• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چونکہ میں نے زندگی کے ساڑھے سات سال پاکستانی بیوروکریسی میں گزارے ہیں اس لئے میرے کان اس فقرے سے بڑے مانوس ہیں۔ میں نے یہ فقرہ ایسے لوگوں کے منہ سے ہزاروں دفعہ سنا ہے جن کے ہاتھوں میں ایک عام پاکستانی کی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ یہ لوگ جب کوئی غلط کام کر رہے ہوتے ہیں (اور زیادہ تر یہ غلط کام ہی کر رہے ہوتے ہیں) تو اس فقرے کی ڈھال کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں خود تو بہت اچھا ہوں لیکن یہ جوکم بخت پریشر ہے اس کی وجہ سے میرے جیسے پاکباز کو بھی یہ غلط کام کرنا پڑا۔ بیوروکریسی چھوڑنے کے بعد کم ہی ایسے لوگو ں سے ملتا ہوں لیکن کیا کروں زندگی کا ساتھ بھی تو نبھانا ہے، کہیں نہ کہیں واسطہ پڑ ہی جاتا ہے۔ چند دن پہلے،کوئی سال سوا سال کے بعد، ایک کام کے سلسلے میں ایک بیوروکریٹ سے واسطہ پڑ گیا تو یہ فقرہ دوبارہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔
اس پریشر کے چند ایک واقعات نقل کرتا ہوں۔ میں وزارتِ خارجہ میں اسٹیبلشمنٹ میں تعینات تھا۔ میر ے فرائض میں گریڈ 14 سے گریڈ 16 کے اہلکاروں کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معمالات شامل تھے۔ اپنی تعیناتی کے چند ہی دنوں کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے متعلق کوئی ڈیٹا موجود ہے نہ ہی کوئی میرٹ، سارے کا سارا نظام سفارش پر چل رہا تھا۔ خصوصاً سیکریٹری خارجہ اور وزیر خارجہ کے دفاتر نے اودھم مچا رکھا تھا۔ چند ہی دنوں میں میر ے باس نے میرے اوپر احکامات کی بارش کر دی کہ فلاں کو فلاں جگہ لگا دیا جائے اور فلاں کو فلاں جگہ سے ہٹا دیا جائے۔ اسی طرح بیرون ملک سفارتخانوں کی پُرکشش تعیناتیاں بھی صرف اور صرف سفارش کی بنیاد پر پُر کی جا رہی تھیں۔ مجھ گناہگار نے ان احکامات کی بجاآوری میں تھوڑی تاخیر کردی تو باس ناراض ہو گئے۔ میں نے صاف صاف انہیں بتا دیا کہ یا تو کوئی نظام وضع کر دیجئے یا پھر آپ خود دستخط کر دیا کیجئے۔ فرمانے لگے کہ سیکریٹری آفس سے جب پریشرآتا ہے تو کوئی قاعدہ قانون یاد نہیں رہتا۔ اگر نوکری کرنی ہے تو ٹھیک ہو جاؤ ۔اسی طرح ہندوستان میں ایک منجھے ہوئے سفارتکار سفیر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ایک ویزہ کیلئے خلافِ قاعدہ حکم فرما دیا، متعلقہ اہلکار نے عرض کیا قاعدے کے خلاف ہے تو سخت برہم ہو گئے کیونکہ ان پر پریشر تھا تحریری طور پر حکم صادر فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ ویزہ جاری کرو اور بیٹھ کر قاعدے قانون کی کتابیں پڑھتے رہو۔
