• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پہلی دفعہ پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی پارلیمانی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ انتخابی نتائج پر زبردست شکوک و شبہات اور سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ان انتخابات سے تین عشروں سے جاری وہ سیاسی نظام تبدیل ہو چکا ہے ، جس میں کبھی ایک سیاسی جماعت حکومت بناتی تھی اور کبھی دوسری ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں اپنے اپنے طور پر مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ تیسری سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے ۔ یقیناََ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کے اندر سیاسی استحکام آ سکتا ہے یا نہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور اس کی حکومت زیادہ مضبوط نظر نہیں آتی ہے۔
انتخابات کے ذریعے جو تبدیلی آئی ہے ، کیا یہ حقیقی تبدیلی ہے ؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے ۔ انتخابات اگر آزادانہ ماحول میں ہوں ،انتخابی عمل شفاف ہو اور اکثریتی عوام کی رائے پہلے سے مختلف ہو تو سیاسیات کے فلسفہ میں اسے تبدیلی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں 1970 ء کے عام انتخابات کے سوا باقی تمام انتخابات پر سوالیہ نشانات لگے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ان تمام انتخابات کے بارے میں کیے جانے والے تمام تجزیے غلط ثابت ہوئے ۔ شاید 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات بھی اسی فہرست میں شامل ہوں گے ۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابی نتائج کے ذریعہ جو تبدیلی آئی ہے ، وہ حقیقی ہے لیکن جس تبدیلی کے نعرے پر پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن لڑا تھا ، وہ تبدیلی آنا ابھی باقی ہے ۔ یہ تبدیلی کن بنیادوں پر ہو گی ، اس کا روڈ میپ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں دے دیا ہے ۔ انتخابات سے قبل 20 مئی 2018 ء کو عمران خان نے اس تبدیلی کے لیے اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں کا ایجنڈا بھی دے دیا تھا ۔ اب اللہ پاک نے انہیں موقع دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیں ۔
پاکستان کے مستقبل کے متوقع وزیر اعظم عمران خان کو تبدیلی کا مینڈیٹ مل گیا ہے ۔ عمران خان کے مخالفین یہ پروپیگنڈا کر تے رہیں گے کہ عمران خان کو ملنے والا مینڈیٹ جعلی ہے اور ان کی طرف سے سخت احتجاج بھی ہو سکتا ہے لیکن اب عمران خان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو گئی ہے ۔ انہیں تبدیلی کا اپنا ایجنڈا مکمل کرنا ہے ۔ کم ا ز کم جن لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے ، انہیں بہت زیادہ توقعات ہیں ۔ عمران خان نے اپنے 100 دن کا جو ایجنڈا دیا تھا ، اس پر عمل درآمد فوری طور پر ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا ۔ اس ایجنڈے کے 6 بنیادی نکات ہیں ۔ان میں طرز حکمرانی بہتر بنانا ، وفاق کو مضبوط بنانا ، اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافہ کرنا ، زراعت کو ترقی دینا اور پانی کے ضیاع کو روکنا ، سماجی شعبے میں انقلاب لانا اور قومی سلامتی کو یقینی بنانا جیسے اقدامات شامل ہیں ۔ ایجنڈے کے مطابق ان 100 دنوں کے اندر عمران خان کو پنجاب میں ایک الگ صوبہ قائم کرنا ہے ، فاٹا اور خیبرپختونخوا کا انضمام کرنا ہے ، بلوچستان کے ناراض رہنماؤں کے ساتھ مفاہمت کا عمل مکمل کرنا ہے ، کراچی کو بڑا ترقیاتی پیکیج دینا ہے ، معیشت کو اس قابل بنانا ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں پیدا ہو سکیں اور 50 لاکھ بے گھر لوگوں کو گھر مل سکے ، زراعت کو ترقی دینا ہے ، تعلیم و صحت سمیت تمام سماجی شعبوں میں انقلاب لانا ہے اور قومی سلامتی کے لیے چار قومی ادارے قائم کرنے ہیں ۔ اگر ان 100 دنوں کے ایجنڈے پر عمل ہو جاتا ہے تو تبدیلی کا عمل مکمل ہو جائے گا اور آگے اسی تبدیلی کو برقرار رکھنا ہو گا ۔ اگر یہ ایجنڈا مکمل نہ ہوا تو تبدیلی معکوس کا عمل شروع ہو جائے گا۔
عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں یہ اچھی بات کہی ہے کہ کسی سے سیاسی انتقام نہیں لیا جا ئے گا لیکن انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ان کی ساری زندگی کی سیاست کا بنیادی نعرہ یہ رہا ہے کہ سیاست دان چور ہیں اور چوروں کا احتساب ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ احتساب اور سیاسی انتقام کو وہ کس طرح الگ الگ رکھتے ہیں ۔ اگر انہوں نے احتساب نہیں کیا تو پھر احتساب کا عمل بالکل اسی طرح ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا ، جس طرح میاں نواز شریف کے ہاتھ سے نکلا اور وہ خود احتساب کی زد میں آ گئے ۔ اگر انہوں نے احتساب شروع کیا تو انہیں بہت سخت سیاسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہی ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کو مضبوط بنانا ان کی ترجیح ہے اور انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے ۔ یہی بات میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی کرتے تھے اور اسی بات پر وہ معتوب ٹھہرے ۔ عمران خان کے لیے داخلی اور خارجی پالیسیوں کو تبدیل کرنا بہت بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کا خمیازہ کئی سیاست دان بھگت چکے ہیں ۔
تبدیلی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے حقیقی مقتدر حلقوں کے رائج نظام اور سوچ کو بدلا جائے ۔ تبدیلی طاقتور کی سوچ کے خلاف چلنے کا نام ہے ۔ تبدیلی ہوا کے رخ اور پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں چلنے کا نام ہے ۔ طاقتور حلقوں کی سوچ اور ایجنڈے کو مکمل کرنے کا نام تبدیلی نہیں ہے ۔ سیاست میں آ کر عمران خان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہو گا ۔ ان کے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان نے الیکشن جیتنے کے لیے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ والی قوتوں کا سہارا لیا ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے مبینہ طور پر کرپٹ مگر منتخب ہونے والے سیاست دانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا اور انہیں ٹکٹ دیئے ۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے لیے اس سسٹم کا سہارا لیا ، جس سسٹم کے خلاف لڑنا ہی حقیقی تبدیلی کہلائے گا ۔ عمران خان کے مخالفین کی باتیں ابھی اثر نہیں رکھتی ہیں ۔ یہ باتیں دوبارہ اثر پذیر ہونے میں صرف ایک عامل کارفرما ہو سکتا ہے کہ لوگ وہ تبدیلی محسوس نہ کر سکیں ، جو حقیقی تبدیلی ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے پہلے 100 دن بڑے اہم ہوں گے ۔ گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے یا نام نہاد سادگی کے نمائشی اقدامات سے حقیقی تبدیلی کا عمل شروع نہیں ہو گا ۔ پہلے 100 دن کے بعد پتہ چلے گا کہ تبدیلی آئی ہے یا نہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین