• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے رُخسار تمتمارہے ہیں۔
جغرافیے کو پسینہ آرہا ہے۔
خواص دیکھتے رہ گئے۔ عوام رُکاوٹیں عبور کرکے بہت آگے نکل گئے۔
ان کے راستے میں کتنے دام ہمرنگ زمیں بچھائے گئے تھے۔
تجزیہ کار کیا کیا تاویلیں لارہے تھے۔ کیسے کیسے نام لے کر ڈرایا جارہا تھا۔
معلّق پارلیمنٹ۔ مخلوط حکومت۔ جیپ کی مجبوری۔ تحریک لبیک کی کشش۔
قوم پرست بھی راستے میں کھڑے بہت پیشکشیں کررہے تھے۔
بہت سی تنظیمیں جنّت کے ٹکٹ دے رہی تھیں۔
گوادر سے واہگہ تک پاکستان کے مجبور۔ مقہور۔ مسائل میں گھرے۔ بہت ہی مشکل سے زندگی کی گاڑی کھینچتے عوام نے اپنے سیاسی۔ روحانی۔ سماجی اور معاشی شعور کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹرائن بھی ہاتھ جوڑتے رہ گئے۔ بیانیے آواز دیتے رہے۔ جیل کی سلاخیں بھی دل موم نہ کرسکیں۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
1970سے پاکستان کے ریگ زار۔ کوہسار۔ میدان۔ وادیاں۔ دو آبے۔ کچے علاقے۔ کیٹیاں۔ بازار۔ مارکیٹیں یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ عوام کو جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے رجعت پسند قوتوں کو دھتکار دیا ہے علیحدگی پسندوں کو مسترد کردیا ہے۔ وہ آگے بڑھنے والوں کے ساتھ رہے ہیں۔ انہوں نے آنے والی کل کے ساتھیوں کی طاقت بڑھائی ہے۔ مگر ان کی بد قسمتی کہ روشنی کی بات کرنے والے خود ہی اندھیروں میں پناہ لینے لگے۔ عوام نے کبھی مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو حکمرانی کا حق نہیں دیا۔ حالانکہ سرمایہ داری۔ سوشلسٹ اور نام نہاد جمہوری نظام کی ناکامیاں دیکھ کر انہوں نے اسلامی نظام کی آرزو کی ہے۔ کہیں بھی سوال کرلیں متبادل نظام میں وہ اسلام کے عادلانہ۔ مساواتی سسٹم کو ہی ترجیح دیتے رہے ہیں۔ حکمرانوں نے بھی سبز باغ دکھائے ۔ کالا باغ ڈیم سے گریز کیا۔ لیکن اسلام کی مساوات۔ فلاحی شعائر لانے کے لئےکوشش نہ کی۔ عوام نے اس بار بھی مذہبی جماعتوں کو مینڈیٹ نہیں دیا۔
سارے ماہرین یہ قول فیصل دے رہے تھے کہ 40سال سے ہم زوال کا شکار ہیں۔ ہماری معیشت زبوں حال ہے۔ جنرل قمر باجوہ نے بھی میونخ کی سیکورٹی کانفرنس میں برحق کہا کہ ہم 40سال پہلے بویا کاٹ رہے ہیں۔ ملک کو اعتدال کی راہ سے ہٹاکر انتہا پسندی پر ڈال دیا گیا ۔ اس شدت پسندی نے مملکت کا پورا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔ معیشت کی کمر ٹوٹتی رہی۔ قدرتی وسائل کو نظر انداز کرکے قرضوں پر قرضے لئےگئے۔ دو سیاسی پارٹیوں کی باریاں لگ گئیں۔ ان کے بنگلوں کی وسعتیں بڑھتی گئیں۔ قیمتی سے قیمتی گاڑیاں ان کے استعمال میں آتی گئیں۔ ملک کا خزانہ خالی ہوتا رہا۔ ان کی تجوریاں بھرتی گئیں۔ اربوں روپے ملک سے باہر پرواز کر گئے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
پرانی سیاست گری خوار ہے
کروڑوں ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ ان کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے کم ہوگئی۔ وہ تو چند اداروں کے دستر خوانوں نے انہیں بھوکا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ حکومتوں کو ان کی کوئی فکر نہ تھی۔ بے روزگاری اور مایوسی کے سبب خودکشیاں بھی ہورہی تھیں۔
عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ لیکن ان کے سامنے کوئی تبدیلی لانے والا نہیں تھا۔ وہ کس پر اعتماد کرتے۔ پہلے جن پر اعتماد کیا انہوں نے بہت اذیت پہنچائی۔
نظام مصطفیٰ لانے والوں نے ایک ظالم فوجی آمر کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ کچھ نے کہا جمہوریت بہترین انتقام ہے۔کچھ نے کہا کہ قرض اُتارو ملک سنوارو۔ قرضے بڑھتے گئے۔یہ خواص خود سنورتے رہے۔
