• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی نون گاہ میں کسی مردہ شمشان گاہ کاسکوت پھیل گیا ہے ۔مینارِ پاکستان کی نوک پر رکھا ہواتختِ لاہور دھڑام سے نیچے آپڑا ہے۔شکر ہےکفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔آسمان کو زمین پر رحم آ گیا ہے۔سورج افق سے نکل پڑا ہے ۔کرپشن کو کریش کرتا ہوااقتدار نیند سے چونک کے اٹھا ہے ۔آنکھیں ملتا ہوا جاتی امرا اور لاڑکانہ سے نکل کرمیانوالی میں میرے پڑوس تک پہنچ گیاہے ۔میں اس وقت میانوالی میںہوں اورپاکستان کے ساتھ مل کر جشن منارہا ہوں۔ مگر عمران خان کی گردن ذمہ داری کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہے ۔یقینااُن کا اصل امتحان اب شروع ہواہے۔اِس تباہ حال پاکستان کو ایک ترقی یافتہ پاکستان میں تبدیل کرنا قطعاًکوئی آسان ٹاسک نہیں ۔(اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا)۔یقیناً وہ روشنی اور خوشبو کی اُس بستی تک ضرور پہنچ جائے گا۔جو جنت نشاں ہے۔اب دنیا بھر سے صاحبان ِعلم وہنر پاکستان آئیں گے ۔اب دانش کے پرندے ملکِ خداداد سے ہجرت نہیں کیا کریں گے۔
اِس وقت ایک نئے پاکستان کا پھریرا لہراتاہوا میانوالی ،میراہم رقص ہے ۔عظیم منزل کے درو دیوار سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔عظیم منزل عمران خان کا آبائی گھر ہے۔ وہاں ان کے ناراض چچا زاد بھائی رہتے ہیں ۔اُن کو بھی منانے کا وقت آگیا ہے۔عمران خان نے جب میانوالی سے پہلی بار الیکشن لڑا تھا تو انہیں صرف اٹھارہ ہزار ووٹ ملے تھے پہلا الیکشن تھا عمران خان کا پیغام صحیح طور پر لوگوں تک نہیں پہنچ سکا تھامگراس کے بعد وہ میانوالی سے کبھی نہیں ہارے۔ ،اس مرتبہ تو پی ٹی آئی نےکوئی ایک سیٹ بھی نہیں ہاری بلکہ سب سے زیادہ لیڈ میانوالی میں پی ٹی آئی کے امیدوار وں کو ملی ۔اسی ہزار اور نوے ہزار کی لیڈ شاید ہی کسی امیدوارکے نصیب میں آئی ہو۔عوام نے عمران خان پر لگائے گئے تمام الزامات کو رد کردیا ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ریحام خان کے گھٹیا الزامات کوگندگی قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا ۔ہر چند کے راہ میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر عوام نے ہرر کاوٹ کوپائوں کی ٹھوکر سے گرادیا اورنئی صبح کی طرف بڑھتے چلے گئے اور آخر کار فتح مبین تک پہنچ گئے ۔وہ وقت آگیا ہے جب پاکستان کے ہر بے زمین شخص کو پانچ مرلے زمین دی جائے گی۔جب بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر بنا کر دئیے جائیں گے ۔جب ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا ۔جب کسانوں کی خوشحالی کے لئے زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔جب سرائیکی صوبے کا قیام عمل میں آئے گا ۔جب ڈیم بنائے جائیں گے ۔جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کو استحکام حاصل ہوگا۔جب پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ،جب پاکستانی قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس وطن میں آئے گا ۔ماڈل ٹائون کے چودہ شہیدوں کو انصاف ملنے کا موسم آ گیا ہے ۔
اب اختیارات اور فیصلہ سازی کو گائوں کی سطح تک پہنچانے کا وقت بھی قریب ہے۔برابری کی سطح پر بھارت سے امن مذاکرات ہونگے ۔اب ایک غیر ت مند خارجہ پالیسی کے تحت دنیا میں جیا جائے گا۔اب عدالتیں فوری انصاف دیں گی۔ بے رحما نہ احتساب ہوگا ۔لٹیروں سے ستر سالوں کا حساب لیا جائے گا۔ ہر دولت مند کو ثابت کرنا پڑے گا کہ اُس کی دولت کہاں سے آئی ہے ۔نیب کاکام برق رفتار ہونے والا ہے ۔اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی ورکنگ میں فوری طور پر بہت زیادہ اضافہ ہونے والا ہے لیکن یہ طے ہے کہ کسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا ۔صرف انصاف ہوگا انصاف۔تحریک انصاف اپنے کہےکی لاج رکھے گی۔
