• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پیشہ ور صحافی کی نہ صرف دو آنکھیں ہوتی ہیں بلکہ وہ بیک وقت دو الگ الگ منظر دیکھنے پر قادر بھی ہوتا ہے۔ جس وقت پاکستان میں ملک کے عام انتخابات ہورہے تھے، میں اگر وہیں موجود ہوتا تو میرا زاویہ نگاہ کچھ اور ہوتا ۔ لیکن میں یورپ میں ہوں اور ایک ہی وقت میں دو منظر دیکھ رہا ہوں۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ انتخابات کے دن مغرب کے اخباروں کی جو پہلی خبر تھی، پاکستان میں خبروں کے ذرائع میں وہ خبر اس طرح ڈھونڈنی پڑی جیسے چاول میں کنکر چنے جاتے ہیں۔ خبر یہ تھی کہ پولنگ کے دن کا آغاز ہوتے ہی بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک بڑا خود کش دھماکہ کیا گیا جس میں تیس کے قریب افراد مارے گئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ ایک خبر کے مطابق داعش نے اس خوں ریزی کی ذمے داری قبول کی ہے۔پاکستان میں خبروں کے ذرائع نے دو ایک بار نشرکرکے اس خبر کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ ان کی مجبوری بھی سمجھ میں آتی ہے۔ خود الیکشن کی خبریں زیادہ اہم تھیں اور ان میں کشش بھی زیادہ تھی ۔ ہم دنیائے صحافت میں یہ سنتے آئے تھے کہ ہر بڑی خبر چھوٹی خبروں کو کھا جاتی ہے لیکن پولنگ کے دن سارے اصول تلپٹ ہوگئے۔
پاکستان کے انتخابات سے پہلے نہ صرف مغربی ملکوں کے بلکہ بھارت کے اخبارات نے بھی ایک عجب رویہ اختیار کیا تھا۔ ان کی اس سرخی نے بڑی دھوم مچائی تھی کہ پاکستان میں ملک کے ’غلیظ ترین‘ انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ تو ایک سرخی کی بات ہوئی۔ ان اخباروں کا پورا رویہ یہ تھا کہ خدا خیر کرے، پاکستان کو یہ انتخابات راس آتے نظر نہیں آتے۔ منہ سے اس طرح کے الفاظ ادا کرتے ہوئے ان اخباروں کا اشارہ اس طرف ہوتا تھا کہ ملک کے اگلے وزیر اعظم عمران خان ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو غضب ہو جائے گا۔ بھارت کے اخباروں نے تو نام لے لے کر عمران کے خلاف کوسنا کاٹنا شروع کردیا تھا۔اوپر سے ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ بقول شخصے’ اس کے پیچھے وردی ہے‘۔یہ اخبارات اتنی سے بات نہ سمجھا سکے کہ عمران خان کی ممکنہ کامیابی میں انہیں کیا قباحت نظر آرہی ہے۔ بھارت کے اخباروں نے تو گلے شکوے بھی کئے کہ ہم نے نواز شریف پر اتنی نوازشیں کی تھیں، ہمیں اس کا اجر ملنا چاہئے اور یہ کہ بھارت کی فلاح مسلم لیگ نون کی کامیابی ہی میں ہے۔ اس معاملے میں مغربی اور بھارتی میڈیا کہ ہم نوا ہونے پر کہا جانے لگا کہ یہ پاکستان کے انتخابات کے سلسلے میں ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔ اس با ت پر ایک بار ماتھا ٹھنکا ضرور۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی خفیہ دراندازی سے اٹھنے والی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے۔ ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ جدید ٹیکنولوجی کے اس دور میں جب روس جیسا ترقی یافتہ ملک امریکہ جیسے طاقت ور ترین ملک کے انتخابات میں زہر گھول سکتا ہے تو غریب پاکستان کی بساط ہی کیا۔ یہ ملک چاہیں تو پاکستان کے نظام کو ’ہیک‘ کرکے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ بظا ہر پاکستان میں ایسے کسی اندیشے کی روک تھام کے بندوبست نہیں کئے گئے ہیں ۔ ڈر یہ ہے کہ اگر نتائج کے رجحان ان طاقتوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے تو کچھ عجب نہیں کہ ان کے ہیکرز سارے نظام میں مداخلت کریں۔یہ محض اندیشہ ہے، یقین نہیں۔
پاکستان میں ہم نے جتنے بھی انتخابات دیکھے ہیں، ان سب کے دوران بعض شکایتیں اتنی باقاعدگی سے اٹھتی ہیں کہ اگر نہ اٹھیں تو شک ہونے لگے کہ بات کسی دوسرے ملک کی ہورہی ہے۔مثال کے طور پر پولنگ صبح دیر سے شروع ہونا۔ پولنگ کے عملے کا وقت پر نہ پہنچنا۔ ووٹنگ کے سازوسامان کی ترسیل نہ ہوسکی۔ ناپسندیدہ لوگوں کی یلغار، جعل سازی اور ٹھپہ گردی کی کوششیں، لوگ بیلٹ بکس اٹھا کر لے گئے۔اور تو اور لوگ پولنگ افسر ہی کو اٹھا کر چلتے بنے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ اپنا ووٹ ڈالنے گئے تو پتہ چلا کہ آپ کا ووٹ ڈالا جاچکا ہے۔ یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ بے قاعدگیوں کی یہ فہرست بڑی ہی دراز ہے ۔
بس ایک بات ایسی ہے کہ جی تعریف کئے بغیر نہیں مانتا۔ یہ جو پاکستان میں ٹیلی وژن نام کی بلا نازل ہوئی ہے اس نے چالبازوں کا کام دشوار بنا دیا ہے۔ ٹی وی نے پولنگ او رووٹنگ کے عمل پر اتنی کڑی نگاہ رکھی کہ کوئی شرانگیزی اس کی نظر سے بچ نہ سکی۔ اگر چہ الیکشن کمیشن کی عائد کی ہوئی پابندیاں لوگوں نے خاک اور دھول کی طرح اڑا دیں ۔ وہ ہر قسم کی ممانعت کے باوجود پولنگ بوتھ میں اپنے اسمارٹ فون ساتھ لے گئے اور پرچی پر اپنا ٹھپہ لگاتے ہوئے اس کی تصویر بھی بنالی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ اسی طرح کے اور بھی گھپلے ہوئے جنہیں کوئی کہاں تک روکے۔ یہ تو عام لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ قاعدے قانون کا احترام کریں، خود ہی خاموشی سے اس کی پابندی کریں، چپ کر کے ووٹ ڈالنے آئیں اور چاپ کئے بغیر گھروں کو لوٹ جائیں۔ یہ میرا یا کسی دیوانے کا خواب نہیں۔ میں نے برطانیہ میں کم سے کم پندرہ بیس مرتبہ ووٹ ڈالے ہیں۔ پاکستان والے یہاں کے انتخابات دیکھ لیں تو یقین نہ کریں اور کہیں کہ یہ الیکشن ہورہا ہے یا کسی میت کے آخری دیدار کرائے جارہے ہیں۔ یہا ں الیکشن کے روز چھٹی نہیں ہوتی۔ ہر شخص اپنے اپنے کام پر جاتا ہے۔ بس یا تو جانے سے پہلے خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال جاتا ہے یا کام سے فارغ ہوکر واپسی پر ووٹ ڈال دیتا ہے۔ نہ کوئی نعرہ لگتا ہے نہ شور شرابہ ہوتا ہے۔ کوئی کسی سے بات تک نہیں کرتا۔ گھر جاکر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں ۔ صبح ہونے سے پہلے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹوری پارٹی نے اپنے کرتوتوں کی سزا پائی یا لیبر پارٹی نے غریبوں اور طالب علموں سے جو وعدے کئے تھے ان کا اسے ثمرہ مل گیا۔
زندہ قومیں اسی دھج جیتی ہیں۔ رشک آتا ہے ان کے جینے پر۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین