• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی گاڑی نیا انجن
ابھی حتمی نتائج تو نہیں آئے مگر حتمی انکار سامنے آگیا ہے۔ صرف تحریک انصاف نے انتخابات تسلیم کئے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے تسلیم و رضا کی کیفیت میں تھی۔ الیکشن کمیشن نے اپنی پرانی گاڑی میں نیا انجن بھی ڈلوایا مگر انجن کیا بیٹھا کہ گاڑی الیکشن ٹھیلوں سمیت بیٹھ گئی، جس وقت پہلا اور اکلوتا نتیجہ چیف الیکشن کمشنر نے پڑھ کر سنایا اس وقت تک انتخابات کا مجموعی ٹرینڈ سیٹ ہوچکا تھا وہ بھی میڈیا کے توسط سے، بہرحال شیخ سعدی والی بات کہ بلائے بود ولے بخیر گزشت (بلا تھی خیریت سے کئی جانوں کا نذرانہ لے کر گزر گئی) کسی نے کیا نامنظور، کسی نے کہا صورتحال خطرناک ہوگئی اور کسی نے اے پی سی کی گولی تجویز کی، یہ سنتے سنتے کان پک گئے تھے کہ ووٹ فیصلہ کرے گا ،عوام کی عدالت فیصلہ صادر کرے گی اور جب یہ سب کچھ ہوگیا تو پھر وہی میں نہ مانوں، کیا اس غریب ملک میں الیکشن پر مزید پیسہ بہانے کی سکت ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ آمریت سے کمزور جمہوریت بہتر ہے، تو لیجئے کمزور جمہوریت حاضر ہے تناول فرمائیں، اور آمریت تو ویسے بھی کہہ رہی ہے؎
میں کب کی جا چکی ہوں
صدائیں مجھے نہ دو
پاکستان کا بھلا اسی میں ہے کہ نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے، اللہ جو کرتا بہتر کرتا ہے، ہمارے ہاں اگر جمہوریت محفوظ ہے تو مقام شکر ہے ،یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہم اپنی لنگڑی لولی جمہوریت بھی صحتمند بنالیں گے۔ ہم سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ 70برسوں میں زیادہ کھویا کم پایا، شاید کیا بلکہ یقیناً اس کی بڑی وجہ جمہوری عمل میں بار بار تعطل آتا رہا۔ ہم نے پہلے جمہوریت شیڈنگ برداشت کی، جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا، اب ہمیں اپنی ذاتی خواہش کو قومی مفاد پر قربان کرنا ہوگا اسی میں ہمارا بھلا ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
دھاندلی
پاکستان جب سے بنا ہے یہاں دھاندلی بھی جیسے جہیز میں آئی یا اسے ہم نے کسی لنڈا بازار سے خرید لیا اور اپنی زندگی کا جزو بنا لیا۔ دھاندلی کا تعلق صرف انتخابات سے نہیں رہا بلکہ ہمارا مائنڈ سیٹ بھی دھاندلی زدہ ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ توجہ انتخابی دھاندلی کو دی گئی، ہمارا خیال ہے کہ دھاندلی نے پہلے ہمارے عام معاملات میں جگہ بنائی بعد میں یہ سیاست میں بھی گھر کرگئی۔ یہ بھی نہیں کہ سیاست میں دھاندلی نہیں ہوتی، مگر اس کا دعویٰ کرنے والوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ دھاندلی ہوئی، ورنہ انسانی جبلت بھی ہے کہ جب وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کرپاتا تو وہ اپنی غلطیوں کی چھان بین کرکے ان کی اصلاح کرنے کے بجائے انگور کھٹے ہیں کی رٹ لگاتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ہمیں ہمسایہ بھی دشمن ملا اور سب نے دیکھ لیا کہ بھارت ہمارے ہاں انتخابی عمل کو جمہوری پیشرفت کو ہضم نہ کرسکا، اگر دشمن ہمارے لئے کوئی دوا تجویز کرے گا تو ہماری بیماری کبھی ٹھیک نہیں ہوگی۔ سیاست میں ہار جیت کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لینا بھی سیاست میں دھاندلی کی آبیاری کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ ہر قیمت پر جیتنا ہے ، زہر ناک ہے۔ آج آپ ترقی یافتہ ممالک میں جاکر دیکھیں کہ وہاں کوئی عام تعطیل نہیں ہوتی لوگ جونہی فرصت ملتی ہے چپکے سے جاکر ووٹ کاسٹ کر آتے ہیں اور وہ پہلے ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے، مگر ہم نے تو ضدی بچوں کی طرح یہ رویہ اختیار کرلیا ہے کہ میں نے وہ والا کھلونا خریدنا ہے۔ اب ہماری نظر اگلے 5برسوں پر ٹک جانی چاہئے اور مثبت سوچ کے ساتھ اجتماعی قومی ترقی کے لئے منتخب حکومت کو ٹاسک دینا چاہئے کہ وہ پہلی ترجیح غربت میں کمی کو رکھے، کیونکہ ہمارے ہاں ہر خرابی کے پیچھے محرومی ہے، یہ محرومی مختلف انداز میں غریبوں ہی میں نہیں امیروں میں بھی ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