بے شک عمران خان کےراستے میں رکاوٹیں بھی کچھ کم نہیں ۔ (میں بڑا ہوں مری مشکل بھی بڑی ہونی تھی) تیس سال سے جو کرپٹ عناصر اس نظام کے رگ و پے میں کینسر کی طرح اترے ہوئے ہیں انہیں جڑوں سے نکالناہے ۔افواجِ پاکستان کے سوا کوئی اور ادارہ ایسا نہیں جہاں مکمل صفائی کی ضرورت نہ ہو ۔پولیس ، لینڈ رجسٹریشن ، صحت، تعلیم، ٹیکس ،ریلوے ،بجلی اورگیس کے ادارے مکمل طور پر تباہ حال ہیں ۔سی ڈی اے ،ایل ڈی اے وغیرہ وغیرہ کوکرپشن کی ایسی مشینیں بنادیا گیاہے جو صرف نوٹ اگلتی ہیں ۔پی آئی اے سے پی ٹی وی تک سفید ہاتھی بنا دئیے گئے۔ پی ٹی وی لاہور پر 47پروڈیوسرز ہیں مگر کام صرف چار پانچ کرتے ہیں ۔ ہر جگہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے کام پر اندھوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے ۔پہلا کام یہی ہے کہ اس خستہ بدن ملک کو گدھوں سے نجات دلائی جائے ۔اس کے زخموں کو پوری دیانت داری سے رفوکیا جائے ۔وہ اقتدار جسے ظلم نے پروان چڑھایا ، جس کی مہنگائی نے تربیت کی۔ جو ناانصافیوں میں جوان ہوا، (اُس اجتماعی کرپشن کی آغوش میں پلے ہوئے اقتدار کو گناہوں کی دلدل سے نکالا جائے۔
یقین کیجئے پاکستان کو عراق اور شام بنانے والوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے ۔بھارتی میڈیاکی نوحہ خوانی کی رندھی ہوئی آواز میں درد بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو عوام نے مسترد کردیا ہے ۔اچکزئی کی اُچک زدگی زمین بوس ہوگئی۔ باچا خان کے پوتے کو دادا کی قبر پر سراج الحق کو مولانا مودودی کے مزار پرفاتحہ خوانی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ آصف زرداری کا وزیر اعظم بننے کاخواب بھی کرچی کرچی ہوکر گلی گلی میں بکھر چکا ہے۔کراچی نے بھی انہیں مسترد کر دیا ہے ۔ووٹ کی طاقت سےنواز شریف کو اڈیالہ جیل سے نکالنے کی شہباز شریف کی خواہش بھی حسرت میں بدل گئی ہے ۔شہزادی کی آنکھیں بھر آئی ہیں ۔نواز شریف کے بیانیہ کو قوم نے اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے ۔پی ٹی آئی کے سونامی میں سب کچھ بہہ گیاہے ۔ بلند و بالا ایوان ،یہ وسیع و عریض محل، یہ آراستہ و پیراستہ ولاز، یہ چمکتی دمکتی گاڑیاں ، یہ زرق برق لباس ، یہ سونے اور چاندی کے ڈھیر،یہ لوٹ مار کی جمع کی ہوئی دولت کوئی چیز عمران خان کے سونامی کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکی۔عمران خان تو اقبال کے اُس شاہین کا نام ہے جس کی فطرت میں ذخیرہ اندوزی نہیں ۔جسے جاتی امرااور سرے محل تو کجازمین پرکارِ آشیاں بندی بھی چوہوں کا کام لگتاہے جس کا نشیمن وزیر اعظم ہائوس کی عمارت نہیں غریبوں کے مکان ہیں و ہ آخری سانس تک عالمی بینکوں سے زندگی کی خیرات نہیں مانگنے والا ۔پلٹنا،جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنا ،جس کے لئے لہو گرم رکھنے کا بس اک بہانہ ہے۔ جوکسی امریکہ سے کبھی اپنی غیرت کا سودا نہیں کر سکتا۔جو زمین پرپرواز سے تھک کرکبھی نہیں گرا۔جس کی درویشی میں کوئی عیاری نہیں ۔جس کی قلندری میں کوئی انتہاپسندی چھپی ہوئی نہیں ۔یقیناََکسی شخص کی دشمنی یا دوستی انہیں اس بات پر مجبورنہیں کر سکتی کہ وہ عدل کا دامن ہاتھ سےچھوڑ دیں ۔وہ ان شاءاللہ انصاف پر مبنی ایک آزاد معاشرے کی تشکیل میں بہت جلد کامیاب ہوجائیں گے ۔ قوم نے اپنے کاندھوں پراُٹھایا ہوا عمران خان پر اعتماد کے قرض کا بوجھ واپس عمران خان کو سونپ دیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ وہ کبھی اپنی قوم کو فروخت نہیں کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین