خاور جتوئی، جھگی والا
کسی گاؤں میں ایک محنت کش لکڑہارا رہتا تھا، وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچتا، جس سے اس کا گزر بسر ہوتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام احمد تھا۔ وہ بہت ذہین تھا، کلاس میں بھی ہمیشہ اول آتا تھا۔ اس نے آٹھویں جماعت تک اپنے گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کی مگر اب وہ شہر جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے ابو سے کیا تو وہ فوراً راضی ہوگئے، مگر گھر یلو حالات تنگ ہونے کے باعث اس کے والد بمشکل اس کا داخلہ کسی اچھے اسکول میں کروا سکے۔
احمد نے جب شہری اسکولوں کا ماحول دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ہر ایک کے پاس نت نئی چیزیں تھیں۔ وہ ان بچوں کو دیکھتا تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتا اور سوچتا کہ کیا وہ کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکے گا۔ اسی سوچ اور کش مکش میں ایک دن وہ اپنے استاد بلال صاحب کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا کہ، ’’ماسٹر صاحب کیا میں کبھی بڑا آدمی بن سکوں گا؟‘‘، احمد کی بات سن کر ماسٹر صاحب نے قہقہہ لگا دیا، پھر اُسے جواب دیا ’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے، بس تین اصولوں پر عمل کرو۔۔۔‘‘ احمد نے انتہائی تجسس سے پوچھا، ’’کون سے اصول؟‘‘ ماسٹر صاحب نے اپنے بیگ سے چاک نکال کر بورڈ پر دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں، پہلی لکیر پر محنت، دوسری پر ایمانداری اور تیسری پر ہنر لکھا۔ احمد چپ چاپ، غور سے ماسٹر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ ماسٹر صاحب لکھنے کے بعد احمد کے پاس آئے اور کہا، ’’اگر ترقی کرنا چاہتے ہو تو ان تین زینوں پر چڑھنا ہوگا۔
پہلا زینہ محنت کا ہے، آپ کے حالات جیسے بھی ہیں، اگر آپ دن رات محنت کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے، مطلب اگر باقی لوگ کوئی کام آٹھ بجے شروع کرتے ہیں آپ سات بجے سے شروع کر دیں اور اسی طرح رات کو آخر میں کام سے لوٹیں، آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارے ارد گرد موجود 90 فیصد لوگ سست ہیں، وہ محنت نہیں کرتے۔ لیکن جو محنت کرتے ہیں، وہ90 فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر 10 فیصد محنتی لوگوں کی فہرست میں آ جاتے ہیں۔ اگلا مرحلہ ایمانداری کا ہے۔ ایمانداری چار عادتوں کا پیکیج ہے۔ وعدے کی پابندی، جھوٹ سے نفرت، زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ یعنی اگر آپ کاروبار کر رہے ہیں تو اپنی اشیاء بیچنے کے لیے کبھی جھوٹ نہیں بولیں، جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں اور اگر کبھی آپ سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا اعتراف کرکے سدھارنے کی کوشش کریں۔
یہ ہمیشہ یاد رکھنا کام یابی کے لیے 80 فیصد محنت اور ایمانداری پر انحصار کرنا جب کہ صرف 20 فیصد ہنر پر۔ ہنر کو سب سے آخر میں اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ ہمارے ارد گرد بہت سے ہنر مند افراد موجود ہیں مگر سست اور بے ایمان ہونے کی وجہ سے انہیں کام یابی نصیب نہیں ہوتی، میں نے خود کئی ہنر مندوں کو بھوکے زندگی بسر کرتے دیکھا ہے، جب کہ کئی انسان ایسے بھی ہیں جن کے پاس کوئی ہنر نہیں وہ صرف محنت اور ایمانداری کی بنیاد پر کام یاب بن گئے، تم ان تینوں اصولوں کو اپنا کر آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتے ہو۔‘‘
ماسٹر صاحب کی باتیں احمد کے ذہین میں گھر کر گئیں۔ وہ پر عزم تھا کہ ان تینوں اصولوں پر عمل کر کے کام یاب انسان بنے گا اور کچھ ہی عرصے میں ایسا ہی ہوا۔
بچو! احمد کی طرح آپ بھی اگر ماسٹر صاحب کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے تو زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پوری ایمانداری اور محنت سے کام کریں گے تو کوئی کام نہ ممکن نہیں ہوگا۔