• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاں میں باغی ہوگئی، مگر کیوں؟

راشدہ جاوید

 وہ دن بدن ذہنی تناؤ کا شکار ہوتی جا رہی تھی،اپنے لئے کوئی سوال کرتی تو جواب ملتا کہ لڑکیاں ایسے نہیں سوچتیں،کبھی زور سے ہنس لیتی تو ڈانٹ پڑتی کہ آہستہ ہنسو، آواز باہر نہ جائے

پڑھنے کا سوچتی تو وہی فرسودہ نظریہ کہ، بیٹا تمہاری شادی کرنی ہےپڑھ کر کیا کروگی؟

سہیلیوں کےساتھ عرصہ بعد گیٹ ٹوگیدر کا دل کرتا تو سننے کو ملتا کہ یہ کون سا نیا فیشن ہے؟

ہانڈی روٹی صحیح نہ بنتی تو ماں کہتی اگلے گھر جا کر جوتیاں کھائے گی،گھر کی صفائی صحیح سے نہ ہوتو طعنہ ملتا کہ سلیقہ تو چھو کے نہیں گزرا۔پابندیوں کا گٹھا دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہونے لگی

صنفی تفریق سے وہ چڑتی تھی نہ جانے کون کون سےنئے قوانین اسے جاننے کو ملتے تھے کہ عورت یہاں نہیں جا سکتی،یہ نہیں کر سکتی،وہ نہیں کر سکتی،اسطرح نہیں رہ سکتی،جب بھی کوئی اسے دیکھنے آتا تو ا س طرح پیش کردیا جاتا، جیسے پلیٹ میں پڑی کوئی میٹھائی ہے۔ لڑکے والے پسند کر جائیں تو سو بسم اللہ ،ورنہ ناپسندیدگی کا اظہار سر آنکھوں پر ،ا س کے رنگ پر تنقید، نین نقش پر تنقید اوراب تو اس کی بڑی عمر پر بھی تنقیدوتفتیش کہ، ابھی تک رشتہ کیوں نہیں ہوا؟اسے ایسا لگنے لگا وہ ایک”قیدی“ ہے ،جسے بلا وجہ پنجرے میں بند رکھا ہو ۔ایک ”مصیبت“ ہے ،جسے شادی کے بعد کسی کےگلے میں پھندے کی طرح لٹکانا ہے اور پھرمڑکر اس کا پتہ نہیں لینا ۔وہ رات کی تاریکی میں اپنے رب سے دل کی باتیں کرتی، کہتی کہ، اے میرے پروردگار!میں تیری بنائی ہوئی تجھ سے راضی ہوں لیکن شائد یہ معاشرہ اور میرے اپنے مجھ سے راضی نہیں ۔ناجانے کیوں لوگ مجھے عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟

وہ رب سے پوچھتی کہ کیا شادی کی تاخیر میں انسان کا کاعمل دخل ہے ؟

اور اگر شادی نہ ہوتو کیا لڑکی کو اپنے لئے کچھ بھی کرنے کا حق نہیں؟کیا عورت اپنا مستقبل خود نہیں بنا سکتی ؟

”علم“ تو مرد عورت دونوں پر فرض ہے پھر میرے اپنے کس دین کے پیروکار ہیں؟

کیا عورت اپنے حق کے لئے بھی آواز نہیں اٹھا سکتی؟

وہ آنکھوں میں آنسو لئے اپنا سرگھٹنوں کے بیچ دبوچ لیتی، روتی اور لوگوں کے تمام گلے شکوے اپنے رحمان سے کرتی، کہتی کہ ۔۔۔۔۔۔

اسلام تو ”مساوات“سکھاتا ہے۔ کالے گورے کا فرق ختم کرتا ہے، پھر لوگ کیوں مجھے احساسِ کمتری کا شکار کر جاتے ہیں ؟رشتہ دیکھنے کے لئے کم اور کیڑے نکالنے زیادہ آتے ہیں،کیوں وہ رشتے جنہیں تو نے عزت و احترام کے قابل بنایا طعنے دیتے ہیں ؟ ۔

وہ کہتی کہ اے میرے رب!دین میں تو ”جبر“ نامی کوئی شے نہیں، پھر کس چیز پر لوگ تہمتیں ، الزامات لگاتے ہیں جو جیسا رہنا چاہتاہے اسےویسا رہنے کیوں نہیں دیتے؟

مجھے اس دنیا میں گٹھن ہونے لگی ہے، ایسا لگتا ہے مجھے جینے کا حق نہیں، جیسے میں کوئی جانور ہوں۔کبھی کبھی وہ رب سے موت کا سوال کرتی، پھر توبہ کرتی کہ اس کی خواہش کرنا بھی گناہ ہے۔وہ سوچتی کہ معاشرہ اور اس کے گھر والے غلط ہیں ،جو لڑکوں کو اتنی آزادی دیتےہیں ۔وہ اس بات سے شدید اختلاف رکھتی تھی کہ اس کے بھائی کے لئے گھر میں کوئی طور طریقہ کیوں نہیں ؟اس کوکیوں نہیں ادب آداب سکھائے جاتے جیسے لڑکیوں کو سکھائے جاتے ہیں ؟اس نے بھی کسی کا شوہر اور باپ بننا ہے اور ایک گھر چلانا ہے۔

کاش میں بھی ایک لڑکا ہوتی پھر جہاں مرضی آتی جاتی، نہ کوئی پوچھنے والا ہوتا نہ وہ بتانے والی اور آزاد پنچھی کی طرح کبھی کسی گلی میں عورتیں تاڑتی کبھی کہیں اونچی آواز میں قہقے مارتی،کوئی مجھےکچھ نہ کہتا، کیونکہ میں ایک ”لڑکا“ ہوتا۔ نہ گھر کی صفائی میرےذمہ ہوتی نہ ہانڈی روٹی۔ جیسے لڑکیوں کو اگلے گھر جانے کے طور طریقے سکھائے جاتے کم از کم میرے ساتھ ویسا نہ ہوتا، نہ ہی لڑکیوں کی طرح بار بار میں رشتے کے نام پر دوسرے کے سامنے پیش ہوتا اور نہ ہی لوگ میری ذات میں کیڑے نکالتے ۔

میری پیدائش پر ،میٹھا ئیاں بانٹی جاتیں، منتیں مانگی جاتیں،بڑا ہو کر میں کچھ نہ بھی کرتا پھر بھی ماں باپ کا پیارا ہی کہلاتا ۔اگر میں لڑکا ہوتی تو میرے لئے کوئی ضابطہ ، قانون اور ذمہ داری نہ ہوتی جسے اس معاشرے کے مردوں نے خود اپنے لئے تجویز کر رکھا ہے

وہ اپنے آپ کومستقبل میں مضبوط دیکھنا چاہتی تھی، نہ جانے اسے مستقبل میں کس چیز کا خوف کھائے جا رہا تھا، شائد وہ اپنی بہن سے اس کے شوہر کا برا رویہ اور اپنے باپ سے دوسری شادی کے بعد کی دوری ، نظر اندازی اور ماں کا بڑھاپا جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی محرومیوں میں گزررہا تھا اس کے دماغ پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ چکا تھا۔

جب اپنے آپ کو وہ ان کی جگہ رکھ کر سوچتی کہ کیا وہ یہ سب برداشت کرے گی؟جب وہ یہ سوچتی توپھر وہ اپنے آپ سے عہد کرتی کہ وہ اپنی ماں ، بہن اور باقی عورتوں کی طرح خاموشی کی چادر اوڑھے چپ نہیں سادھے گی،وہ اپنے لئے کچھ کرے گی، تاکہ آنے والا وقت اس کے ساتھ ہو۔وہ سوچتی کہ اسلام تو برائی کے خلاف آواز اٹھا نے کو کہتا ہے

ظلم کے خلاف بولنے کو کہتا ہے لیکن میرا گھر میرا معاشرہ کہتا ہے، جب تک زندہ ہو ظلم برداشت کرتے رہو ۔۔۔۔

ایک گہری سانس لےکر وہ اپنی ہی ذات میں مزید پر عزم ہوجاتی،اپنے آپ کو تھپکتی اور کہتی کہ تم کوئی انقلاب لاؤ گی ،ایسا انقلاب جسے دنیا تو نہیں لیکن کم از کم تمہارے اپنے تو دیکھیں گے ۔اپنے آپ کو مضبوط کرتے اس کا دن رات گزر جاتا۔دن بدن اس کی ذات میں تبدیلی عروج پر تھی اور اب وہ نڈر ہو چکی تھی،بالکل بے خوف ،اب وہ آئینہ بھی دیکھتی تو اسے اپنے اندر ایک انجان سا شخص نظر آتا ۔اسے اپنی ذات میں تبدیلی لگتی،ایسے لگتا جیسے وہ ضد کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے،

جیسے اس کا مقابلہ کسی سے چل رہا ہو اور اسے ہر حال میں جیتنا ہو، کیونکہ اب وہ ”باغی“ ہو چکی تھی ۔

تازہ ترین