اب تبدیلی کا نعرہ لگا۔ تو عوام نے اِدھر اُدھر دیکھا جائزہ لیا۔تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو موقع دے کر دیکھتے ہیں۔اس نے بھی اگرچہ الیکشن جیتنے کے لئے وہی جاگیردار۔ سرمایہ دار۔ منافع خور اپنے ساتھ ملالئے۔ پھر بھی انہوں نے اسے موقع دیا ہے۔ عوام آپس میں ایک دوسرے کو کیسے پیغام دیتے ہیں۔ یہ سینہ بسینہ چلتا ہے۔موبائلوں پر ارسال کیا جاتا ہے۔ اصل فیصلہ خواتین اور نوجوانوں نے کیا ہے۔ ہم جیسے عمر رسیدہ تو ابھی گومگو میں تھے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی
بہت زیادہ مثالی نہیں تھا۔ کم برائی سمجھ لیں۔ لیکن اس فیصلے نے ایسا رنگ جمایا واہگے سے لے کر خیبر تک۔ کوئٹے تک تبدیلی کی لہر چل گئی ہے۔ اسے خود بھی اتنے مینڈیٹ کی اُمید نہیں تھی۔ مگر 22سال کی مسلسل محنت۔جدو جہد تھی۔ باریاں ختم کرنے کی ۔ تبدیلی لانے کی۔ اس پر بھی اس لہر نے جادو کیا۔اسکی پہلی تقریر سب کے ہی دل میں اُتر گئی۔یہ باتیں۔دل سے نکل رہی تھیں دل میں اتر رہی تھیں۔ اس لئے عوام کو اطمینان ہوا کہ ان کا 25جولائی کا پولنگ بوتھ میں تنہائی میں کیا ہوا فیصلہ غلط نہیں تھا۔کے پی کے۔ پنجاب۔ کراچی میں تو منظر بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ کے پی کے والوں کو اس کی اندازِ حکمرانی کا براہِ راست تجربہ تھا۔ وہاں اس کی سیٹیں بڑھ گئی ہیں۔پنجاب میں بہت کانٹے کا مقابلہ رہا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تبدیلی پنجاب میں ہی آرہی ہے۔مسلم لیگ(ن) نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دیا۔ پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج دیئے۔ لوگوں کے شعور میں اضافہ ہوا ہے ۔ پنجاب کی سوچ بدلی ہے۔اس لئے پاکستان کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔پنجاب آبادی کی وجہ سے پارلیمنٹ پر غالب رہتا ہے۔ نئے صوبوں کی بات ہوتی ہے۔ مگر بنتے نہیں ہیں۔ بن جائیں تو پارلیمنٹ اور متوازن ہوجائے۔
نئی سوچ نے کراچی سیاسی منظرنامہ بالکل تبدیل کردیا ہے۔ اب کراچی آپریشن کے ثمرات دکھائی دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی آگئی ہے۔ لیکن یہ مقام فکر ہے کہ کراچی کا فیصلہ اندرون سندھ کے فیصلے سے مختلف ہے۔ کراچی اور اندرون سندھ کے دل ایک ساتھ نہیں دھڑکتے۔ یہ صورتِ حال کیا پیغام دے رہی ہے۔یہ پی پی پی کو بھی سوچنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کو بھی۔ نئی سوچ یا تبدیلی کی لہر اندرون سندھ کیوں بے اثر رہی۔ عمران خان سندھ کے دلوں میں کیوں نہیں اتر سکے۔ کیا وہاں جی ڈی اے سے سیاسی اتحاد نتیجہ خیز نہیں رہا۔
عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ مذہبی شدت پسندی کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اسی طرح ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کو بھی اہمیت نہیں ملی۔ یہ تاثر بھی قابل ذکر ہے کہ ذاتی زندگی کے معاملات کو عوام نے اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ ملکی معاملات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ کیا عوام کی سوچ واقعی پُختہ ہوگئی ہے۔
کیا ان کا سیاسی۔ سماجی۔ اقتصادی۔ عمرانی شعور واقعی بلند ہوگیا ہے۔
تو عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر وہ اپنے راستے سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوئے ۔ مروت کی خاطر۔ مصلحت کی۔ یا نادیدہ قوتوں کی فرمائش پر۔ تو یہ عوام برداشت نہیں کریں گے۔ عوام کا عشق بھی انتہا کا ہوتا ہے۔ عوام کا انتقام بھی ۔ عوام کیسے انتقام لیتے ہیں۔ یہ ان سے پوچھئے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یا کراچی والوں سے کل کیا تھے۔ آج کیا ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین