• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو لفظی بیانیہ ’’نیا پاکستان‘‘ سیاسی نعرہ تو خان اعظم، عمران خان کا ہے یہ الیکشن 18میں بلند ہوتا واقعی بحرانی پاکستان کو کتنے ہی چیلنجز کے ساتھ ایک نئے لیکن کٹھن سفر پر ڈال گیا۔ یوں کہ دنیا بھر کے سیاسی کارکنوں کے لئے مثالی سیاسی جدوجہد کی مثال بن کر ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے بانی جناب عمران خان کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بننا ٹھہر گیا۔ بلاشبہ چار روز قبل ہونے والے پاکستان کے عام انتخابات کتنے اور کیسے کیسے نتائج مملکت اور قوم کو دے گئے۔ سب سے بڑا یہ کہ مسلسل طاقت پکڑتے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا اختتام تیز تر اور یقینی ہو گیا۔ تب جب ملک مشکلات و مصائب، تشویش اور پیچیدگیوں سے اَٹا پڑا ہے۔ گورننس کا تو جیسے جنازہ نکل گیا ہو۔ قومی ادارے دانستہ عیاش، کرپٹ اور نا اہل حکمرانوں نے تباہ کر دیئے۔ بدعنوانی، عمودی (ورٹیکل) سے عوام الناس کی سطح (افقی) تک بری طرح سرایت کر گئی، اس صورتحال کے محافظ اور جمہوریت کے نام پر شاہی کے شوقین سیاسی بنائے گئے خاندانوں کے تعلیم یافتہ وکیل ہنوز سیاسی و صحافتی میدان میں موجود ہیں لیکن اجڑتے کاروبار کی آخری دھڑکنوں کے ساتھ۔
اللہ تیری شان! اسی پس منظر میں منتخب جمہوری حکومتی ڈھانچے کے برقرار رہتے احتسابی عمل بمطابق آئین و قانون کا ناممکن ہونا ممکن ہوا اور ایسا کہ آئین کے مقابل ’’حکمران خاندانوں‘‘ کے گھڑے مسلط نظام بد (اسٹیٹس کو) کی چولیں ہل گئیں۔ اسے بچانے کے لئے پاکستان کے بیرونی دشمن نے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے جس طرح انتخابی مہم اور پولنگ ڈے پر بھی پے در پے حملے کئے پھر جیسے جذبہ جمہوریہ اور دفاع وطن سے سرشار ہمارے سیاسی کارکنوں اور فوجیوں پر جو دہشت گردانہ وار کئے، اس کی بری طرح ناکامی نے دنیا پر آشکار کر دیا کہ پاکستانی قوم کتنے جمہوری جذبے کی حامل ہے۔ تیزی سے ہوش سنبھالتی قوم نے کمال بہادری سے بیرونی دشمنوں کو ناکام بنا دیا، ایسے پاکستان بطور ایک جمہوری مملکت سرخرو ٹھہرا۔ آخری حملہ بھارتی میڈیا کے حوالے سے سائیکلولوجیکل وار فیئر کی شکل میں ہوا جس سے انڈین میڈیا ہی بے نقاب ہوا کہ مودی کے بھارت میں میڈیا بھی کتنا بنیاد پرست ہو گیا ہے۔
الیکشن 18کا خوش کن پہلو یہ ہے کہ اس پر جتنا اعتبار پاکستانیوں نے من حیث القوم کیا، اتنا ہی امریکی حکومت، یورپی یونین کی آبزرویشن ٹیم نے بھی، واشنگٹن نے تو یہاں تک کہ خلاف روایت ’’نو منتخب وزیراعظم کو حلف برداری کے بعد مبارکباد‘‘سے قبل ہی متوقع وزیراعظم عمران خاں کی انتخابی فتح پر تقریر کا خیر مقدم کیا۔ امریکی وزارت خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے جاری اپنے بیان میں کہا :’’امریکہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں سیکورٹی، استحکام اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کرے گا۔ چینی حکومتی ترجمان نے عمران خان کو چین کا بہترین دوست قرار دیتے ہوئے پاکستان میں اقتدار کی پُر امن منتقلی کی امید کا اظہار کیا۔ ادھر بنی گالا میں سعودی سفیر جناب نواف سعید المالکی نے عمران خاں سے ملاقات کر کے خوشخبری سنائی کہ اقتدار کی منتقلی پر سعودی ولی عہد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ یورپین یونین جس کے آبزرویشن مشن کے سربراہ اور کامن ویلتھ کی مانیٹرنگ ٹیم کے سربراہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں فوج کی پولنگ اسٹیشنز پر سیکورٹی کی کوالٹی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ پولنگ اسٹیشنز کی حفاظت میں اضافہ ہوا اور فوج کی اس انتظام کے سوا کسی مداخلت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ تاہم انہوں نے معمول کی پروسیجرل خامیوں کی نشاندہی کی اور ان کی اصلاح پر زور دیا۔ اسی طرح قبل از پولنگ انتخابی مہم میں اپوزیشن جماعتوں کی الیکشن کمیشن یا نگران حکومت کے برابری کے مواقع کی فراہمی میں خامیوں کو تسلیم کیا۔ اس نشاندہی سے آئندہ انتخابی مہم زیادہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے میں مدد ملے گی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پولنگ ٹائم تک میڈیا سے کسی جماعت یا انتظامیہ کی طرف سے دھاندلی کی کوئی رپورٹ نیوز رپورٹرز کی طرف سے آئی نہ ہی خود میڈیا میں پارٹی ترجمانوں امیدواروں یا کسی لیڈر سے کوئی شکایت آئی۔ ن لیگی ترجمان مریم اورنگزیب نے پولنگ ختم ہونے کے کوئی دو گھنٹے بعد پریس کانفرنس کر کے ’’دھاندلی‘‘ سے متعلق پہلا اعتراض کیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پولنگ اور کائونٹنگ کے دوران ایسا کچھ ہو رہا تھا تو خبر میڈیا تک نہ پہنچتی جبکہ پولنگ کی نگرانی پر مامور ہر ورکر اور ہر رپورٹر کے پاس موبائل فون کی سہولت تھی اور وہ معمولی بے قاعدگی، نشاندہی یا احتجاج کی خبر چند منٹس میں میڈیا تک پہنچا سکتے تھے جبکہ تمام پارٹیوں کے منتظم ورکرز اور رپورٹرز کی ٹیمیں ہر پولنگ اسٹیشنز کے گردونواح میں موجود تھیں۔ سو دھاندلی، کمرے بند کرنے، پولنگ ایجنٹس کو نکالنے اور کچے کاغذوں پر نتائج دینے کے الزامات لغو ہیں۔ پولنگ کے دوران کائونٹنگ کے وقت اور نتائج آنے پر بھی دھاندلی کی شکایات یا احتجاج الیکشن کمیشن کو نہیں ملیں جبکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے تنظیمی یونٹس بھی حلقے میں ہائی الرٹ تھے۔ اگر نتائج پر اثر انداز ہونے والی دھاندلی تو دھاندلی بے قاعدگی بھی ہوتی تو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کبھی ’’امکانی حکومت سے مل کر چلنے کی خواہش‘‘ کا بیان جاری کرتا نہ یورپی یونین اور کامن ویلتھ کے آبزرویشن مشنزکی پریس کانفرنس کے مندرجات وہ ہوتے جو ہیں۔ ہاں ان کو پروپیگنڈے کے لئے اپنے انداز میں ٹریٹ کرنا ابلاغی فنکاری انتخابات کے بعد ہارنے والوں کا ایک عمومی سارویہ ہوتا ہے، جو ترقی یافتہ جمہوریتوں تک میں پایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آئی ٹی کا ڈیزاسٹر نہ ہوتا تو گھر گھر الیکشن 18کی پولنگ کے گن گائے جاتے، جو نتائج میں سستی کی وجہ سے نہ گائے جا سکے۔ پولنگ مکمل ہونے تک ہر طرف سے تعریف ہی تعریف ہوا ہی تھی اور ریکارڈڈ شکایت نہ ہونے کے برابر۔
رہا معاملہ شکست خوردہ روایتی سیاسی جماعتوں کا۔ ان کا اجتماعی صدمہ احساس شکست الزامات کی بوچھاڑ، احتجاج، کانفرنسیں اور پریس کانفرنسیں یہ سب قابل فہم ہیں جو سکہ بند روایتی کیتھارسیس ہے اور اب تو اس لئے بھی سمجھ آتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے برج الٹ گئے اور ایم کیو ایم والوں کے بچوں اور خواتین نے کراچی کو لسانی سیاست کے عذاب سے نکال دیا۔
ہوا اصل میں یہ کہ ملک بھر میں دل و دماغ میں چپکے سے جو تبدیلی احتسابی عمل کے دوران داخل ہوئی، عوام الناس نے اسے اپنی سخت گر زندگی سے جوڑ لیا، انہیں سمجھ آ گئی کہ میڈیا پر اتنے ثبوتوں کے ساتھ جو کرپشن کہانیاں تواتر سے بے نقاب ہو رہی ہیں وہی ہماری محرومیوں کی بڑی وجہ ہے۔ غضب خدا کا پینے کے پانی کی سپلائی، تقسیم، سستی روٹی کے نام پر، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، تھر میں مصنوعی قحط، اسپتالوں کی حالت زار، غرباء کی رہائشی اسکیموں کے پراجیکٹس سب ہی تو کرپشن کی فقط کہانیوں سے نہیں بلکہ نیوز اسٹوریز سے جڑے ہوئے جن کی بھاری بھر کم میڈیا سیلز کی طرف سے نا کبھی قابل فہم وضاحت نہ تردید۔ یہ میڈیا سیل بھی کرپشن کا بڑا ’’شاہکار‘‘ تھے جو ایک شہزادے اور ایک شہزادی کو ہر حال میں عوامی سرمائے سے وزیراعظم بنانے کے لئے تمام تر حماقتوں کے ساتھ قائم کئے گئے۔ نتائج بڑے المناک ہیں۔
پھر روایتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جو ہو گیا اس کی اور کتنی ہی وجوہات بڑی واضح ہیں ۔
میاں نواز شریف کا غیر معلوم بھی لیکن اعلانیہ بھی نیا نظریاتی روپ، آئین میں عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت سے متعلق مندرجات میں چوری چھپے واردات کرنے کی جسارت، وزارت خارجہ کا اجاڑ دہشت گردی کے بیرونی اور اندرونی حملوں کی جنگ مسلسل میں پاک فوج کی بیش بہا قربانیوں اور پروفیشنلزم کو نظر انداز کر کے فوجی آمریتوں کی گھڑی ’’عوامی طاقت‘‘ کا ملک مخالف قوتوں کا ہمنوا ہو جاتا، کراچی کے شہریوں پر جان بوجھ کر ڈھائے جانے والے ظلم سب ہی تو عوام سمجھ گئے کہ یہ سب کیا ہے؟ وہ جاگ گئے۔ بیدار ہو گئے اور سب سمجھ گئے پھر کچھ روایتی پارٹیاں منقسم ہو گئیں۔
وفاقی سیاسی قوت سے دیہی جماعت بن گئیں۔ حکمرانوں کی عیاشیاں جتنی تھیں، اتنی ہی زبان زد عام اور نظر آنے والی عمران نے حکمرانوں کی اولاد کا غرباء کے بچوں سے جو موازنہ تواتر سے کیا، پھر میڈیا، عدلیہ کا جتنا اعتبار قائم ہوا اور انہوں نے دھما چوکڑی کو جو لگام ڈالی اس کے جو نتائج آئے ان سب نے بہت نچلی سطح پر بھی عوام کو بیدار کر دیا۔ لیاری سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خاں اور بنوں تک اور کراچی سے لے کر لاہور تک پھر بلوچستان میں دہشت گردی کے ہولناک حملوں کے مقابل عوام کا جذبہ جمہوریت، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حمایت میں اضافہ الیکشن 18کے روایت شکن ہونے کی حقیقت فقط اتنی کہ جاگ اٹھا سارا وطن۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین