• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مسئلے یا ایشو پر غور کرنے کے کئی زاویے اور کئی پہلو ہوتے ہیں۔ خوش فہم حضرات اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور دوسرے اپنی نگاہ سے۔ کل شام سے غیرسرکاری اور غیرحتمی کے الفاظ سن سن کرمیرے کان پک گئے ہیں۔ تجزیات کی بارش ہو رہی ہے اور اس بارش میں قوم کومبارک باد دینے کو جی چاہتاہے۔ اول تو اس لئے کہ تواتر سے اپنے وقت پر انتخابات جمہوری عمل میں نئی روح پھونکیں گے، رائے عامہ کی تربیت کریں گے اور پاکستان میںجمہوریت کامستقبل روشن ہوگا۔ اتنا روشن کہ کوئی طالع آزما جمہوریت کو آزمانے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ رہا پس پردہ ڈور ہلانا تو اس کے خاتمے کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گااور اس مرض کا علاج بھی تواتر سے انتخابات ہی ہیں۔ دوسری مبارک باد اس بات پر کہ چند ایک افسوسناک واقعات اور دہشت گردی کے سانحات کے باوجود انتخابات پرامن ماحول میں منظم انداز سے اپنی منزل طے کرگئے۔ووٹروں نے جوش و خروش سے حصہ لیا اور جمہوری عمل میں شرکت کا ثبوت دیا۔ دشمن قوتیںانتخابات کو سبوتاژ کرنے اورووٹروں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہیں۔ تیسری مبارک باد اس پیش رفت پرکہ انتخابات کےاب تک آنے والے نتائج تقریباً توقعات کے مطابق ہیں۔ اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک ِ انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھررہی ہے اور پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی رنگ لائی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آ رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ نہ ’’ہنگ‘‘ پارلیمنٹ ہےاور نہ ہی کمزور حکومت کی علامت کہ قومی اسمبلی میں کسی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ تحریک انصاف کا حق ہے کہ وہ حکومت بنائے اور عمران خان کا وزارت ِ عظمیٰ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو لیکن ظاہر ہے کہ یہ مخلوط حکومت ہوگی۔ تحریک انصاف کو واضح اکثریت اور اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کچھ سیاسی گروہوں کو ساتھ ملا کر اپنا سیاسی دامن رفو کرنا پڑے گا، کچھ جوڑ توڑ، لین دین اور سودے بازی کرنا پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس سودے بازی میں مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ایک آزادگروپ نمودار ہو جس کی قومی اسمبلی میں اچھی خاصی قوت ہو اور وہ عمران کے ساتھ پروگریسوگروپ کی حیثیت سے آملے۔ اس جوڑ توڑ اور حکومت سازی میں عمران خان کی آزمائش بھی مضمر ہے کہ وہ کس حد تک اصولی سیاست کی پاسداری کرتا ہے اورکس طرح بے اصولی، خودغرض سیاست سے گریزکرتاہے۔ قائداعظم کے پاکستان میں جسے عمران خان نیا پاکستان کہتا ہے نہ بے اصولی سیاست اور گھٹیا جوڑتوڑ کی گنجائش ہے اور نہ ہی اخلاق سے عاری سیاست کی جگہ ہے۔ اب تک کے سیاسی نقشے کے مطابق عمران قومی اسمبلی میں اچھی خاصی سیاسی قوت حاصل کرلے گااور اسے گھٹیا جوڑ توڑ یا اصولوں سے عاری رفوگری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اصولی سیاست، اخلاقی اصولوں اور شفافیت کو مشعل راہ بناتا ہے یا ان سے انحراف کرکے آغاز کو ہی افسوسناک بنا دیتاہے۔
دنیا جہان کے پارلیمانی ممالک میں مخلوط حکومتیں بنتیں اور کامیاب رہتی ہیں۔ عمران خان نے برطانوی پارلیمانی نظام کو قریب سے دیکھا ہے جہاں اکثر مخلوط حکومتیںبنتی رہتی ہیں۔ مخلوط حکومت کی مضبوطی لیڈرشپ یعنی قیادت کی مضبوطی اور کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے اور بعض اوقات مخلوط حکومتیں ون پارٹی حکومت سے بھی زیادہ پائیدار ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے آپ مخلوط حکومت کو کمزور حکومت سمجھیں نہ پارلیمنٹ کو’’ہنگ‘‘ پارلیمنٹ۔ خود پارلیمنٹ کی پائیداری کا انحصار اس کی کارکردگی پر ہے۔ گزشتہ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت تھی لیکن پارلیمنٹ کی کارکردگی مایوس کن تھی جس کی زیادہ ترذمہ دار خود حکمران جماعت تھی۔ اب لیڈر آف دی ہائوس بن کر عمران خان کو بھی اپنے رویے اور عادتیں بدلناہوں گی اور پارلیمنٹ کو متحرک کرکے صحیح معنوںمیں اقتدار ِ اعلیٰ کا نمونہ بنانا ہوگا۔ اچھے آغاز اور صبح نو کے طلوع کے لئے ضروری ہے کہ اکثریتی جماعت ماضی کی تلخیوں، ذاتی عناد و انتقام اور گروہی لڑائیوں کو دفن کرکے محبت، پیار، صلح کل اور قومی یگانگت کی پیامبر اور علمبردار بن کر اٹھے۔ ماضی کے اختلافات کویکسر مٹادے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ اس حوالے سے اولین قدم حکمران جماعت کا احتساب کے عمل سے الگ تھلگ ہو کر آئینی اداروں کی مکمل آزادی کو یقینی بنانا ہے تاکہ احتساب کا عمل مکمل طور پر قانون وآئین کے تحت آگے بڑھے اور اس سے انتقام کی بو نہ آئے۔ میں اسے مختصر طور پر قانون کی حکمرانی کہتا ہوں جو قائداعظم کے تصور ِ پاکستان کی پہلی اینٹ تھی۔ اسی تصور کی دوسری بنیادیں انسانی برابری، سماجی و معاشی عدل اورمذہبی آزادی تھیں۔ قائداعظم اس لئے عظیم لیڈر تھے کہ وہ سچے انسان تھے اور اسی سچ کی وجہ سے قوم ان سے محبت کرتی تھی۔ عمران خان کو بھی ’’سچ‘‘ کو اپنی شخصیت کا بنیادی اصول بنانا ہوگا۔ سچ کا مطلب ہے سادہ طرز ِ حکومت، قومی وسائل اور خزانے کی خلوص نیت سے حفاظت، عوام کو ہر حال میں ساتھ لے کر چلنا اور انہیں ’’سچ‘‘ میں شامل رکھنا، کاروبار ِ سلطنت میں سچ کو مرکزی حیثیت دینا اور سب سے بڑھ کر پارٹی منشور کو عملی جامہ پہنانا اور قوم سے کئے گئے وعدے پورے کرنا۔ اگر عمران خان قوم کو مایوسی سے بچا سکیں، اپنے نوجوان سپورٹرز کو روشن مستقبل کی ضمانت دینے کے علاوہ قومی دھارے میں شریک رکھ سکیں، عوامی حمایت کو اپنا قیمتی اثاثہ بنائے رکھیں تو نہ صرف وہ نیا پاکستان بنانے میںکامیاب ہو جائیں گے بلکہ اپنا آئینی عرصہ اقتدار بھی مکمل کرسکیں گے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان کو ڈکٹیٹ نہیںکرسکے گی۔
بہت سی مبارک بادوں میں ایک مبارک اس بات کی کہ تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جو وفاقی اور قومی پارٹی بن کر ابھری ہے کیونکہ اسے چاروں صوبوں میں حمایت حاصل ہے اور وہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہوگی بلکہ اگر تحریک ِ انصاف چاہے تو کچھ منتخب گروہوںکو ساتھ ملا کر پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنا سکتی ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف نے واضح اکثریت لے کر مخالفوں کے پروپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔انتخابی نتائج کومسترد کرنااور دھاندلی کا الزام لگانا انتخابی تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی مظلوم پارٹی تھی اوراب مسلم لیگ (ن) مظلوم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ چنانچہ چند ایک مظاہروں پر اکتفا کرے گی۔ شہباز شریف نے اقتدار کی گود میں آنکھ کھولی ہے اس لئے وہ احتجاج کی حکمت ِ عملی سے آگاہ ہی نہیں۔ سچ یہ ہے کہ انتخابی نتائج توقعات کے مطابق ہیں اور یورپی یونین کے مبصروں کے الفاظ میں 2013کی نسبت زیادہ شفاف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کی شکایات میں یقیناً وزن ہوگا جس کے لئے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے دروازے کھلے ہیں۔ نیب سابق پنجاب حکومت کے خلاف کئی انکوائریاں کر رہا ہے، سانحہ ماڈل ٹائون کی تلواربھی لٹک رہی ہے اور ماورائے عدالت قتل کے گواہ بھی موجود ہیں۔ ان حالات میں پنجاب کے تخت پر قبضہ کرنا مسلم لیگ (ن) کے لئے لازم ہے۔ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن کر اپنے قید بھائی، بھتیجی اور اس کے خاوند کی تو شاید زیادہ مدد نہ کرسکیں لیکن اپنے آپ کو اور اپنے جانشین کو بچاسکیں گے۔ لکھنے کو ہزار باتیں ہیں لیکن کالم کا دامن محدود ہے اس لئے تشویش اور سازش تھیوری کے اسیر دوستوں کومبارک باد دے کر اجازت چاہوںگا کہ وہ جیپ کے امیدواروں، تحریک لبیک اور دوسری مذہبی جماعتوںکے حوالے سے جس سازش کو اچھالتے رہے، وہ ناکام ہوگئی اور یہ ساری قوتیں ہار گئیں۔ مختصر یہ کہ اب ماضی کو بھول کر معاشرے میں محبت اور یگانگت کو پروان چڑھائیں، ملک و قوم کی خدمت کے لئے کمر کس لیں اور دعا کریں کہ نئی حکومت مسائل حل کرنے اور وعدے پورے کرنے میں کامیاب ہو۔ ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیںگے!!!!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین