• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ 2018کے انتخابات وقت پر منعقد ہوئے جس میں ووٹروں نے غیرمعمولی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس روز بڑا حبس تھا اور انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں سینکڑوں شہری جاں بحق ہوئے اور بڑی تعداد میں زخمی بھی۔ پھر مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے پری پول رگنگ کے الزامات لگائے جارہے تھے اور شکوک و شبہات کے سائے بہت گہرے تھے۔ ان تمام حوصلہ شکن حالات میں 25جولائی کو ووٹر صبح سویرے گھروں سے نکلے اور قطاروں میں لگتے چلے گئے۔ اکثر مقامات پر انہیں کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ خواتین بھی بڑی تعداد میں نکلیں اور اس بار انہوں نے تاریخ میں پہلی بار اُن چار علاقوں میں بھی حق رائے دہی استعمال کیا جہاں اُن کے لیے ووٹ ڈالنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا۔ 2013کے انتخابات میں بعض قومیت پرست جماعتوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والوں پر حملے کریں گے چنانچہ مکران کے علاقے میں گنے چنے ووٹ ڈالے گئے تھے اور ایک صاحب جو 2013ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے تھے مشکل سے پانچ سو ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ اس بار انہوں نے ہزاروں ووٹ لیے ہیں اور اس پورے علاقے میں بڑی گہما گہمی رہی۔ اس گہما گہمی نے بلوچستان کا سیاسی نقشہ یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ کراچی میں بھی ایک حیرت انگیز منظر دیکھنے میں آیا۔ لندن سے بائیکاٹ کا حکم آیا تھا لیکن اہل کراچی قطاروں میں لگے ہوئے تھے اور ایک جشن کا سماں تھا۔ باشعور شہری اس امر کا ثبوت دے رہے تھے کہ وہ اپنا حق حکمرانی حاصل کرنے میں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
ہم عوام کے اس شعور بلاخیز کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ آنے والے حکمران عوام کو بنیادی اہمیت دیں گے اور اُن کے سیاسی مسائل حل کرنے اور جمہوری اداروں کو طاقتور بنانے کو اولین ترجیح دیں گے۔ رائے عامہ نے تو برملا اظہار کر دیا ہے اور بڑے بڑے بُرج اُلٹ دیئے ہیں۔ اب خواص کا امتحان شروع ہو چکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب آنے والے مصائب سے کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں۔ ہم عمران کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ انتخابی نتائج کے مطابق انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وہ عوام کے ووٹ سے وفاق، صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اُن کی یہ محیرالعقول کامیابیاں اُن پر گراں بار ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔ انہیں اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا جن پر داخلی ہم آہنگی اور غیرمعمولی فہم و فراست کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکے گا۔ میرے لیے سب سے زیادہ خوشی اس بات میں ہے کہ معلق پارلیمنٹ کے بجائے ایک مضبوط سیاسی جماعت آزاد امیدواروں کی حمایت سے اقتدار میں آ سکتی ہے جو امور مملکت چلائے گی اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان غلطیوں سے کنارہ کش رہے گی جو ماضی میں اُن سیاسی جماعتوں کے زوال کا باعث بنی ہیں جس کا اقتدار میں بڑا حصہ تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اس خواہش کا آنے والے حکمران ذرہ برابر احترام نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کی روایت ابھی قائم نہیں ہوئی۔
