• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی ظفر اور مایاعلی کی نئی فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘دیکھے بغیر ہی بری لگنے لگی ہے اور کیوں نہ لگے ؟اس فلم نے دیامیر بھاشااور مہمند ڈیم کی تعمیر کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔ دیامیر بھاشاڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے 6جولائی کو سپریم کورٹ کے زیر اہتمام جو بینک اکائونٹ کھولا گیا تھا ،فراخدلی سے عطیات جمع ہونے کے باوجود 24جولائی کی شام تک اس اکائونٹ میں صرف 310,688,663روپے جمع ہو سکے ہیں یعنی 19دن میں یومیہ اوسطاً16,352,034روپے اکٹھے ہو ئے جبکہ میڈیا کے مطابق ـ’’طیفا اِن ٹربل‘‘نے پہلے دن 2کروڑ 31لاکھ کا بزنس کیا اور ریلیز ہونے کے بعد روزانہ اوسطاً2کروڑ روپے کما رہی ہے ۔کما کیا رہی ہے گویا دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ ناکام کر رہی ہے پاکستان میں حکومتوں نے کئی بار عوام کے سامنے جھولی پھیلانے کی کوشش کی اور لوگوں نے ہر بار ایسی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔1965ء کی جنگ میں بھارت نے لاہور سیالکوٹ سیکٹر سے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو ایوب خان نے ٹینکوں کی خریداری کےلئے عوام سے تعاون کی اپیل کی ۔جنگوں کے لئےوسائل پہلے سے مہیا کئےجاتے ہیں ،یہ بات جانتے ہوئے بھی لوگوں نے ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک مہم ‘‘میں قومی جوش و جذبے سے حصہ لیا ۔17دن بعد ارباب اختیار کو اِدراک ہوا کہ جنگیں بھیک مانگ کر نہیں لڑی جا سکتیں اور یوں اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کا راستہ تلاش کر لیا گیا۔ٹینکوں کے لئےٹیڈی پیسے نچھاور کرنے والوں کو معاہدہ تاشقند کے ذریعے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اس جنگ میں بھارت نے 710مربع میل پاکستانی علاقے پر قبضہ کیا تھا جبکہ افواج پاکستان نے 210مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا ۔یادش بخیر،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے دور اقتدار کے آخری برس لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنے کا خواب دکھایا ،پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے ذریعے اپیل کی گئی کہ روزانہ ایک روپیہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی فنڈ میں جمع کروائیں تو ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن آج تک لوگ روٹی ،کپڑا ،مکان کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔میاں نوازشریف کی ’’قرض اتارو ،ملک سنوارو ـ‘‘ مہم کسے یاد نہیں ۔2672ارب روپے کے ملکی و غیر ملکی قرضے اتارنے کے لئےکشکول پھیلایا گیا تو سالہا سال کی تگ و دو کے بعدچندہ ،قرض حسنہ اور ٹرم ڈیپازٹ شامل کرکے مجموعی طور پر 2ارب 80کروڑ روپے جمع ہوئے ۔ایک ارب 70کروڑ روپے داخلی قرضوں کی مد میں ادا کر دیئے گئے جبکہ باقی ماندہ ایک ارب 10کروڑ روپے اب بھی اکائونٹس میں موجود ہیں اور2016ء میں سیکریٹری فنانس ڈاکٹر وقار مسعود نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک یہ رقم عطیہ کرنے والوں کو واپس کرنے کے لئے تیار ہے اور پھر پرویز مشرف کے دور میں2005ء میں آنے والے زلزلے کے لئےصدارتی ریلیف فنڈ تو کل کا قصہ ہے ،تب بھی سرکاری دبائو پر سرکاری ملازمین کی تین دن کی تنخواہیں اینٹھ لی گئیں ،زور و شور سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں بلاناغہ اہم شخصیات کی جانب سے عطیات دیئے جانے کا اعلان ہوتا مگر متاثرین کی آبادکاری کا مسئلہ تب ہی حل ہوا جب غیر ملکی امداد آئی ۔
اب دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئےعوام سے چندے کی اپیل کی گئی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ عام آدمی جو اپنی تنخواہ پر انکم ٹیکس دیتا ہے ،بنیادی ضرورت کی بیشتر اشیاء خریدتے وقت انواع و اقسام کی ڈیوٹیاں اور ٹیکس دیئے بغیر جان نہیں چھوٹتی ،بجلی کے بل میں لائن لاسز کے نام پر حکومتی نااہلی کا بوجھ تو اٹھاتا ہی ہے مگر 26فیصد تک ٹیکس اداکرنے کے علاوہ نیلم جہلم سرچارج جیسے اضافی واجبات بھی ادا کرتا ہے ،اگر ڈیم بنانے کیلئے بھی اسے چندہ دینا پڑے تو پھر حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ اور سوال یہ ہے کہ ایسے تجارتی منصوبے چندے کی رقم سے تعمیر ہونے کے بعد کیا فلاحی بنیادوں پر چلائے جائیں گے اور ان سے حاصل ہونے والی بجلی لوگوں کو مفت فراہم کی جائے گی ؟اگر نہیں تو پھر لوگ چندہ کیوں دیں ؟
چلیں ایک لمحے کو محولہ بالا سب سوالات ا ور اعتراضات ایک طرف رکھ چھوڑتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ سب لوگ فراخدلی سے حصہ ملائیں بھی تو کیاایسے بڑے منصوبے چندہ جمع کرکے مکمل کئے جا سکتے ہیں ؟کیا دنیا بھر میں چندے کی رقم سے اتنا بڑا منصوبہ مکمل کرنے کی کوئی مثال ہے؟مہمند ڈیم کو چھوڑیں،فی الحال دیامیر بھاشا ڈیم کی بات کرتے ہیں ۔اس منصوبے کی لاگت 1450ارب روپے ہے ۔ صرف پانی ذخیرہ کرنے یعنی ڈیم بنانے کے لئے 650ارب روپے درکار ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم بجلی پیدا کرنے کے لئے ٹربائنیں لگانے اور اس سے متعلقہ دیگر انفرا سٹرکچر کے لئے مختص کی گئی ہے ۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے2018ء میں اس منصوبے کی منظوری دی تو زمین کی خریداری اور متاثرین کی آباد کاری کےلئے 101ارب روپے مختص کئے گئے ۔اس میں سے 72ارب روپے جاری کر دیئے گئے ہیں جس سے زمین کے حصول کا 85فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔زمین کی خریداری پر 50ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں جبکہ متاثرین کی آباد کاری پر 51ارب روپے کے اخراجات آئیں گے ۔فی الوقت تو ڈیم بنانے کے لئے کھولے گئے اکائونٹ میں اوسطاً یومیہ تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ روپے آرہے ہیںجو کچھ عرصہ بعد بتدریج کم ہونا شروع ہوجائیں گے لیکن فرض کریں عطیات دینے کا یہ جذبہ ماند ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور بھاشا ڈیم فنڈ میں ’’طیفا اِن ٹربل ‘‘ کی یومیہ کمائی کے برابر پیسے آنے لگتے ہیں۔یعنی روزانہ 2کروڑ روپے آئیں تو 1450ارب روپے جمع ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا ؟1999سال ۔بعض دوست کہیں گے کہ یہ رقم یکمشت تھوڑا درکار ہو گی ،فرض کریں ہم پہلے مرحلے میں صرف ڈیم بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور بجلی گھر لگانے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں تو بھی 650ارب روپے درکار ہونگے اور یہ رقم جمع کرنے میں 32500دن یعنی 89برس لگ جائیں گے ۔اورنومن تیل جمع ہونے کے بعد بھی رادھا نہیں ناچ سکے گی کیونکہ 89برس بعدروپے کی قدر میں کمی ،ڈالر کے نرخ میں اضافے کے سبب اس منصوبے کی مالیت کئی گنا بڑھ چکی ہو گی ۔اچھا چلیں ،ایک او رپہلو سے نہایت مثبت اور قابل عمل انداز میں اس کارخیر کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ منصوبہ خیراتی انداز میں مکمل نہیں کیا جا سکتا تو کیا ہوا؟حکومت سے تعاون کرنے کے لئے آٹے میں نمک کی حد تک تو فنڈز جمع کر کے دیئے جا سکتے ہیں مثال کے طور پر ڈیم کے لئے زمین کے حصول اور متاثرین کی آباد کاری کے لئے جو 101ارب روپے درکا رہیں ،وہ عطیات کی صورت میں جمع کر لئے جائیں۔لیکن یہ آٹے میں نمک برابر رقم اکھٹی کرنے میں بھی 5050دن یعنی تقریباً 13سال لگ جائیں گے اور تب تک یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو یہ لاگت بھی دگنا ہو چکی ہو گی ۔
چنانچہ بصد احترام گزارش ہے کہ عالی جناب! ڈیم ضرور بنائیں مگرچندے سے نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین