• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018کے انتخابی نتائج منظرعام پر آچکے ہیں۔ تادم تحریر غیرحتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 119سیٹوں پر کامیاب ہوچکی ہے اور مسلم لیگ (ن) اس بار 61نشستوں کو حاصل کرپائی ہے۔ تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، پاک سرزمین پارٹی، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم نے بھی عام انتخابات کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ 1970سے لے کر آج تک ہونے والے تمام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ پاکستان میں کبھی بھی آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد نہیں ہوسکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسفر سسٹم) کا موجودہ نظام بھی اس بار بری طرح ناکام دکھائی دیا۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کا کہنا تھا کہ ہم نے الیکشن 2018میں جدید سسٹم آرٹی ایس متعارف کرایا تھا۔ پولنگ کے اختتام پر 2گھنٹے تک یہ سسٹم بند رہا جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے فسانہ بنادیا۔ سوال یہ ہے کہ لاہور، کراچی سمیت پورے ملک میں پانچ جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو آخر کیوں پولنگ اسٹیشنوں سے نکال دیا گیا؟ اور انہیں فارم45 کیوں نہیں دیئے گئے؟ حالانکہ پریذائیڈنگ افسر کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے پولنگ اسٹیشن میں ووٹوں کی گنتی کے بعد تمام پولنگ ایجنٹس کو فارم 45فراہم کرے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا اس کا مقصد تحریک انصاف کو پنجاب، خیبرپختونخوا اور کراچی میں جتوانا تھا؟ اس سارے عمل نے الیکشن 2018پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب الیکشن میں پری پول رگنگ اور پولنگ ڈے پر بدترین دھاندلی ہوئی۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرے گا اور شفاف انتخابات کو ممکن بنائے گا مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حسب روایت ربڑ اسٹمپ کی مانند اپنا کردار ادا کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ کچھ قوتیں اپنے من پسند نتائج حاصل کرنا چاہتی ہیں الیکشن کمیشن نے محض بطور آلہ کار اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ بہرکیف الیکشن 2018پر بدترین دھاندلی کے الزام لگے ہیں اور پانچ بڑی سیاسی جماعتوں نے نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکے گی جب تک آزادانہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ 25جولائی کو الیکشن سے قبل بھی ایسا ماحول بنایا گیا تھا جس سے صاف نظر آرہا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
ایم ایم اے کے رہنما سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے قافلے پر انتخابی مہم کے دوران دو حملے ہوئے۔ اے این پی کے رہنما ہارون بلور پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ تحریک انصاف کے امیدوار اکرام اللہ گنڈاپور بنوں میں دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہوگئے۔ اسی طرح کوئٹہ میں الیکشن کے روز بم دھماکے میں 31افراد جاں بحق ہوئے۔ ان واقعات کا اثر یہ ہوا کہ ٹرن آئوٹ خاصا کم رہا۔ گزشتہ الیکشن میں پچاس فیصد تک ٹرن آئوٹ تھا۔ اس بار یہ توقع کی جارہی تھی کہ 55سے 60فیصد تک ٹرن آئوٹ ہوگا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے پشاور سے اپنی شکست تسلیم کرلی یہ ایک اچھی روایت ہے لیکن خیبر پختونخوا، پنجاب، کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں جہاں جہاں سے دھاندلی کی شکایات موصول ہوئی ہیں وہاں پر الیکشن کمیشن کو فوری نوٹس لینا چاہئے تھا۔ پولنگ ایجنٹس کو فارم 45کا نہ ملنا اور انہیں پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج دیئے بغیر نکال دینے سے ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں تجزیہ کیا تھا کہ پاکستانی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس بھی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے تو وہ دوبارہ برسراقتدار نہیں آئی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ 2002میں مسلم لیگ (ق) نے حکومت بنائی تھی مگر2008میں مسلم لیگ (ق) کی بجائے پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی طرح 2013میں مسلم لیگ (ن) جسٹس تھی مگر 2018کے الیکشن کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔ میرا یہ تجزیہ سو فیصد درست ثابت ہوا کہ چونکہ مسلم لیگ (ن) بھی اپنے پانچ سالہ دور میں عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف نہیں فراہم کرسکی لہٰذا اس کا انجام بھی مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کی طرح ہوگا اور وہ 2018میں برسراقتدار نہیں آسکے گی۔ بظاہر اب یہ نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف کچھ جماعتوں کو ساتھ ملا کر مرکز میں حکومت بنائے گی اور وزیراعظم اُسی کا ہوگا۔ 25جولائی 2018کے انتخابات میں جو خرابیاں دیکھی گئیں ان کو دور کرنا ازحد ضروری ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے گزشتہ دور اقتدار میں اپنی توجہ صرف پل اور سڑکیں بنانے پر مرکوز رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، غربت اور بے روزگاری پر قابو نہیں پاسکی۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے لئے یہی سبق ہے کہ چونکہ اُس نے اپنے پانچ سالہ دور میں غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کیا تھا اس لئے عوام نے بھی اُسے عام انتخابات میں وہ پذیرائی نہیں بخشی جو اسے 2013کے الیکشن میں ملی تھی۔ 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بھاری مینڈیٹ ملا تھا لیکن اس مرتبہ وہ بھاری مینڈیٹ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اب شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی دیگر قیادت کو سرجوڑ کو بیٹھنا چاہئے اور اپنی ناکامی کے اسباب کوتلاش کرنا چاہئے۔ کراچی میں پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم کے احتجاج سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ملک میں تحریک انصاف کو جتوانے کا منظم پروگرام بنایا گیا تھا۔ پاکستان میں 4مرتبہ مارشل لا لگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ آمریت کے دور میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمیں ایسے حالات پیدا نہیں کرنے چاہئیں کہ جس میں پھر کسی طالع آزما کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملے۔ جہاں تک خیبرپختونخوا کا تعلق ہے وہاں پر دھاندلی کے سنگین الزامات پی ٹی آئی پر لگائے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف کا دامن بھی دھاندلی کے الزامات سے نہیں بچ سکا۔ اگر یہی تبدیلی ہے تو اس کا مستقبل میں ملک و قوم کو سخت نقصان پہنچے گا۔ تحریک انصاف سے پہلے ہی پاکستانی عوام شاکی ہیں کہ وہ ایک ایسا سیکولر کلچر ملک میں متعارف کروا رہی ہے جو پاکستان کی اسلامی اور اخلاقی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تحریک انصاف کے جلسے اور جلوسوں میں خواتین کے آزادانہ میل جول، ڈانس کلچر اور خواتین کے ساتھ نازیبا سلوک جیسے واقعات ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ اب اس کو اپنی اخلاقی ساکھ بہتر بنانے کے لئے ایسے واقعات پر قابو پانا ہوگا بصورت دیگر اگلے انتخابات میں اس کا بھی حال مسلم لیگ (ن) جیسا ہوگا۔ اس وقت یہ کہا جارہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت مرکز میں بن بھی گئی تو اس کا چلنا بہت مشکل ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کی طرح تحریک انصاف پر بھی دھاندلی کے سنگین الزامات ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا تحریک انصاف اپنے اوپر لگنے والے دھاندلی کے الزامات دھو سکے گی؟ یا آئندہ پانچ سال بھی سیاسی محاذ آرائی میں گزریں گے؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے موجودہ الیکشن نتائج کو قبول نہیں کیا تو پھر وطن عزیز میں جمہوری نظام پٹری سے بھی اتر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کے بننے کے بعد یہ امید نظر آرہی تھی کہ ایم ایم اے کے پی سے نمایاں کامیابی حاصل کرے گی ۔یوں لگتاہے کہ وہاں دینی جماعتوں کے مینڈیٹ کو چراکر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔ موجودہ دھاندلی زدہ الیکشن پر احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، پیپلزپارٹی سمیت سب جماعتوں کو جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں مگر یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہئے کہ احتجاج کو پُرامن انداز میں رکھا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس صورتحال کا فائدہ کچھ قوتیں اٹھائیں اس لئے موجودہ جمہوری نظام چلتے رہنے سے ہی مستحکم اورخوشحال پاکستان کی راہ ہموار ہوگی۔

تازہ ترین