• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغرب میں پاکستان کی اپنی جوہری استعداد کو بہتر بنانے اور جنیوا میں جوہری بم بنانے والے مواد کی بندش پر ایک معاہدے کی بابت ہونے والے مذاکرات میں اسلام آباد کی جانب سے اختیار کردہ موقف پر بہت واویلا مچایا گیا ہے۔ مغربی تجزیہ کار پاکستان کی اس کوشش کو اکثر و بیشتر جوہری ، سائنسی، ملٹری لابی کی بے لگام آرزوؤں سے مہمیز یافتہ ایک اندھی اور غیر معقول دوڑ سے تعبیر کرتے ہیں تاہم اس بات کا سچ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پاکستان کی فژل مواد کی ضرورت کے تذویراتی جواز کو سمجھنے کے لئے…جس کا مقصد کم سے کم ممکنہ قیمت اور سطح پر قابل بھروسہ جوہری دفاع کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے…اس معاملے کو ایک باقاعدہ اور وسیع تناظر میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی لڑی پر ایک بھرپور نظر ڈالی جائے جنہوں نے خطے کے تذویراتی توازن کو درہم برہم کر کے پاکستان کے جوہری اداروں کو متاثر کیا ہے۔ ان عوامل میں امریکہ، بھارت جوہری معاہدہ، نیوکلیئر سپلائی گروپ کی جانب سے بھارت کو دیا گیا استثنیٰ، بھارت کے روایتی فوجی و تذویراتی اثاثے، ’پیشگی کارروائی‘ سے متعلق جارحیت کے عقیدے کا برملا اظہار اور میزائلوں کے دفاع کی صلاحیت کے حصول کی کوششیں شامل ہیں۔ عالمی کمیونٹی نے اپنی تذویراتی اور تجارتی مفادات کی دوڑ میں بھارت کی ان کوششوں کی اعانت کی۔
پاکستان کے ان انتباہات کو بار بار نظر انداز کیا گیا کہ امتیازی جوہری اقدامات خطے کے لئے سنگین ثابت ہوں گے اور اسلام آباد کو تذویراتی استحکام کو یقینی بنانے اور کم از کم دفاعی جوہری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لئے مجبوراً قدم اٹھانا پڑے گا۔ تبدیل ہوتے ہوئے تذویراتی ماحول میں باہمی اثر و نفوذ…جہاں پاکستان کی نظر (خطے میں) جوہری اور روایتی صلاحیتوں میں بڑھتی ہوئی خلیج پر ہے…عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششیں اور تکنیکی مجبوریاں اس بات کی وضاحت میں مددگار ہیں کہ پاکستان آخر کیوں فژل مواد اکٹھا کرتا رہا ہے۔ تاریخی پس منظر اہم ہے۔1998ء میں پاکستان اور بھارت کی جانب سے کئے گئے جوہری دھماکوں نے (خطے میں) تذویراتی توازن کو مستحکم ہونے میں مدد دی اور پاکستان کو یہ اطمینان حاصل ہوا کہ اس کے پاس بھارت کی روایتی فوجی برتری کے جواب میں برابری کی ایک تذویراتی صلاحیت موجود ہے۔ بلاشبہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری تعلق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ابھی پیشرفت باقی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان نے تذویراتی مساوات کو مستحکم کرنے کے لئے1999ء میں بھارت کو ’اسٹرٹیجک ریسٹرینٹ رجیم‘ کی تجویز دی تھی۔ اس تجویز کے تین پہلو تھے۔ اول جوہری پابندیوں اور خطرے میں کمی کے اقدامات، دوم روایتی فوجی توازن اور سوم تنازعات کا حل۔ مگر مربوط تصور کو کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا تاہم بعض پہلوؤں کو پاکستان کے اصرار پر کبھی کبھار ہونے والے باہمی مذاکرات کا موضوع ٹھہرایا گیا۔ جلد ہی کارگل کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور نتیجتاً مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔ اس کے بعد بھارتی پارلیمان پر دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں2001-02ء کے فوجی ڈیڈلاک نے جنم لیا۔ ان عوامل کے باعث بھارت کی تذویراتی کمیونٹی میں اس خطرناک سوچ نے سر اٹھایا کہ تذویراتی برابری کو کس طرح ختم کیا جائے اور کس طرح جوہری ہتھیار استعمال کئے بغیر ایک روایتی محدود جنگ شروع کی جائے۔ اس سوچ نے نظریاتی تبدیلی کو پیدا کیا جو آخر کار ’کولڈ اسٹارٹ‘ نظریئے…گو کہ اب یہ نام مستعمل نہیں مگر نظریہ بدستور برقرار ہے…اور اس کی وضاحت اور عمل درآمد کے منصوبوں پر منتج ہوئی۔ نظریاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فوجی موقف پاکستان کے تحفظ کے لئے سنگین اثرات رکھتا تھا۔
ایک جوہری ماحول میں جنگ لڑنے کا نظریہ پاکستان کے لئے ایک سوالیہ نشان تھا جو اس خدشے کو تقویت دیتا تھا کہ دو جوہری ریاستوں کے درمیان ’محدود‘ جنگ ارادی یا غیر ارادی طور پر بہر صورت جوہری ہتھیاروں میں تیز اضافے کے خطرے کو شدید کر دے گی۔ جیسا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بعد میں خبردار کیا (کہ) ’سر پر لٹکتی جوہری تلوار کی موجودگی میں روایتی طاقت کے استعمال‘ کے حامی ایک نہایت خطرناک راستہ متعین کر رہے تھے جس کے نتائج ’غیر ارادی اور قابو سے باہر‘ دونوں ہو سکتے تھے۔ اسی اثناء میں عالمی سطح پر دیگر تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی وجہ سے حکمت عملیاں اور عظیم طاقت کے رشتے بدل گئے۔ ان تبدیلیوں میں امریکہ کی جانب سے ’چین کو محدود‘ کرنے کی حکمت عملی کا ظہور پنہاں تھا۔ اگرچہ اس پالیسی کا کبھی بھی اعلان نہیں کیا گیا اور امریکہ ، چین تعلقات صرف تعاون اورمسابقت کا رنگ رکھتے تھے مگر پاکستان کے سیکورٹی منصوبہ سازوں نے محسوس کیا کہ2005ء میں امریکہ ، بھارت سویلین جوہری معاہدہ اور بھارت کو دیا گیا ’این ایس جی‘ بازنامہ(waiver)چین کو محدود کرنے کی امریکی پالیسی کے شواہد تھے۔ ان اقدامات نے نمایاں طور پر بھارت کی تذویراتی اسلحے اور استعداد میں اضافے کی صلاحیت میں اضافہ کیا اور1998ء کے بعد وجود میں آنے والے تذوایراتی دفاعی جواب کے خلاف کامیابی کے (نئے) راستوں کی تلاش کی رفتار بڑھا دی۔ بھارت کو اپنے جوہری مواد کے ذخیرے میں معیار اور مقدار کی لحاظ سے اضافہ کرنے کے قابل بنا دیا گیا جب کہ پاکستان کو اپنے دفاع کی خاطر خود ہاتھ پیر چلانے کے لئے حالات کے سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔ ان حالات نے پاکستان کے خطرے کے تصور کو نیا روپ دیا اور جنیوا میں ہونے والی ’کانفرنس آن ڈس آرمامینٹ‘ میں ’فژل مٹیریل کٹ آف ٹریٹی‘ پر ہونے والے مذاکرات میں اس کی پوزیشن کا تعین کیا۔ اس دوران پاکستان کی جوہری سوچ بچار آزادانہ ایک دوسری راہ پر پروان چڑھ رہی تھی۔ یہ جوہری ہتھیاروں کو مختصر جسامت میں تیار کرنے کے لئے نہایت افژودہ یورینیم کی واضح لمی ٹیشنز کی وجہ سے پلوٹونیم روٹ کی تلاش کی ضرورت تھی۔ جوہری ایندھن کے پورے سائکل پر مہارت اور خود انحصاری کی خاطر پلوٹونیم تیار کرنے کے لئے چار ری ایکٹروں کی تعمیر اور ری پروسیسنگ سہولتوں کے منصوبوں کی راہ ہموار ہوئی۔ بھارت کو دیئے گئے جوہری استثنیٰ اور ایک ’ایف ایم سی ٹی‘ کو طے کرنے کے لئے امریکہ کی سفارتی کوششوں کو دیکھتے ہوئے ان منصوبوں کی رفتار بتدریج بڑھائی گئی اور تین اضافی ری ایکٹروں کے ساتھ پلوٹونیم کی تیاری میں اضافہ ہو گیا۔2009ء تک واشنگٹن نے بذات خود ایک عشرے کے لئے مذاکرات روک دیئے تھے تاہم اوباما انتظامیہ نے سنجیدہ بات چیت کے نئے دروازے کھول کر اس پوزیشن کو تبدیل کیا۔ اس کے بعد پاکستان نے فژل مواد کی تیاری کے لئے تیز راستہ اختیار کیا۔ دس سال کے عرصے میں اسلام آباد نے چار پلوٹونیم ری ایکٹر اور تین ری پروسیسنگ پلانٹ تعمیر کئے۔ پلوٹونیم روٹ ایک عشرے میں مکمل ہوا اور اس دوران پاکستان نے اس موقف پر جنیوا میں مذاکرات کئے کہ مزید تیاری پر پابندی عائد کرنے والا معاہدہ جس میں موجودہ ذخیرے شامل نہیں ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان فی الوقت موجود عدم توازن کو منجمد کر دے گا۔ سفارت کار ضمیر اکرم نے جنیوا میں پاکستان کی جوہری ڈپلومیسی کو نہایت کامیابی سے پیش کیا جو تذویراتی معقولیت اور تکنیکی ترقی کے ساتھ پروان چڑھی تاکہ سامنے موجود خطرے سے نمٹا جا سکے۔ اس دوران بھارت کے جنگ لڑنے کی تیز حکمت عملی پر مرتکز پیشگی نظریئے نے پاکستان کو جواب ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ روایتی ہتھیاروں پر مشتمل محدود جنگ کی اس قیاس پر راہ ہموار کرنے نے کہ بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں عظیم عدم توازن پاکستان کو اپنی تذویراتی استعداد کے استعمال کی دھمکی دینے سے باز رکھے گا پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ جوہری میدان میں ان قیاس شدہ خلیجوں کو پاٹنے کے لئے کوئی مناسب ترین ’حل‘ تلاش کرے۔ جب کہ پاکستان اپنی تذویراتی جواب کی استعداد پر کام کر رہا تھا بھارت کے ابھرتے ہوئے فوجی موقف نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ’فل اسپیک ٹرم ڈیٹی رینس‘ کی خاطر ڈلیوری نظام کی تیاری کی بابت فیصلہ کرے۔
پاکستان کی جوہری دفاعی تیاریوں کو ’فریب کاری‘ کا نام دینے اور ’پیشگی‘ نظریئے کو پروان چڑھانے کی کوششوں کے اقدامات کے بعد پاکستان کے پاس ’کولڈ اسٹارٹ‘ کو روکنے اور جوہری استحکام کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے تذویراتی جوہری ہتھیاروں کو تیار کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ اپریل2011ء میں زمین سے زمین تک مار کرنے والے ملٹی ٹیوب ’نصر‘ کے تجربے نے ہتھیاروں کا ایک نیا نظام متعارف کرایا۔ روایتی یا جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت والے اس میزائل نے ’ملک کی دفاعی استعداد میں ایک اور سطح‘ کا اضافہ کیا۔ اسٹرٹیجک پلان ڈویژن کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل خالد قدوائی نے وضاحت کی کہ نصر ’آپریشنل اور تذویراتی سطح پر خلیج کو پاٹ کر تذویراتی توازن‘ کو بحال کرنے والا ہتھیار ہے جو ’جنوبی ایشیاء میں امن برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس سب کا مقصد استعمال کے لئے نہیں بلکہ ’دفاع کے لئے ہتھیار‘ جمع کرنا تھا تاکہ بھارت کے روایتی فوجی جارحیت کو ایک تذویراتی سطح پر لانے کے اقدامات کا جواب دیا جا سکے۔ اس کا مقصد ان خلیجوں کو پاٹنا ہے جن پر بھارتی منصوبہ سازوں کی نظریں جمی ہیں تاکہ فل اسپیک ٹرم ڈیٹی رینس حاصل کیا جا سکے مگر میدان جنگ میں استعمال ہونے والے جوہری نظام کی تیاری نے جنگ لڑنے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نتائج کے ساتھ ڈیٹی رینس استحکام کے بارے میں کبھی نہ ختم ہونے والی بحث کو بھی چھیڑ دیا ہے۔ بھارت کے خطے میں بلاسٹک میزائل ڈیفنس کو…گو کہ یہ نظام تاحال قابل بھروسہ نہیں … اختیار کرنے کے منصوبے بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اقدامات باور کئے جاتے ہیں۔ بی ایم ڈی کا حصول ان خدشات میں اضافہ کر دے گا کہ اس ڈھال کے عقب سے ایک جارحانہ پیشگی حملہ کیا جا سکے گا۔ کولڈ اسٹارٹ کے تناظر میں یہ صلاحیت فوجی مہم جوئی کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے جس کی بنیاد اس فریب کو فراہم کرنے پر ہو گی کہ اب ہمیں جوابی کارروائی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس خدشے کے خلاف باڑ لگانے کے لئے پاکستان ممکنہ طور پر اپنے میزائلوں کی تعداد بڑھائے گا جن میں کروز میزائل بھی شامل ہیں اور پیشگی حملے کی صورت میں اپنے تذویراتی اثاثوں کو بچانے کے لئے آپریشنل سرعت میں اضافہ کرے گا۔ یہ (ممکنہ) اقدامات بھی فژل مواد کی مقدار کے تعین پر اثر ڈالیں گے جو پاکستان حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی فژل مواد کی ضروریات کے پیچھے یہی اصولی پہلو پوشیدہ ہیں۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ بھارت کے پاس موجود ہتھیاروں کی تعداد کی برابری کی جائے جس میں بھارت اگر چاہے تو امریکہ کی جانب سے جوہری ایندھن کی فراہمی کی دی گئی ضمانت اور دوسرے ممالک کے ساتھ اسی نوعیت کے معاہدوں کی وجہ سے ہتھیاروں کے استعمال کی مقامی پیداوار کا رخ موڑ کر مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کا مقصد ہتھیاروں کی بلاوجہ تیاری نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے تذویراتی، آپریشنل اور تدبیرانہ منشور کے لئے اکتفا و گنجائش کا حصول اور جوابی حملے کی صلاحیت کو یقینی بنانا ہے۔ چونکہ پاکستان کی بھارت کو ’اسٹرٹیجک ریس ٹرینٹ ریجیم‘ کے قیام پر آمادہ کرنے کی سفارتی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے اس لئے اسلام آباد کو اپنے قومی تحفظ کے مفادات کو یقینی بنانے کے لئے داخلی طور پر طاقت کی تیاری کی حکمت عملی اور جنیوا میں ایک موثر مذاکراتی حیثیت اختیار کرنا پڑی ہے۔
تازہ ترین