ہمارے ایک بڑے نامور اور مایہ ناز سفارتکار ہیں جنہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے ان کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ایک دفعہ ایک اعلیٰ سطحی بیرون ملک دورے کی غرض سے پاکستان سے تشریف لائے تو میں بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے وہا ں مامور تھا۔ محترم نے آتے ہی اس ملک کی مشہور چائے کے ڈبوں کی فرمائش کی کیونکہ میرا کام صر ف پروٹوکول اور رابطہ کاری کا تھا، میں نے متعلقہ افسر کو اس فرمائش سے آگاہ کر دیا تو وہ جھٹ بولا کہ پیسے اس کا باپ دے گا۔ میں نے کہا ”تو پھر رہنے دیتے ہیں“۔ وہ سوچ میں پڑ گیا اور کہنے لگا خواہ مخواہ مصیبت کھڑی کر دے گا، میں منگوا دیتا ہوں اور پیسے کسی ہیڈ میں ڈال دوں گا۔ ایک انجانے پریشر کے تحت اس نے چائے کے ڈبے منگوا دےئے اور معاملہ ختم ہو گیا۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ چائے کے ڈبے تو معمولی چیز ہیں اس طرح کی فرمائشیں ہمیشہ اتنی سستی اور بے ضرر نہیں ہوتیں۔ مثلاً ایک بہت ہی عام فرمائش اعلیٰ نسل کی شراب کی ہوتی ہے۔ سو وہ بھی کی گئی لیکن مجھ سے نہیں بلکہ پنج ستارہ ہوٹل کے بار روم سے جس کے بل بھی بعد میں اسی طرح کسی ہیڈ میں ڈالے گئے ہوں گے اور اس کارِخیر میں وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ اس کا اہتمام وہ اس دورے کے دیگر شرکاء کیلئے کر رہے تھے،ان شرکاء کیلئے کہ ان کے نام اگر میں یہاں لکھ دوں تو شاید صبح ہتکِ عزت کے نوٹس آ جائیں کیونکہ وہ تمام بڑے باعزت لوگ ہیں۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہوگا کہ آپ کو تحقیق کرنی پڑے کہ وہ کون ہے۔ جب محفل سجی اور اعلیٰ سطحی وفد کے بیرون ملک کامیاب ترین دورے کے اراکین ”ٹن“ ہو کر اپنے غلاظت بھرے مافی الضمیر با آوازِ بلند ایک دوسرے پر انڈیلنے لگے تو ہمارے ایک ساتھی افسر جو راہداری سے گزرتے ہوئے ان کی مغلظات سن کر آ رہے تھے، ہنسی سے لوٹ پوٹ بیان کرنے لگے۔ جب ایک دوسرے ساتھی نے بتایا کہ ہمارے اپنے مایہ ناز سفارتکار بھی اس محفل میں شریک تھے تو ایک اورسینئرساتھی ہمدردانہ انداز میں کہنے لگے کہ وہ خود تو ایسے نہیں ہیں لیکن انہیں پریشر کی وجہ سے اس طرح کے کام کرنے پڑتے ہیں۔سبحان اللہ!!!!
وقت گزرتا گیااور ایک دفعہ پھر ان سے ملاقات ہوئی لیکن اس دفعہ میں بہت غصے میں تھا اور وہ بہت محتاط تھے۔ اپریل کا مہینہ تھا اور سال2011ء۔ مجھے ان کے دفتر میں طلب کیا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے پر میں نے وزارتِ خارجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں چونکہ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارتکاروں کے استثنیٰ کے معاملات دیکھ رہا تھااور وہ وزارتِ خارجہ میں چیف آف پروٹوکول تھے، مجھ سے استعفیٰ دینے کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔ میں نے دوٹوک الفاظ میں ان سے کہا کہ وزارتِ خارجہ نے اس سارے معاملے میں جو کردار ادا کیا ہے میر ے نزدیک وہ ملک سے غداری کے مترادف ہے اور سیکریٹری خارجہ کے بعد اس کی رہائی میں سب سے کلیدی کردار آپ کا ہے اس لئے میں سیکریٹری خارجہ ، چند دیگر سینئر افسروں اور آپ کی اس غداری کے خلاف احتجاج کے طور پر مستعفی ہونا چاہتا ہوں۔ وہ چند لمحوں تک میری آنکھوں میں دیکھتے رہے اور پھر فرمانے لگے”میرے اوپر بڑا پریشر تھا“۔ میں اپنے غصے پر بڑی مشکل سے قابو پاتے ہوئے ان کے کمرے سے رخصت ہو گیا۔
تازہ ترین