• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیپاٹائٹس کیا ہے؟
ہیپا ٹائٹس ایک ایسا مرض ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے مرض کا شکار ہیں۔اس مرض کے متعلق آگاہی پھیلانے اور عوام میں اس مرض کا بر وقت علاج کروانے کا شعور اجاگر کرنے کیلئے عالمی ادارہ صحت ہر سال 28جولائی کو بین الاقوامی سطح پر ’’یومِ ہیپا ٹائٹس‘‘ کے طور پر مناتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے2030تک دنیا سے ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کا پروگرام بنایا ہے۔ہیپا ٹائٹس جگر میں انفیکشن کے باعث ہونے والی سوزش اور ورم کا نام ہے۔ یہ بیماری سب سے زیادہ انسانی جگر کو متاثر کرتی ہے۔طبی سائنس جگر کو انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو اور گلینڈ تصور کرتی ہے جو جسم کے سب سے اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ جسم کے یہ سب اہم کام جگر کے خراب ہونے پر متاثر ہو جاتے ہیں۔ آج کل جگر کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ وائرس سے ہونے والی انفیکشن یعنی ہیپا ٹائٹس ہے۔
ہیپا ٹائٹس پھیلنے کی وجوہات اور علامات
ہیپاٹائٹس بی اور سی غیرتصدیق شدہ انتقال خون ،آلودہ آلاتِ جراحی،استعمال شدہ سرنجوںاور استرے وغیرہ سے پھیلتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور ماں سے بچے میں بھی یہ مرض منتقل ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہیپاٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی اور مضر صحت کھانے کی اشیاء سے پھیلتا ہے۔ اس انفیکشن کی زیادہ تر وجہ وائرس ہےجبکہ بعض اوقات شراب نوشی، کچھ ادویات کا بے جا استعمال یا انسان کے اپنے مدافعاتی نظام کی خرابی بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔ہیپا ٹائٹس کی چار اقسام ہیں، A,B,Cاور E۔ ان تمام اقسام میں سے سب سے عام ہیپاٹائٹس سی ہے۔ہمارے ہاں اکثر لوگ اس کا شکار ہیں اور اس مرض کے بڑھنے کی اصل وجہ ہماری لاعلمی ہے۔یہی مرض سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے۔ہمیں بالخصوص اس سے بچنے کیلئے تدابیر اختیار کرنا چاہئیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجوہات کا علم ہو اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے اور عطیہ خون لیتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خون عطیہ کرنے والا شخص اس مرض میں مبتلا تونہیں۔پاکستان میں اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ غیر تصدیق شدہ انتقال خون، استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ، شیونگ بلیڈ اور عطائی دندان سازہیں۔ہیپاٹائٹس سی اور بی کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 365ملین افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں جس میں سے ہر سال تقریباً134,0000افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں 2017ء کے ایک سروے کے مطابق15ملین پاکستانی ہیپاٹائٹس سی کے مریض ہیں جویقیناًایک بہت بڑی تعداد ہے۔قارئین کو ہیپا ٹائٹس سے متعلق مکمل آگہی فراہم کرنے کیلئے ہم نے ملک کے نامور اور ہونہار ڈاکٹر صاحبان سے جب اس مرض کے حوالے سے پوچھا تو اُنکا یہ کہنا تھا۔
ڈاکٹر ندا رئوف
ڈاکٹر نِدا رئوف کا ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس سی ایک جان لیوا انفیکشن ہے لیکن اس کا علاج انتہائی آسان ہے۔مغرب میںلوگ منشیات و دیگر نشہ آور مواد سرنجوں سے اپنے جسم میں اتار کر اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔اکثر اوقات چند سو روپے بچانے کیلئے مریض ڈاکٹر کی بجائےمیڈیکل اسٹو ر کا رخ کرتے ہیں اور دردکش یا کوئی اور ٹیکہ لگوانے پر اصرار کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی اور بی کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ انفیکشن کئی سالوں تک موجود رہتا ہے جس کی نشاندہی نہیں ہوتی جبکہ اس کا وائرس جگر کو نقصان پہنچاتا رہتا ہے اور اس مرحلے پر جاپہنچتا ہے جہاںوہ لاعلاج ہوجاتا ہےاور سرجری کے بعد جگر کی پیوند کاری کے علاوہ کوئی حل نہیں بچتا ۔ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین ابھی تک دستیاب نہ ہے لیکن ریسرچ جاری ہے ۔پاکستان سے ہیپاٹائٹس کو ختم کر نے کی صرف ایک صورت ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ تھوڑی سی احتیاط بہت سے علاج اور پیچیدہ پیوند کاری سے بہتر ہے۔پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ درست علاج کیلئے درست معالج کا انتخاب کریں اور غیر ضروری ٹیکے لگوانے سے مکمل پرہیز کریں۔
ڈاکٹر ابو زیب
ڈاکٹر ابو زیب کا کہنا ہے کہ جگر انسانی جسم کا نہایت اہم اور سب سے بڑا عضو ہے۔جو انسان کے جسم کو فاسد زہریلے مادے نکالنے، وٹامنز اور کئی ضروری غذائی اجزا کو ذخیرہ کرنے، خوراک ہضم کرنے اور جسم کی ضرورت کے مطابق اس خوراک سے توانائی حاصل کرنے (میٹابولزم کا عمل) جسمانی ضرورت کے مطابق پروٹین تیار کرنے، خوراک ہضم کرنے کے لئے کیمیکل بنانے، شوگر اور کولیسٹرول کی مقدار کو توازن میں رکھنے، گلوکوز ذخیرہ کرنے اور ضرورت پڑنے پر اس سے توانائی حاصل کرنے کا کام ہے۔ہیپاٹائٹس سی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ جو (ایچ سی وی)سی وائرس کی وجہ سےپھیلتاہے۔اکثر اوقات اس مرض میں مبتلا شخص کو ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو چکا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ مریض کے بیماری کی صورت میں اپنے بنیادی طبی ٹیسٹ نہ کروانے کی بجائے غلط ادویات کا استعمال ہے۔ہیپاٹائٹس کی علامات میں یرقان(آنکھوں کا پیلا اور جلد زردی مائل ہو جانا)،تھکاوٹ محسوس کرنا،معدے میں درد ہونا،زکام لگنا، اسہال،بھوک کا نہ لگنا،بخار اور سردرد وغیرہ شامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی کے پھیلنے کی بڑی وجوہات میں دانتوں کے علاج اور سرجری میں غیر محفوظ آلات استعمال کرنا، انجیکشن کے ذریعے منشیات شامل ہے۔غیر محفوظ آلات سے جسم پر ٹیٹو اور کان یا ناک چھدوانے سے ہیپاٹائٹس سی پھیلتا ہے۔لہٰذا روزمرہ زندگی میں ہم ان چیزوں سے پرہیز کر کے کافی حد تک اس بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیہہ احمد
ڈاکٹر نجیہہ احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل بچوں کی ویکسی نیشن کے دوران استعمال شدہ سرنجیں استعمال کی گئیں جس سے اس مرض میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ۔لہٰذا اس کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں شعور و آگاہی پیدا کی جائے۔ اس حوالے سے صرف حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو ہی ذمہ داری نہیں بنتی بلکہ ہر طبقہ ہائے زندگی بالخصوص میڈیا کو اس ضمن میں اپنا نہایت فعال کردار ادا کرنا چاہئے اور لوگوں کو یہ بات بتانی چاہئے کہ اس مرض سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔اسکولوں اور کالجوں میں اس مرض کے تدارک کے حوالے سے آگاہی مہم ہونی چاہئیں اور اس کیلئے ویکسی نیشن پروگرام شروع کیے جائیں۔ہیپاٹائٹس اے کی ویکسی نیشن موجود ہوتی ہے جو ہمیں کم عمری میں ہی کروا لینی چاہئے۔ہیپاٹائٹس کے مریض کی زیر استعمال اشیاء استعمال کرنے سے بھی اس مرض کے ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔یہ مرض منشیات کے عادی افراد میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھر سے باہر ہمیں چاہئے کہ ڈسپوزیبل برتن وغیرہ استعمال کریں تاکہ اس مرض کے خطرات کم سے کم رہیں۔اس مقصد کیلئے 6 سے 12 ماہ کے عرصہ میں تین انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ مکمل حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ہیپاٹائٹس بی سے بچائو کا صرف یہی یقینی طریقہ ہے۔ہیپاٹائٹس سی کی فی الحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ (گفتگو: طائوس رباب)
تازہ ترین