• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکوے شکایتیں تاخیر الیکشن کمیشن
انتخابات اپنے پورے جمہوری حسن کے ساتھ انجام پا گئے، جیتنے والوں، ہارنے والوں کے انداز حسب روایت رہے، اب کوئی نئے کپڑوں کی ضد نہ کرے پرانے کپڑوں میں ہی عید کرے، کہ پہلے ہی کافی پیسہ لگ چکا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاخیر نہ کرتا تو بھی جیت ہار کے یہی مناظر ہوتے یہی شکایتیں حکایتیں ہوتیں، اب آئندہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دینا چاہئے، مجموعی طور پر سب اچھا ہے اور اگر کسی کو اپنے نتیجے بارے اعتراضات ہیں تو آئینی قانونی دروازے کھلے ہیں، یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ عالمی برادری نے انتخابات پر اطمینان ظاہر کیا، جمہوری ٹرین ہر اسٹیشن پر کھڑی ہو گی مگر اسے بند کرنے کی کوشش نہ کی جائے اے پی سی سے سر درد کہیں بڑھ نہ جائے اس لئے زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے اس سے کافی افاقہ ہو گا، ہمارے ہاں احتجاج بالعموم تکلیف دہ ہوتا ہے، اور یہ بیماری خاصی پرانی ہے، احتجاج قانونی آئینی حق ہے مگر اس کا استعمال بھی بے ضرر ہونا چاہئے، اس وقت انتخابات آفٹر افیکٹس اور شاکس جاری ہیں، وقت بڑا مرہم ہے، آہی جائے گا آرام آہستہ آہستہ مرکز اور صوبوں میں سوائے پنجاب کے لائن کلیئر ہے، پنجاب میں کون حکومت بنائے گااس کا تاحال کوئی حتمی جواب تو نہیں مل سکتا لیکن بالعموم جو مرکز میں حکومت بناتی ہے اس جماعت کی اولین ترجیح پنجاب میں بھی حکومت سازی ہوا کرتی ہے، جوڑ توڑ عروج پر ہے، ن لیگ اور پی ٹی آئی کی آنیاں جانیاں قابل دید شنید ہیں، ایک دو دن میں بادل چھٹ جائیں گے، ان انتخابات میں موسم نے بھی حزب اقتدار و اختلاف کا کردار ادا کیا، یوں لگتا ہے آسمان نے بھی بھرپور حصہ لیا، بہت سی مخلوقات کا ذکر بھی عام رہا، مگر زمینی بلکہ پاکستانی مخلوق نے اپنا فیصلہ سنا دیا کیونکہ انہوں نے ہی ووٹ کو اچھی خاصی عزت دی، عمران خان کے لئے راستہ ہموار کرنے میں ن لیگ نے بھی بڑا کردار ادا کیا خان صاحب کو شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭
گنتی
اگر ہماری آبادی کنٹرولڈ ہوتی تو ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا سماں ہوتا لیکن 22کروڑ کی آبادی کا ملک آبادی کے حوالے سے خود ایک بڑی مشکل ہے کثرت آبادی میں شکوک و شبہات بہت جلد پیدا ہوتے ہیں، مگر کمزور نومولود بچوں کی طرح جلد مر جاتے ہیں، کوشش یہی ہوتی ہے کہ زچہ سلامت رہے بچہ پیدا کرنے میں ہمیں کونسی دیر لگتی ہے، غریب معاشروں کی گنتی بہت کمزور ہوتی ہے، پولنگ کا عملہ اچھا خاصا غریب ہوتا ہے، گنتے گنتے ان کا خیال اپنے کسی گھریلو مسئلے کی طرف چلا جاتا ہے اور وہ کسی کی ہار جیت کا سبب بن جاتے ہیں، اب یہ جو گنتی پروگرام شروع ہوا ہے اس میں غالب امکان ہے کہ ہارے ہوئے کے ووٹ اور کم ہو جائیں اور اس کا انجام بھی پی ایس پی جیسا ہو جائے، ہمارا خیال ہے کہ پہلی گنتی پر ہی صابر و شاکر ہو جانے میں ’’عزت سادات‘‘ بچ جاتی ہے، اور عاشقی جیت جاتی ہے، عاشق کو عاشقی کی جیت پر سردست گزارہ کرنا ہو گا۔ عمران خان کا پہلا رومان ہے ان پر ترس کرنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ دولہا گھبرا کر میانوالی بھاگ جائے، عوام کی توقعات مطالبات بہت زیادہ ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ عمران خان اپنی پارٹی ارکان کی توقعات پوری کر دیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی، ویسے آپس کی بات ہے اور ہے بھی سچ کہ وکٹری اسپیچ نے عمران خان کا امیج ہی بدل کر رکھ دیا انہوں نے ایک مدبر لیڈر اور منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح تھوڑے میں بہت کچھ کہہ دیا، گنتی کے شوقین حضرات گنتی نہ ہی کرائیں کیا پتہ ان کے ووٹ کی عزت برقرار رہے۔
٭٭٭٭
کاش کہ تم مرے لئے ہوتے
ہمارے عوام معصوم ہیں مظلوم ہیں محروم ہیں مگر ہمارے سیاستدان حکمران ہمیشہ اس کے الٹ رہے ہیں، ان کا پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی بھی فیصلہ، رائے، سوچ ان کے مطابق ہو تو تسلیم نہ ہو تو چٹا انکار، دو جملے اخلاقیات کے دائرے میں بڑی مشکل سے بولے جاتے ہیں پھر اس کے بعد پھوڑا پنکچر ہو جاتا ہے، جیسے بھی ہو جیت ہمیں ملنی چاہئے یہ ہے وہ کوالی فیکیشن جس میں ارباب سیاست پی ایچ ڈی ہیں، اور غریب عوام کے بچوں کے لئے سرے سے اسکول ہی نہیں، شاید ہم صرف سنانے والے ہیں سننے والے نہیں، الیکشن کمیشن کو جو لائے وہی اس کی کارکردگی پر معترض ہیں، عمران خان نے پہلی تقریر ہی میں سب کچھ اوپن کر دیا کھلی آفر دے دی کہ جو حلقہ چاہیں کھلوا لیں۔ سندھ حکومت کی ’’حسن کارکردگی کا اجر ایک بار سندھ حکومت کی صورت مل گیا مگر اس کے باوجود پی پی سراپا شکایت ہے۔ پریس کانفرنسیں کرتی پھرتی ہے، سابقہ وزیر اعلیٰ سندھ پھر سے کچرے کے ڈھیر پر براجمان ہوگئے ہیں، اگر سندھ کے عوام نے یہی فیصلہ کرنا تھا تو مزید 5سال سابقہ مسائل کے ساتھ زندگی گزاریں، عوامی مینڈیٹ کو رد تو نہیں کیا جا سکتا، جو اہل سندھ کی چوائس ہو گی وہی ان کے ساتھ رہے گا۔ زرداری دبئی میں رہے، انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے آئے دیکھا اور فتح کر لیا، مرکز نہ سہی صوبہ ہی سہی ’’حسن کارکردگی‘‘ دکھانے کے لئے صوبے کی حکومت زیادہ سیف ہیون ہوتا ہے، اگر آج جن جن نے اقتدار کی تمنا کی تھی ان کو مل جاتا تو وہ کوئی شکایت نہ ہوتی مگر جب ایسا نہ ہوا تو کہنے لگے لیلائے اقتدار سے؎
قہر ہو بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کہ تم مرے لئے ’’ہوتی‘‘
٭٭٭٭
ہمارے پیسے واپس لائو
....Oاس غریب ملک کے غریبوں نے 70سال کمایا اور چند خاندانوں نے پیٹ بھر کھایا، اب آئندہ حکومت اگر یہ پیسہ واپس نہ لائی تو غربت زدہ لوگ اپنا مینڈیٹ واپس بھی لے سکتے ہیں۔
....Oپولنگ اسٹیشنز کے باہر عوام نے فوج کو سرخ گلاب پیش کئے۔
گلاب تو فوج کو دے دیئے، کانٹے کس کو دیں گے؟
....O مسلم لیگ (ق) کوہ قاف سے اتر آئی ہے، دیکھتے ہیں کس سمت چل نکلتی ہے۔
....Oسرکاری محکموں میں ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے۔
....Oنشے میں دھت مسافر کو ایف آئی اے اہلکاروں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
ہمارے ہاں ادارے عدلیہ کیوں بنتے ہیں، نشے میں دھت شخص کو قانون کے حوالے کرتے، مگر تشدد کا اختیار انہیں کس نے دیا؟
....O فضل الرحمان:دوبارہ الیکشن کے لئے مہم چلائیں گے۔
نئے انتخابات کے اخراجات اور پرانے انتخابات کا خرچہ بھی دے دیں تو ان کا یہ شوق پورا کرنے میں حرج نہیں۔
....Oاحتساب کی لے تیز ہو گئی تو ہم اپنے قرضے اتار سکیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین