• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں قانون سازی دو طرح سے ہوتی ہے ایک عدالتی فیصلوں کے ذریعے سے جسے عدالتی نظام (Judicial Precedents) کہتے ہیں۔ دوسری پارلیمنٹ کے ذریعے سے

جو ایک طویل مرحلہ وار عمل ہے۔ پہلے پارلیمانی پارٹیاں اپنی تجاویز پیش کرتی ہیں، پھر کمیٹیوں کی سطح پر اس پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے، پھر اسے ڈرافٹنگ کے لئے دیا جاتا ہے۔ آخر میں اسے منظوری

کےلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی ہاﺅس آف کامنز (House Of Commons) اور ہاﺅس آف لارڈ (House Of Lords) کے سامنے پیش کیا جاتاہے، وہاں اس

کے ممبران متعلقہ قانون پر اظہار خیالات کرتے ہیں اور جب ووٹنگ کے ذریعے سے اکثریت اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کہا جاتا ہے اور برطانیہ کا قانون بن جاتا ہے۔

برطانیہ کا کوئی تحریری دستور نہیں ہے، عدالتی فیصلوں اور پارلیمانی قانون سازی کے ستونوں پر اس ملک کا عدالتی اور جمہوری نظام کھڑا ہے اور اس طرح صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ تیرھویں صدی

عسیوی 1215ءمیں برطانیہ میں ایک اہم قانون منظور ہوا تھا جسے میگنا کارٹا کہتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعے ہر کسی کو عدالتی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ عوام سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اب کسی فرد

واحد کی مرضی اور منشاءکے تحت فیصلے نہیں ہوں گے بلکہ ہر کوئی انصاف کے حصول کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے گا اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے گا۔ اس میگنا

کارٹا میں چرچ آف انگلینڈ (Church Of England) کو ملک کے سرکاری مذہب کا تحفظ دیا گیا تھا۔ اب قانونی طور پر بادشاہ اور ملکہ محافظ عقیدہ (Defender Of

The Faith) بھی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سے مسلمانوں کی کثیر تعداد برطانیہ میں آنا شروع ہوئی ہے اور یہاں انہوں نے دو ہزار کے قریب مساجد اسلامی مراکز اور سکولز و

کالج بنائے ہیں اور کمیونٹی سنٹرز قائم کئے ہیں، برطانوی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے معاملے میں دوسرے یورپی ملکوں کی نسبت دوستانہ اور اخلاقی اور قانونی مدد فراہم کرنے والا رہا ہے۔ ایک ملاقات

میں برطانیہ کے آئندہ بننے والے بادشاہ پرنس چارلس نے مجھ سے ذاتی طور پر تصدیق کی تھی کہ جب وہ بادشاہ بنیں گے وہ کسی خاص عقیدہ کے محافظ بننے کی بجائے تمام عقیدوں کے محافظ بننا اور

کہلانا پسند کریں گے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جس سے آئندہ برطانیہ کے مسلمانوں کے مستقبل کی نشاندہی ہوتی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ بہتری کی طرف قدم بڑھیں گے۔ امریکہ میں ناپاک

ذہنیت کے جس شخص نے آقائے دو جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی گستاخی پر مشتمل ایک لچر، بے ہودہ اور غلیظ فلم بنانے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کینہ فطرت ابلیسی

فرزند کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور مختلف فورمز پر مسلمان اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ برطانیہ میں بھی مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں نے مشترکہ طور پر لندن

کی سڑکوں پر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہاﺅس آف پارلیمنٹ کے سامنے اور یوٹیوب کے دفتر کے باہر ہونے والے مظاہرے اس کی مثال ہیں۔ بات صرف مظاہروں جلسے اور جلوسوں سے حل نہیں

ہوسکتی یہ تو صرف مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے آگاہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل کام تو عدالت سے فیصلہ حاصل کرنا ہے، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور پارلیمنٹ کے

ذریعے قانون سازی کرائی جائے تاکہ اس طرح کے فتنے کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہوجائے۔ یوں تو برطانیہ کے مختلف علماءو مشائخ اس سلسلے میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن علامہ پیر علاﺅ الدین

صدیقی کا جذبہ بہت ہی توانا ہے اور اس پیرانہ سالی میں ان کی جدوجہد جوانوں کے لئے مہمیز کا کام کر رہی ہے۔ بڑھاپے میں انہیں مختلف جسمانی بیماریوں اور عوارض کا سامنا ہے، آرام سے بیٹھنا

مشکل ہے، چلنا دشوار ہے، مصافحہ کرنے میں آسانی نہیں ہے لیکن چہرے پر وہی رونق ہے اسی طرح ہشاش بشاش اور مسکراہٹ سے مزین ہے جو ان کی شخصیت کی پہچان ہے۔ میں نے ان کی خدمت

میں گزارش کی کہ ہمیں دونوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ عدالت سے بھی ریلیف مانگیں گے اور پارلیمنٹ کے فلور پر اس معاملے کو اٹھانے کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ کے ارکان

سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پارلیمانی روایات قوانین اور ضوابط سے آشنائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہاں پارٹی وہپ کا بڑا کردار ہوتا ہے وہ کسی ممبر کو پارٹی پالیسی کے خلاف بات

کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ پارٹی کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ہر رکن پارٹی پالیسی کے مطابق ہی آواز بلند کرے، اس معاملے کی نگرانی کے لئے وہپ ہوتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ

ہمارے ریستورانوں اور کمیونٹی سنٹرز میں پر لطف اور لذیذ کھانوں کی محافل میں دھواں دھار تقاریر کرنے والے ممبران پارلیمنٹ میں جاکر اس انداز میں بات نہیں کرتے ورنہ آج تک کشمیر کا مسئلہ حل

ہوچکا ہوتا۔ وہ اس انداز سے بات کرنے پر متحمل نہیں ہوسکتے جس طرح وہ نجی محفلوں میں کرتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ممبران پارلیمنٹ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرکے انہیں اس بات

کا قائل کیا جائے کہ جب بھی پارلیمنٹ میں تحفظ ناموسِ انبیاءکا ایکٹ اور اس سے ملتا جلتا کوئی قانون منظوری کے لئے پیش کیا جائے تو وہ اس کی مکمل حمایت کریں، اس سلسلے میں سب سے پہلے

غیر مسلم ارکان سے رابطہ ضروری ہے۔ حضرت پیر علاﺅ الدین صدیقی نے اس کام کا آغاز کر دیا ہے دوسرے علماءاور مشائخ کو بھی اس سلسلے میں متحرک اور فعال ہونا پڑے گا۔ اس میں کس نے

پہلے آغاز کیا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو ایسا معاملہ ہے کہ اس تحریک میں کسی بھی کونے میں کوئی کھڑا ہوا ہوگا اور اس پر میرے سرکار کی ایک نظر کرم پڑے تو دنیا اور آخرت سنور جائے گی لہٰذا

اپنے اپنے علاقے کے ممبران پارلیمنٹ سے رابطہ کیجئے انہیں گھر پر بلایئے اور یا ان کے دفتر میںجایئے اور انہیں قائل کیجئے کہ ہمارا مسئلہ کتنا اہم کتنا سنجیدہ اور حساس ہے۔ اگر ہم متحرک نہ

ہوئے تو اقبال کی روح تڑپے گی اور پھر پکارے گا:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
تازہ ترین