• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23ستمبر 2010کو نیویارک کی ایک ضلعی عدالت کے جج مسٹررچرڈ برمین نے عافیہ صدیقی کیس کا فیصلہ سنایا۔ ایک سو گیارہ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جج نے لکھا کہ ”اس بات کے ناکافی ثبوت ہیں جو حتمی طور پر اس بات کا تعین کر سکیں کہ 2003سے 2008کے درمیان عافیہ صدیقی کہاں رہیں ؟عافیہ کے خاندان والوں نے بھی، اپنے اس نقطہ نظر کی حمایت میں کہ عافیہ(ان پانچ برسوں میں) امریکیوں کی تحویل میں رہی، کوئی ثبوت نہیں پیش کیا۔اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ عافیہ کو پاکستانی جاسوس اداروں نے اٹھایا یا تحویل میں رکھا…“ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ حکومت پاکستان کے مقرر کردہ وکیل صفائی اور عدالت کے وکلا نے عافیہ کے دفاع میں ہر ممکن دلائل دئیے مگر اس ضمن میں کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے ۔اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ٹرائل کے دوران حکومت پاکستان کی جانب سے کسی قسم کا کوئی بیان یا دستاویز مہیا کی گئی ہو …اگر عافیہ کے خاندان والے اور پاکستان میں ان کے سیاسی حامی اپنے مقبول نقطہ نظر کی حمایت میں کوئی ثبوت فراہم کرنے کی زحمت کرتے تو ممکن ہے کہ کیس کا فیصلہ کچھ مختلف ہوتا ۔جج نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ ”عافیہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2003میں وہ ماجد خان نامی ایک شخص کی گرفتاری کے بعدروپوش ہو گئی تھیں ،ماجد خان مبینہ طور پر وہ شخص تھا جسے عافیہ نے بالٹی مور ،میری لینڈ میں ایک میل باکس بنانے میں مدد دی تھی۔ماجد خان اس وقت گوانتانامو بے میں قید ہے ۔عافیہ کچھ عرصہ عمار ال بلوچی کی فیملی کے ساتھ مقیم رہیں …اور جب پاکستانی ایجنسیوں نے ال بلوچی کو گرفتار کیا تو عافیہ کراچی چلی گئیں…ان پانچ برسوں کے دوران عافیہ صدیقی کے سابقہ شوہر محمد امجد خان مبینہ طور پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے 2003سے 2005کے دوران کئی مرتبہ عافیہ کو کراچی میں ٹیکسی میں سفر کرتے دیکھا …“
جج صاحب کے بعد اب ذرا عافیہ کے اپنے وکیل ڈان کارڈی کا بیان بھی ملاحظہ کر لیں”Nothing can be ruled out, because, in fact, "we dont really know what happened and what the truth is. We dont know what happened to Dr Siddiqui. We dont know what happened to her between 2003 and 2008."
یعنی خود عافیہ کا وکیل بھی اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ عافیہ 2003سے 2008کے دوران کہاں غائب رہیں ! اور یہی اس مقدمے کا سب سے اہم پہلو ہے جس کے گرد یہ پراسرار کہانی گھومتی ہے۔ کیا آپ میں سے کسی کو یاد ہے کہ عافیہ صدیقی کا نام پہلی دفعہ کب سنا گیا ؟ 2003میں ؟ جی نہیں ۔2008کے بعد۔اگر عافیہ 2003میں غیر قانونی طور پر لا پتہ ہو گئیں تھی تو اسی وقت ان کے اہل خانہ کو اس گمشدگی کی اطلاع دینی چاہئے تھی اور میڈیا میں واویلہ کرنا چاہئے تھا کہ عافیہ کو امریکی یا پاکستانی ایجنسیاں اٹھا کر لے گئی ہیں۔مگر ایسا نہیں ہوا۔امریکی سفیر این پیٹرسن نے سبکدوش ہونے سے پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے پاکستانی میڈیا کو چیلنج کیاکہ کوئی بھی آزاد صحافی افغانستان جائے اور خود تحقیق کرے کہ کیا جولائی 2008سے پہلے عافیہ امریکی تحویل میں تھی ؟امریکی عدالت کے مطابق عافیہ کو سب سے پہلے غزنی ،افغانستان میں افغان سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ایک عام پاکستانی عورت کا افغانستان میں کیا کام؟
اس ضمن میں سب سے زیادہ غیر واضح اور مبہم رویہ خود عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کا ہے ۔دو برس قبل جیو نیوز کے پروگرام”کیپیٹل ٹاک“ میں ان سے پوچھا گیا کہ عافیہ 2003میں کہاں غائب ہو گئیں تھی تو ان کا جواب تھا ”مجھے نہیں پتہ۔“اور اب اس المناک کہانی کا آخری ”ٹوئیسٹ“ … شمس الحسن فاروقی… جو عافیہ صدیقی کے چچا ہیں اور اسلام آباد میں جیولوجسٹ ہیں۔فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی بھتیجی عافیہ سے جنوری 2008ء میں ملاقات ہوئی تھی یعنی افغانستان میں عافیہ کی گرفتاری سے فقط چھ ماہ قبل۔فاروقی صاحب کے مطابق عافیہ بہت ڈری ہوئی تھی اور اس نے اپنے چچا کی منتیں کیں کہ کسی طرح اسے افغانستان طالبان کے پاس بھیج دیا جائے کیونکہ عافیہ کا کہنا تھا کہ”میں طالبان کے ہاتھوں میں محفوظ رہوں گی۔“
اپنے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عافیہ صدیقی نے کہا تھا وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کریں گی کیونکہ انہیں امریکیوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔ لیکن پھر اپیل بھی ہوئی اور آخر کار اس اپیل کا فیصلہ اس ماہ کی پانچ تاریخ کو سنایا گیا جس میں عافیہ کی سزا کو برقرار رکھا گیا۔ان تمام حقائق کے باوجود عافیہ پر ڈھائے گئے بیہمانہ تشدد کا کوئی جواز نہیں ،جو فیصلہ عدالت نے سنایا اس کی بنیاد اس الزام پر ہے کہ عافیہ نے تفتیش کے دوران ایک امریکی پر گولی چلائی اور اس جرم کی سزا 86برس قید کی شکل میں پائی۔
یوں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ کسی ”امریکی ڈوگر کورٹ“ نے جاسوس اداروں کے زیر اثر سنایا۔ اگر عافیہ پر اس الزام کی سزا 86برس بنتی ہے تو چھوٹے بش پر عراق پر حملے کی سزا کیا بنتی ہے جس میں لاکھوں بے گناہ افراد مارے گئے؟ جس بات کو جواز بنا کر جنگ چھیڑی گئی کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار ہیں ،ان کا نام و نشان تک عراق میں نہیں ملا!ہم پاکستانیوں کے نزدیک عافیہ کا کیس کیا ہے ؟ یہی کہ اسے امریکی فوجیوں نے پاکستان یا افغانستا ن سے اٹھایا،انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ایک نام نہاد عدالت کے ذریعے اس لئے سزا دی کہ وہ اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کر رہی تھی ۔بالفرض یہ ساری باتیں درست بھی ہوں تو کیا ان کے مقابلے میں ہمیں اس بات پر زیادہ احتجاج نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارے فوجی جوانوں اور سیکیورٹی کے اہلکاروں کے سر کاٹے جاتے ہیں ،ان کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور پھر اسے اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔کوئی نام نہاد عدالت میں مقدمہ چلتا ہے نہ کوئی شور مچتا ہے ،کیا یہ پاکستان کے بیٹے نہیں ہیں ؟لیکن یہ میرا سوال نہیں ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ عافیہ صدیقی اور ملالہ یوسفزئی کے کیس کا موازنہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگر ملالہ پر دنیا کو پیار آ گیا ہے تو عافیہ بھی تو پاکستان کی بیٹی ہے ،اس کا کیا قصور ہے، اس کیلئے عالمی مہم کیوں نہیں چلائی جاتی ؟ سوال کے اندر ہی جواب ہے بشرطیکہ ٹھنڈے دماغ سے غور کیا جائے۔ بات عافیہ یا ملالہ کی نہیں ،بات سوچ کی ہے۔ عافیہ ایک سمبل ہے ،ایک امیج ہے ،ایک سوچ ہے جو اس بات غمازی کرتی ہے کہ عورتوں کو افغانستان جا کر امریکی قابض فوجوں سے لڑنا چاہئے ۔دوسری طر ف ملالہ بھی ایک سمبل ہے ،ایک امیج ہے ،ایک سوچ ہے جو فقط اسکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کا حق مانگ رہی ہے ۔جو لوگ عافیہ کی سوچ کی حمایت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کواسی راستے پر چلنے کی تلقین کریں جبکہ جو لوگ ملالہ کی سوچ کے حامل ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کا حق دیں ۔عافیہ اور ملالہ ،دونوں ہی قوم کی بیٹیاں ہیں۔ایک کو حکیم اللہ محسود نے خط لکھ کر حمایت کا یقین دلایا(عافیہ کی بہن فوزیہ نے یہ خط ملنے کی تصدیق کی) اور دوسری کے بارے میں کہا گیا کہ اگر دوبارہ موقع ملا تو پھر گولی ماریں گے ۔ایک افغانستان جانا چاہتی تھی ،دوسری اسکول جانا چاہتی تھی ۔اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو افغانستان بھیجنا چاہتے ہیں یا اسکول؟
تازہ ترین