• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر اوباما کی دوسری انتخابی جیت کا آنکھوں دیکھا حال 2008ء کی تاریخی صدارتی جیت سے بھی زیادہ دلچسپ اور چشم کشا مشاہدات اور تاریخی طور پر منفرد تفصیل اور تجزیئے کا طالب ہے مگر اختصار کی تعمیل کرتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ افریقی نژاد امریکی بارک حسین اوباما اپنی جائے پیدائش، صلاحیت و چار سالہ کارکردگی ، عقیدہ اپنے خیالات اور امریکہ کیلئے حب الوطنی سمیت ہر قابل ذکر معاملہ میں مخالفانہ پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر بھی ری پبلکن پارٹی کے سرمایہ داروں اور سیاسی قدامت پرستوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود دوسری مرتبہ بھی تاریخی انتخابی کامیابی حاصل کرکے ری پبلکن حریف مٹ رومنی کو شکست سے دوچار کر گئے۔ شگاگو کے ایک غریب علاقے کے بلڈنگ مالکان کے خلاف غریب کرایہ داروں کی شکایات اور مقدمات لڑنے والا وکیل اور 1996ء میں ریاستی سینٹ کے رکن منتخب ہونے والے بارک اوباما صرف بارہ سال کے عرصہ میں نہ صرف امریکہ کا سینیٹر، ممتاز ڈیموکریٹ مقرر بن چکا تھا بلکہ امریکہ کی تاریخ کا پہلا افریقی نژاد صدر بھی منتخب ہوچکا تھا۔ صدارت کے چار سال کے دوران امریکی معیشت کی خرابی اور 7فیصد سے زیادہ شرح بیروزگاری کے باوجود بارک اوباما دوسری مرتبہ بھی واضح انداز میں عوامی ووٹوں کی اکثریت اور الیکٹورل ووٹوں کی مقررہ تعداد سے بھی زیادہ حاصل کرکے کامیاب ہوگئے۔ اپنے سیاسی کیر یئر کے آغاز سے16سال کے عرصہ میں ریاستی سینیٹر، وفاقی سینیٹر اور پھر سرمایہ دارانہ نظام کی 50ریاستوں پر مشتمل امریکی فیڈریشن کا دو مرتبہ افریقی نژاد پہلا صدر منتخب ہونا ایک انتہائی غیر معمولی اور تاریخی کامیابی ہے۔ اس تاریخی کامیابی کے موقع پر پاکستان کے حوالے سے بھی ایک تاریخی بات یہ دیکھنے کو ملی کہ بعض ایسے پاکستانی نژاد امریکی جو امریکہ چھوڑ کر پاکستان جا کر صدر زرداری کو بعض امریکی سینیٹروں سے اپنی قربتوں کی کہانیاں سنا کر ان کو متاثر کر چکے ہیں اور اسلام آباد میں مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ بھی پہلے ری پبلکن مٹ رومنی کے ہیڈ کواٹر یعنی بوسٹن اور پھر اوباما کے شہر شکاگو میں منڈلاتے دیکھے گئے۔ کاش اسلام آباد کے ایوان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی ایک امریکی سینیٹر سے تعلقات اور اثر و رسوخ پاک،امریکہ تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنے یا کسی کے اقتدار کو استحکام اور تسلسل نہیں دلا سکتا بہرحال صدر زرداری کے اقتدار کیلئے امریکی کانگریس میں، قبولیت اور تسلسل دلانے والے سیاسی سیلزمین بھی اسلام آباد سے سفر کرکے شکاگو تک پہنچے ہوئے تھے۔ خدا جانے واپسی پر وہ صدر زرداری کو کیا رپورٹ دیں گے؟ بہرحال صدر اوباما نے ایک مربوط اور منظم انتخابی مہم اور ذہین اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف مشیروں اور مہم چلانے والوں کے تعاون سے انتخابی حکمت عملی اختیار کی جس میں اوباما کے ایک اہم اور موثر حامی کے بقول بعض اوقات ابہام اور کنفیوژن جان بوجھ کر رکھا گیا تھا۔ صدر اوباما کی انتخابی مہم کے سربراہ جم مینا، ڈیوڈ ایکسل راڈ، ترجمان گبز، شکاگو سے سینئر اور بااثر سینیٹر ڈک ڈربن اور دیگر اہم افراد سے گفتگو، تبادلہ خیال اور بیک گراؤنڈ کی بات چیت کے متعدد مواقع ملے اور 6نومبر کو شکاگو میں پولنگ اسٹیشنوں، پاکستانی نژاد امریکی ووٹروں اور عام امریکی ووٹروں، پولنگ اسٹیشنوں کے سپروائزروں، الیکشن ججوں اور پارٹی رضا کاروں سے بھی ملنے، انٹرویو کرنے اور نظام کی مثبت اور منفی باتوں کے بارے میں جاننے، سننے اور دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ برقع پوش مسلمان خواتین، شلوار قمیض میں ملبوس باشرع مسلمان بڑی آزادی و بے باکی سے ووٹ ڈالتے ہوئے نظر آئے۔ شکاگو میں وارن پارک کا پولنگ اسٹیشن اور گرد و نواح کے دیگر پولنگ اسٹیشن ایسے مناظر سے بھرے پڑے تھے۔ مسلمان ووٹرز ، بھارتی ہندو سکھ اور سیاہ سفید ہر نسل و رنگ کے امریکی ووٹرز سبھی جمہوری نظام کا حصہ بنے مصروف نظر آرہے تھے۔ اسکارف پہنے ایک نوجوان ماہ رخ نامی لڑکی الیکشن جج کے طور پر اپنے کام میں مصروف نظر آئی، پتہ چلا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکستانی نژاد کالج اسٹوڈنٹ بھی ہے۔ ایک ایسی کیتھرائن نامی امریکی خاتون ووٹر نے ہم کو بتایا کہ اسے ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا اور کسی دوسرے پولنگ اسٹیشن پر بھیجا گیا ہے کہ اس کا ووٹ یہاں درج نہیں ہے۔ یہ خاتون پاکستان کی طرح تین مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر گئی اور ناکام ہوکر واپس اسی اسٹیشن پر آگئی اور پھر سختی سے مطالبہ کرکے اپنا ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگئیں اور مجھے کہنے لگیں کہ میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے رہوں گی، چاہے مجھے یہ سات چکر لگواتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا سیاسی نظام بھی انسانوں کا بنایا ہوا ہے خامیاں اس میں بھی ہیں مگر انسانی رویّے اور جمہوری اقدار پر پختہ یقین بنیادی ضرورت ہے۔ ورنہ دھوکہ فراڈ جیت کیلئے سازشیں ، غلط گنتی وغیرہ کی کوشش کرنا ہر انسانی معاشرے میں تھوڑا بہت ضرور موجود رہتا ہے۔6نومبر کو پولنگ کے مکمل ہوتے ہی ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا اندرونی نظام بھی آن کردیا کہ ووٹ کی تعداد جیتنے والے پارٹی ارکان اور امیدوار اور صدارت میں اوباما بمقابلہ رومنی کیا صورت حال ہے؟ سہ پہر سے ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض اعلیٰ ذمہ داران اور حامی سرگرم تھے جن کا دعویٰ تھا کہ صدر اوباما 300/الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیں گے امریکی سینٹ میں ڈیموکریٹک نشستوں میں اضافہ ہو کر 54ہوگا اور ایوان نمائندگان میں ری پبلکن اکثریت تو رہے گی مگر ڈیموکریٹ نشستوں میں پہلے کی نسبت کچھ اضافہ ہوگا۔ بعض حقائق پسند ڈیموکریٹ حلقے جن میں بعض بااثر پاکستانی بھی شامل تھے ان کی رائے تھی کہ اوباما کو290 الیکٹورل ووٹ اور سینٹ میں دونشستوں کا اضافہ حاصل ہوگا۔ سینیٹر ڈک ڈربن جیسے باخبر ڈیموکریٹ بھی اوباما وکٹری کیلئے پُرامید اور اپنی اعداد و شمار کی خاموشی سے مجھے نوید سنا کر آگے بڑھ گئے جس کی بنیادی پر ”جیو“ کے الیکشن ٹرانسمیشن میں مجھے صدر اوباما کیلئے 285/الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی اور سینٹ میں ڈیموکریٹ اکثریت کی پیشگوئی کا دوسروں سے بہت پہلے بیان کرنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال چند گھنٹے بعد حقائق سامنے آنے پر صدر اوباما 303/الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پا گئے اور شکاگو کے میکارمک پیلس کے ہال میں ڈیموکریٹ جشن فتح شروع ہوگیا جو ساری دنیا نے ٹی وی پر دیکھا۔ صدر اوباما نے تاریخی حتمی کامیابی کے باوجود امریکہ کو متحد رکھنے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے اشتراک سے نظام چلانے، مسائل حل کرنے کی بات کی اب وہ اگلے چار سال کے لئے امریکہ کا نظام دباؤ اور مجبوریوں سے قدرے بے نیاز ہوکر یوں چلا سکتے ہیں کہ یہ ان کی دوسری چار سالہ مدت صدارت ہے اور وہ اب نہ تو صدارت کا کوئی انتخاب لڑ سکیں گے اور نہ ہی انہیں کسی انتخابی مصلحت کا سامنا ہوگا۔ وہ خارجہ پالیسی چلانے میں بھی اب ہلیری کلنٹن جیسی بھاری بھر کم سیاسی شخصیت کی موجودگی سے بھی آزاد ہوں گے اور ان کی اپنی سوچ اور انداز کا بھی دخل ہوگا جبکہ خارجہ پالیسی اور حکمت عملی تیار کرنے والی ٹیم میں وزیر خارجہ کے علاوہ فی الحال کوئی بڑی اہم تبدیلی نظر میں نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے صدر اوباما نے فی الوقت جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں بلکہ تسلسل کی توقع ہے لہٰذا پاکستان کے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو صدر اوباما اور امریکی رویّے میں تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے بلکہ اگلے چار سال تک اوباما انتظامیہ کی پاک امریکہ پالیسی سے ڈیل کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ امریکہ کے پاکستانیوں کی بڑی واضح اکثریت نے اوباما اور مٹ رومنی کے الیکشن میں بڑے شعور کا ثبوت دیتے ہوئے بارک اوباما کو کھلے بندوں ووٹ ڈال کر خود کو امریکہ کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ منسلک بھی کیا ہے اور آئندہ کے لئے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بہتر سامان کیا ہے جبکہ پاکستان میں موجود بعض پاکستانی اور اسلام آباد کے بعض حلقے مٹ رومنی کے پاکستان کے بارے میں ایک انتخابی سیاست پر مبنی قدرے نرم بیان پر خوش ہو کر اور اوباما کی سخت پالیسی پر برہم ہوکر مٹ رومنی کی حمایت اور کامیابی کے خواہشمند تھے۔ بعض تجزیہ نگار تو اوباما کی شکست اور مٹ رومنی کی کامیابی کی باتیں بھی کرتے پائے گئے۔ شاید پاکستانی میڈیا اور ”مائنڈ سیٹ“ اوباما کی کامیابی کی حقیقت کیلئے تیار نہیں تھا۔
صدر اوباما کو اپنے انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی پہلا چیلنج سی آئی اے کے سربراہ اور امریکی ممتاز جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا ایک خاتون سے تعلقات کا اسکینڈل اور اس وجہ سے استعفیٰ کی صورت میں پیش آیا۔ اسلام آباد کے سیاسی مزاج کے لحاظ سے تو یہ کوئی اسکینڈل ہی نہیں بنتا لیکن امریکی نظام میں یہ بہت بڑا اسکینڈل تھا اور صدر اوباما کی فتح کی خوشیوں پر پانی پھیرنے کے لئے کافی تھا۔ افغانستان اور عراق میں جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی فوجی کامیابیاں، مثالی ریکارڈ کچھ بھی کام نہ آیا اور خاتون سے تعلقات کا راز افشا ہوکے ہی استعفیٰ امریکی جمہوریت، اقدار اور احتساب کا خوبصورت اور متوازن پہلو پیش کرتا ہے۔ صدر اوباما کو امریکی معیشت کو بہتر بنانے کا چیلنج سب سے بڑا اور اہم چیلنج ہے جس کے لئے اوباما کو عملاً بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
20امریکی ریاستوں کی جانب سے امریکی وفاق سے علیحدگی اور آزادی کی پٹیشنوں کی خبر پر امریکہ کے ٹوٹنے کے اندیشے اور امکانات پر تشویش یا خوشی کی ضرورت نہیں کیونکہ 25ہزار ووٹروں کے دستخط سے ایسی درخواستیں پہلے بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور ناکام ہوچکی ہیں۔ یہ صدر اوباما کیلئے ایک چھوٹا چیلنج ہے انہیں ان درخواستوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا ایک قانونی ضرورت ہے جو 25ہزار ووٹروں کے دستخط مقررہ مدت میں پورا ہونے پر وہائٹ ہاؤس کے لازمی ردعمل کا محتاج ہوگا۔ ریاست ٹیکساس نے تو یہ تقاضے بھی پورے کردیئے ہیں مگر اس پر امریکہ ٹوٹنے کا کوئی فوری خطرہ نہیں۔ صدر اوباما مشکل مسائل سے دوچار اور امریکی فیڈریشن کے منتخب صدر بدستور ہیں اور 4جنوری 2013ء سے اپنی دوسری چار سالہ صدارتی میعاد کا آغاز کریں گے۔ ریاستوں کی علیحدگی اور آزادی کی کئی ایسی بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی کوششیں پہلے بھی ناکام ہوچکیں۔
تازہ ترین