• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جس تیزی سے عالمی سطح پر غیرمعمولی توجہ حاصل کر رہا ہے اور امریکہ سمیت پاکستان مخالف لابی کے زیر اثر بعض ممالک اور انسانی حقوق کے ادارے جس زور و شور سے اس کی سنگینی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں پوری قوم کو اس پر تشویش ہے اور اس کے جلد حل کی خواہاں ہے مگر ہمارے حکمران ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی کے اس حساس مسئلے پر کوئی ٹھوس عملی قدم اٹھاتے نظر نہیں آتے۔ اس نکتے پر تو ملک کی تمام سیاسی قوتوں کا اتفاق ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال معمول پر لانے کیلئے بلوچ قیادت سے بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات ہونے چاہئیں لیکن بات کس سے کی جائے کون کرے اور ایجنڈا کیا ہو اس بارے میں کوئی روڈ میپ موجود نہیں۔ وفاقی حکومت پر جب بھی کسی سمت سے دباؤ بڑھتا ہے تو وہ ’ناراض بلوچوں‘ کو مذاکرات کی زبانی دعوت دے کر یا متعلقہ فریقین سے رابطوں کیلئے کوئی نہ کوئی کمیٹی بناکر مسئلے کو سرد خانے کی نذر کر دیتی ہے۔ اسے کوئی فکر نہیں کہ اس کے اعلانات اور کمیٹیوں کی تشکیل کا کوئی نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ اس وقت ایسی کم سے کم نصف درجن کمیٹیاں کاغذات میں موجود ہیں ان میں سے بعض نے بلوچستان میں قدم رنجہ بھی نہیں فرمایا۔ بعض کوئٹہ گئیں مگر بلوچوں کی حقیقی قیادت کی بجائے حکومتی شخصیات اور سرکاری حکام سے گپ شپ کے بعد واپس اسلام آباد آ گئیں اور پھر منظر سے غائب ہو گئیں۔ اس طرز عمل سے بلوچوں اور وفاق کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی بلوچوں سے ہمدردی اور یک جہتی کے اظہار میں اتحادی حکومت سے پیچھے نہیں مگر ان کے پاس کوئی نوابزادہ نصراللہ خان نہیں جو ان حالات میں اپنے سیاسی تدبر سے ان سب کو اکٹھا کرکے بلوچ قیادت کے پاس لے جائے اور اجتماعی دانش بروئے کار لاتے ہوئے مسئلے کے عملی حل کی تلاش میں مفاہمانہ کردارادا کر سکے۔
مذاکرات کس سے کئے جائیں؟ اس حوالے سے ’ناراض بلوچ‘ کی اصطلاع استعمال کی جا رہی ہے۔ ویسے توبلوچ تقریباً سارے ہی ناراض ہیں کسی نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں تو کوئی زبان اور قلم کے ذریعے حقوق و اختیارات مانگ رہا ہے لیکن حکومت علیحدگی پسند تنظیموں اور قوم پرست پارٹیوں کو ہی ناراض اور باقی سب کو ”راضی“ سمجھتی ہے۔ قوم پرست پارٹیوں کی ہیئت اور ان کی قیادت سب پر واضح ہے ۔ وہ ناراض ہی نہیں وفاق کی وعدہ خلافیوں پر مشتعل بھی ہیں۔ پھر بھی وہ بعض تحفظات کے ساتھ مقتدرہ سے مذاکرات پر تیار ہیں۔ راضی بلوچوں کو بھی اتنا راضی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ انہیں جیب کی گھڑی سمجھ لیا جائے۔ وہ مزاحمت کاروں کے ساتھ نہیں مگر کھل کر ان کی مذمت بھی نہیں کرتے۔ گویا وفاق کی پالیسیوں سے وہ بھی خوش نہیں۔ قومی اتفاق رائے کا حصول ان کی مشاورت اور عملی تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ سب سے مشکل کام مزاحمتی تنظیموں کومذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ انہیں ناراض بلوچ کہنا بھی شاید درست نہیں۔ ناراض تو ایک دوست دوسرے دوست سے ہوتا ہے جبکہ مزاحمت کار پاکستان کو دشمن ریاست کا درجہ دیتے ہیں۔ دوست کو معافی مانگ کر منایا جا سکتا ہے مگر جو شخص آپ کو دشمن سمجھے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے معافی کے ساتھ تلافی بھی ضروری ہے۔ اس لئے مزاحمت کاروں کومنانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کی کوئی مشترکہ کمان نہیں ان کی پانچ چھ بڑی تنظیمیں ہیں جن کی آگے اپنے اپنے ناموں سے کئی کئی شاخیں ہیں۔ ان کے اپنے اپنے کمانڈر ہیں جن میں باہمی رابطے تو ہو سکتے ہیں۔ مگر فیصلہ سازی میں سب آزاد ہیں اس لئے جب بات چیت کے لئے بلایا جائے تو ان کے لیڈروں مثلاً میر سلیمان داؤد براہمدغ بگٹی حیربیامری اور ڈاکٹر اللہ نذر سے الگ الگ رابطہ کرنا پڑے گا۔ ان میں سے اول الذکر تینوں ملک کے باہر سے مزاحمتی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان ہی میں کسی خفیہ مقام پر موجود ہیں۔ اگرچہ انہیں بات چیت پر آمادہ کرنا اس وقت ناممکن سی بات نظر آتی ہے مگر بلوچوں کی مسلمہ روایت ہے کہ دشمن بھی خود چل کر ان کے گھر آ جائے تو اسے عزت دی جاتی ہے۔ تاہم زیر نظر معاملے کی نوعیت ایسی ہے کہ خود چل کر گھر آنے والے کا مقام و مرتبہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اس پر اعتبار کیا جا سکے۔ عسکریت پسندوں کے علاوہ قوم پرستوں قبائلی شخصیات اور وفاقی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے رابطے کے لئے بھی اسی اصول کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ رہا یہ سوال کہ رابطہ کون کرے تو اس ضمن میں موثر ترین شخصیت خود صدرزرداری ہو سکتے ہیں جو شایداپنے اعلیٰ منصب کے علاوہ سندھی بلوچ ہونے کے ناطے بلوچوں کے لئے امکانی حد تک زیادہ قابل قبول ہوں گے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ صدر زرداری جو کام موجودہ وفاقی حکومت کے پونے پانچ سالہ دور میں نہیں کر سکے وہ باقی ماندہ دو تین ماہ میں کیسے کریں گے؟ ویسے بھی الیکشن اگر کسی غیر متوقع حادثے کی وجہ سے ملتوی نہ ہوئے اور توقع کے مطابق مقررہ وقت پر ہو گئے تو آنے والی حکومت کی اپنی ترجیحات ہوں گی۔ بلوچ قیادت بھی موجودہ حکومت کے ساتھ معاملات سوچ سمجھ کر ہی طے کرے گی۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ حکومت جانے والی ہے۔ اس نے اپنی طویل مدت میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔نہ اس وقت وہ طے پانے والے معاملات پر عملدرآمد کی موثر ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے۔اس لئے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی بیان بازی اور کمیٹیوں کے کھیل سے قطع نظر صدر زرداری اس مسئلے کو جوں کا توں رکھنے پرہی اکتفا کریں گے اور یہ ورثہ آئندہ حکومت کے لئے چھوڑدیں گے۔
تازہ ترین