تحریک انصاف کو سب سے پہلے انتخابی نتائج کو ایک اعتبار عطا کرنا ہوگا کیونکہ اس کے سوا تمام سیاسی جماعتیں شکوہ سنج ہیں کہ اُن کے امیدوار جہاں جہاں کامیاب ہو رہے تھے، وہاں سے اُن کے پولنگ ایجنٹ باہر نکال دیے گئے اور انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا گیا۔ مختلف مقامات پر نتائج فارم 45پر دینے کے بجائے سادہ کاغذ پر فراہم کیے گئے جو انتخابی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور دھاندلی ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے ہیں اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تسلی بخش اقدامات کرنا ہوں گے اور قابل اعتماد تحقیقات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ عوامی جماعتوں کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو سیاسی استحکام پیدا ہوگا نہ حکمران جماعت یکسوئی سے اُن خطرات پر قابو پا سکے گی جو داخلی ہم آہنگی اور ملکی معیشت کو دامن گیر ہیں۔ انتخابی عمل اور اس کے نتائج کو مشکوک بنانے میں غیرسیاسی طاقتوں کے علاوہ پاکستان الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کی نااہلی کا بڑا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن جو پہلے کے مقابلے میں ہر اعتبار سے طاقت ور اور خودمختار ہے، وہ نتائج کی تیزرفتار ترسیل کے لیے ایک میکانزم تیار نہیں کر سکا جبکہ دعوے بہت کیے گئے کہ اس نے ایک آر ٹی ایس (Result Transmission System) نظام وضع کر لیا ہے جس کے ذریعے ہر پولنگ اسٹیشن سے انتخابی نتائج فوری طور پر ریٹرنگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کے آپریشنل روم کو اسمارٹ ٹیلی فونز سے ارسال کر دیئے جائیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ تمام انتخابات کے حتمی نتائج رات کے دو بجے تک فراہم کر دیئے جائیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے ایک چوتھائی نشستوں کے نتائج کا اعلان 26جولائی کی دوپہر تک بھی نہیں ہو سکا۔ اس تاخیر سے شدید غلط فہمیوں نے جنم لیا ہے اور پورے سیاسی منظرنامے پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مطمئن کرے اور سیاسی جماعتوں کی تشویش ختم کرنے کے لیے عملی قدم اُٹھائے۔ وہ سیاسی جماعتیں جن کو انتخابی نتائج کے بارے میں شکایات پیدا ہوئی ہیں اُن کی بات پوری سنجیدگی سے سنی جائے اور اُن کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اسے اس امر کی بھی وضاحت کرنا ہوگی کہ سو سے زائد سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کس بنیاد پر کی گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کا وجود سیاسی استحکام کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔
انتخابی عمل مختلف وجوہ سے شفاف نظر نہیں آیا، اس لیے جو بھی حکومت وجود میں آئے گی، اسے ایک احتجاجی ماحول میں کام کرنا ہوگا جو ملکی مسائل اور خطرات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ ہماری داخلی اور خارجی مشکلات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں وہی طرزعمل اختیار کریں جو امریکی انتخابات میں الگور نے بڑی دانائی اور حوصلہ مندی سے اپنایا تھا۔ وہ انتخابات میں جیت گیا تھا لیکن عدلیہ کے ذریعے اس کا مینڈیٹ چُرا لیا گیا۔ اس نے اس معاملے کو ہوا دینے اور زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے کے بجائے اپنی شکست خوش دلی سے تسلیم کر لی، جمہوریت کی گاڑی کو آگے چلنے دیا اور اپنے وطن کے وقار کا پورا پورا خیال رکھا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے غیرجانب دارانہ تحقیقات کی روشنی میں شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے نتائج فراخ دلی سے تسلیم کرکے آگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ آنے والے پانچ برسوں میں مسلم لیگ نون کو اپنی غلطیوں کے تدارک اور اصلاح کا موقع ملے گا اور ایم ایم اے کو بھی اپنی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ پختون خوا ملی کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اتنی بڑی شکست سے کیوں دوچار ہوئی ہے۔ بیشتر تجزیہ نگاروں کی رائے میں مسلم لیگ نون کچھ طاقتوں کے علاوہ میڈیا کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے، تاہم اس نے سول بالادستی کا جو نظریہ اجاگر کیا ہے جسے تمام جمہوریت پسند جماعتوں کی حمایت حاصل ہے وہ آخرکار عوام کو سربلند کرے گا اور سیاسی خواص اور غیرسیاسی اداروں کو راہ راست پر رکھے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین