• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخی طور پر ملاحظہ کیا جائے تو 70ءسے لیکر اب تک کبھی ایسے انوکھے الیکشن نہیں دیکھے گئے، خوف اور بے یقینی کے خدشات کے خصوصی طور پر ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔اس دردناک کہانی کی کڑیاں الیکشن 2013ء کے ’’ناپسندیدہ ‘‘ انتخابی نتائج سے ملتی ہیں جو بعض حلقوں کی امنگوں کے مطابق نہیں آئے تھے حالانکہ ہارنے والے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والوں کو مبارکبادیں پیش کر چکے تھے مگر پھر یکایک باسی کڑی میں ابال آیا اور دھاندلی کے الزامات شروع ہو گئے جوہر ٹائون اور دھرنا 2 سے ہوتے ہوئے دھرنا 2+کے بعد شدید ترین منافرت میں ڈھل گئے ۔تین مرتبہ منتخب ہونے والی شخصیت کے خلاف دن بدن نت نئے الزامات کی سیریز چلتی رہی اور کردار کشی کی حد تک منفی پروپیگنڈے میں ڈھلتی گئی۔ دھاندلی کے الزام سے بات نہ بنی تو کرپشن کا گھسا پٹا روایتی نعرہ گونجنے لگا ایک الزام درست نہیں لگا تو دوسرا، دوسرا نہیں تو تیسرا مابعد اس میں ملک دشمنی کے تڑکے لگانے شروع کر دیئے گئے۔زبانیں بھی اپنی تھیں اور دکانیں بھی ، عین انتخابی مہم کے دوران منفی پروپیگنڈے کی بوچھاڑ میں منتخب پاپولر قیادت کو جیل ہو گئی ۔اس دوران سیاسی جوڑ توڑ یا اکھاڑ پچھاڑ کی انتہا ہو گئی ۔سینیٹ الیکشن میں جس طرح حکمران پارٹی کے امیدواروں سے ان کا انتخابی نشان چھینتے ہوئے انہیں آزاد قرار دے دیا گیا۔پارلیمینٹ کی آئینی ترمیم کے فیصلے کو واپس کر دیا گیا اس سے الیکٹ ایبل کو سمجھا دیا گیا کہ قطار اندر قطار کنگز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے جائو پھر آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس پارٹی ٹکٹ کے حصول کو امیدوار کامیابی کی سند خیال کر رہے تھے، اسی ٹکٹ کو واپس کرتے پائے گئے ۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں الیکشن 2018ء کا انعقاد ہوا پاپولر پارٹی کے حوصلے پست کرنے کیلئے ن لیگ کے قائد ہی کو نااہل نہیں کیا گیا ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا اس ساری ٹیم میں دو آئوٹ سپوکن افراد کا بڑا رول تھا چودھری صاحب اور شیخ صاحب ۔پوری دنیا کے میڈیا میں شور اٹھاکہ پاکستان میں یہ کس نوع کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں پوری انتخابی مہم میں محض ایک لاڈلے کو کھلی چھوٹ ہے جبکہ پاپولر جمہوری پارٹی کا تیا پانچا کیا جا رہا ہے قومی میڈیا کو زیر کنٹرول لایا جا چکا ہے یہ سب پر واضح ہے یوں خدا خدا کرکے یہ شفاف انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔اب بھی اگر من پسند نتائج نہیں آئے تو پھر آئندہ کیلئے مزید شفافیت بھرے اقدامات پر سوچ بچار کی جا سکتی ہے۔
انتخابی نتائج سے قطع نظر انتخابی مہم جس اسلوب میںسے چلائی گئی اس کی تمام تر کوتاہیاں اپنی جگہ مگر اس میدان میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے والے بلاول بھٹو کی ہر طبقہ فکر ستائش کرتا پایا گیا ہے جس نے سب سے کم عمر ہونے کے باوجود سب سے بڑھ کر سیاسی میچورٹی کا ثبوت دیاکسی پر شدید تنقید کی ہے تو بھی توازن اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے دو ٹھوس باتیں کی ہیں ایک تو یہ کہ کنگز پارٹی بنانے والوں نے اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں1112کا اہتمام کر دیا ہے جس کا توڑ کرنے کیلئے بلاول بھٹو نے ایک نئے میثاق جمہوریت کی تجویز پیش کی ۔اس تجویز کی روشنی میں اگر ہم متوقع انتخابی نتائج کا جائزہ لیتے ہیں تو کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ آئین، جمہوریت اور پارلیمینٹ کی بالادستی پر ایمان رکھنے والی تمام جمہوری قوتیں اپنے پارٹی مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے یکجا نہ ہو جائیں۔ہماری دلی تمنا اگرچہ یہ ہے کہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی یا کم از کم جمہوری قوتوں کے تعاون سے یہ اس پوزیشن میں آ جاتی جس سے تمام غیر جمہوری و آمرنہ سوچوں کے حامل سوراخوں کو آئینی ترامیم کے ذریعے بند کیا جا سکتا اب جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں یہی کیا کم ہے کہ کنگز پارٹی کے الائنس کو بننے سے قبل ہی ناکام بنا دیا جائے کیونکہ اس کا نام نہاد وجود حکومت کے حصول سے مشروط ہے جب حکومت نہیں ملے گی تو یہ مصنوعی بیساکھیوں سے تشکیل کردہ الائنس شدید مایوسی کے ساتھ خود ہی تحلیل ہوتا چلا جائے گا۔
شرط صرف اتنی ہے کہ جمہوریت اور عوامی اقتدار اعلیٰ پر یقین رکھنے والے ذاتی و پارٹی مفادات سے بلند ہو کر عوامی و قومی مفادات پر استقامت کا مظاہرہ کریں۔ اس حوالے سے جہاں پی پی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود منافرت پر مبنی پروپیگنڈے کے حاملین کو پچھلی صفوںمیں بٹھاتے ہوئے میثاق جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو اگلی صفوں میں لائے۔دوسری طرف مسلم لیگ ن اپنی ساری توجہ پنجاب میں حکومت سازی پر مرکوز کرتے ہوئے نہ صرف مجوزہ فارورڈ بلاک کا قلع قمع کرے بلکہ وفاق میں وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھے اور پی پی کے ساتھ دست تعاون بڑھائے یوں اے این پی، ایم کیو ایم، محمود خاں اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ ہم خیال آزادوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ جمہوریت کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں تو جمہوری قوتیں ہر دو صورتوں میں یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔پی ٹی آئی جینوئن سیاسی و جمہوری قوت نہیں ہے درویش آج بھی اسے سیاسی جماعت کی بجائے سیاسی پریشر گروپ خیال کرتا ہے۔ان لوگوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں جس طرح خود اپنے ہی بلند بانگ دعوئوں کو روندا ہے اس سے نہ صرف یہ اخلاقی طور پر پستی میں گئے ہیں بلکہ جن لوگوں نے برسوں مار کھائی تھی ان کی بھی تذلیل ہوئی ہے ان لوگوں کا ضمیر جاگا تو اس کی قیمت سابق کھلاڑی کو چکانی پڑے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین