اس کے مختلف انداز ہوتے ہیں، سوچ ہوتی ہے۔ عظیم مفکر ابن خلدون نے کہا تھا۔ ’’تاریخ دائروں میں سفر کرتی ہے۔‘‘ ایک لاطینی امریکی ادیب نے کہا تھا۔ ’’جو بیت گیا، وہ تاریخ ہے۔ انسان نہ تو اس سے سبق سیکھے گا، نہ ہی یاد رکھے گا۔ اس کی دلچسپی تو مستقبل میں ہے، نامعلوم میں ہے۔ وہ فقط پیش گوئیوں کا گرویدہ ہے۔‘‘ ہم 70؍سال سے دائروں میں سفر کررہے ہیں۔ ہماری بولتی تاریخ ہے لیکن عوام خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی کوئی آواز نہیں۔ ایک خاموش جنگل میں کوئل کی آواز تنہائی کو کم تو کرسکتی ہے مگر جنگل کو ہرابھرا تو نہیں کرسکتی لیکن دوربین نگاہیں ابھرتے ہوئے آثار سے اندازہ لگا لیتی ہیں کہ آنے والے حالات کا رخ کیا ہوگا۔ ایک اچھے سیاسی اور معاشرتی نظام کے اندر پیش بینی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہوتا ہے جو عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں جگہ پاتے ہیں۔

لیکن عوام ہی کو بھول جاتے ہیں، یاد اس وقت آتے ہیں جب پھر انہیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا المیہ اچھی قیادت سے محرومی ہے۔ ہم اپنے لیڈروں کو کوستے ہیں اور لیڈر ایک دوسرے کو، ساتھ ان کی کردار کشی بھی کرتے ہیں۔ سلیم احمد کا ایک جملہ یاد آرہا ہے کہ، ’’لیڈر سڑک پر لگے راہ دکھانے والے اشارے کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ پتا نہیں اس میں کتنی صداقت ہے، لیکن اتنا پتا ہے کہ دیگر انتخابات کی طرح حالیہ انتخابی مہم میں بھی سیاست دانوں نے عوام سے بڑے وعدے کیے ہیں، جتنے مسائل پر شور مچا، ان پر انتخابی مہم میں چیختے دھاڑتے کہا، ہم پانی سے لے کر بجلی تک، تعلیم سے لے کر صحت تک، روزگار سے لے کر رہائش تک سارے مسائل حل کریں گے،ساتھ دھڑلے سے اپنے مخالفین پر الزام تراشیاں کیں۔ معروف شاعر جون ایلیا نے کہا تھا، ’’جھوٹ پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہوگیا ہے اور سچ نے ہکلانا شروع کردیا ہے۔‘‘آج کے حالات دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ جیسے یہ ایک سطری فکر ہمارے سیاسی طبقے کے لیے تخلیق کی گئی ہو، لیکن محسوس کرنے کی بات ہے۔ بہرحال امید تو ہےکہ بدلتی ہوئی صورت حال سیاست کا چلن بدلے گی۔ گرچہ نہ روٹی سستی ہوگی، نہ قیمتی ہوگی جان، بس اتنی امید ہے کہ جاگ اٹھے گا پاکستان۔

لیکن جگانا ہم نے ہے، ہم عوام نے، آج فیصلے کا دن آپ کا ہے، کل اختیارات کا دن منتخب نمائندوں کا ہوگا۔ دعووں اور وعدوں کابھرم رکھنے کاو قت شروع ہوگا۔ لیکن آپ (عوام) جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں۔ آپ کا غلط فیصلہ پانچ سال تک آپ کو کچوکے لگاتا رہے گا۔ یو ایس ایڈ کے ایک آفیشل نے کہا تھا،ـ"Pakistan take decisions in hurry and repent at leisure"یعنی ’’پاکستانی جلد بازی میں فیصلے کرتے ہیں اور پھر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔ اپنی ملک کی تاریخ دیکھیں تو یہ بات کسی حد درست لگتی ہے، لیکن اب بدلیں خود کو بھی اور ملک کو بھی۔ نئے ارادوں کے ساتھ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے وقت سے پہلے جاگ تو گئے ہیں، سوتے ضمیر کو بھی جگائیں۔ یادرکھیں، ہر نئے لفظ کے ساتھ ’’اکوے‘‘ پھوٹتے ہیں، بور آتا ہے، پھول کھلتے ہیں اور ظاہری سطح پر امیج کو استعارے میں تبدیل کرنے میں کہیں کہیں علامتیں، اشارے اور کنائیے اس میں جڑتے چلے جاتے ہیں، مستقبل سے جڑے ان پھولوں کو بہار کارنگ آپ نے دینا ہے، ارادوں کو وسعت دیں، نئے آسمانوں کی تلاش ہر زمانے میں ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب کیوں پوچھتا۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

خواب دیکھنے والی نسل بے دار ہوجائے اوراپنے ووٹ کی طاقت سے اپنی ہی نہیں ملک کی تقدیر بھی بدل دیں۔ کسی دانانے کہا تھا، سیاست دان اگلے انتخابات کی فکر کرتا ہے، مدبر اگلی نسل کی فکر کرتا ہے اور نسل نو مستقبل کی فکرکرتی ہے۔ 

تازہ ترین