پہلا نشہ پہلا خمار
صنم بھٹو نے کہا ہے بلاول کے وزیر اعظم بننے میں ابھی کافی وقت ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ بلاول بھٹو زرداری میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو ایک بڑا لیڈر بننے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ان کی خالہ نے حقیقت پسندانہ رائے دی کہ ان کا بھانجا ابھی سیاست کے میدان میں سبقت لے جانے کے قابل نہیں۔ اسے اپنا مقام بنانے کے لئے اپنے نانا کے طرز عمل اور جدوجہد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ بہرحال سندھ میں پی پی نے اپنے وجود کو برقرار رکھا، یہی کافی ہے اور بلاول نے دانشمندی کی کہ پورے ملک میں بھرپور جلسے کئے اور یہ باور کرادیا کہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی روح لئے ہوئے زندہ ہے، ابھی انہیں کندن بننے میں واقعتاً کچھ عرصہ درکار ہے، عمران خان نے بریک تھرو تو کرلیا مگر ان کا اصل امتحان اب شروع ہوگا جب وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کامیاب لائحہ عمل نہ صرف طے کرلیںبلکہ وقت ضائع کئے بغیر اس پر عملدرآمد بھی کر دکھائیں گے۔ بلاول اور عمران دونوں کاامتحان ضرور ہے مگر عمران کا امتحان پورے پاکستان کا امتحان ہے، جس میں پاس ہونے کی شرط عمران پر ہی عائد ہوتی ہے جبکہ بلاول ابھی پہلا نشہ پہلا خمارکی منزل سے گزریں گے تو خود کو منوا سکیں گے۔ ایک بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ کرپشن کے خلاف میسیج وائرل ہوا اور کام کرگیا۔ دوسری بات یہ کہ ہر شخص بیتاب تھا کہ سب کو آزمالیا کیوں نہ عمران خان کو بھی آزمالیا جائے اگر خان صاحب نے آنے والے دنوں میں عوام کی امنگوں کاخیال نہ رکھا تو وہ ایسا انجام بھی دیکھ سکتے ہیں جو شاید کسی نے نہ دیکھا ہو، انہیں اپنی ٹیم کوTameکرنا ہوگا کیونکہ ٹیم میں اصلاح احوال کی بڑی گنجائش ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
اب وقت دوا ہے!
٭...آرمی چیف، قوم سے مل کر دشمن قوتوں کو ووٹ کے ذریعے شکست دیں گے۔
لائق قدر بیان ہے، ہمارے دشمن ہماری ترقی کا سبب بنیں گے، کیونکہ تاریخ میں جس قوم کا کوئی دشمن نہ تھا وہ مٹ گئی۔
٭...کوئی مانے یا نہ مانے میڈیا نے جان پر کھیل کر ہر موقع پر قوم کو آگاہی دی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دولت کی بنیاد پر سیاست ہوتی ہے،غریب چاہے وقت کا سقراط ہو اسے ٹکٹ نہیں مل سکتا، یہ کلچر جب سیاست سے منفی ہوگا تو ایسے لوگ برسراقتدار آئیں گے جو جس تن لاگے وہی جانے کا مصداق ہوں گے۔
٭...انتخابات نے ایک بڑا فیصلہ کر دیا۔ عوامی عدالت پوری طرح فعال رہی، اب بے یقینی کی فضا کوختم ہونا چاہئے تاکہ یہاں سرمایہ کاری کے لئے فضا ساز گار ہو، اور باہر سے سرمایہ کار بلاخوف و خطر یہاں کام کریں، اندرونی سرمایہ کار بھی اطمینان سے سرمایہ کاری کرسکیں، لوگ خوف کا شکار ہیں، بےروزگاری نے ٹیلنٹ چھین کر برآمد کردیا ہے، روپے کی قدر میں اضافہ ہمارا ہدف ہونا چاہئے نئی حکومت نئے حکمران اگر اب بھی پاکستان نہ بدلا تو پھر جو مایوسی چھائے گی وہ تباہ کن ہوگی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین