• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018 آخر کاراختتام پذیر ہوئے ۔ ماضی کی طرح ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے ۔ 70سال بعد یہ پہلا الیکشن ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان پی پی پی کے بلاول بھٹو ، مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف ، اے این پی کے اسفند یار ولی ، ایم ایم اے اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ ، پی ایس پی کے مصطفی کمال ، مسلم لیگ (ق) کے پرویز الٰہی ، مسلم لیگ (ضیاء) کے اعجاز الحق ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی ، ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار کے علاوہ ان جماعتوں کے بڑے بڑے نامور سیاستدان جو کبھی الیکشن نہیں ہارے تھے وہ بھی 2018 کے الیکشن ہار گئے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عوام اب صرف وعدوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور وہ میڈیا سے کرپشن کی داستانیں سن سن کر ان بے خبر سیاستدانوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ خصوصاً کے پی نے تو ان تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی حقیقت کھول دی اور ہرانے کا ریکارڈ قائم کر دیا اور عمران خان کی 22سالہ جدو جہد آخر کام کر گئی ۔ عوام اب تحریک انصاف کے سربراہ کو موقع دینا چاہتے تھے جوانہوں نے اس الیکشن میں عمران خان کی پارٹی کو جتوا کردیدیا عمران خان پر اعتماد کیا ہے اور اب عمران خان پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے ۔دعا ہے کہ وہ قائد اعظم کے سنہری اصولوں والا پاکستان تعمیر کریںاور جہالت ، غربت ، کرپشن ختم کر کے اپنے کئےہوئے وعدوں کی لاج رکھیں ۔ پہلے ان کو شکایت تھی کہ مرکز کی مداخلت اور غیر معاون رویہ کی وجہ سے کے پی کو حقیقی ترقی نہیں دے سکے۔ اب کے پی اور پنجاب کے علاوہ مرکز میں بھی ان کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے اور جیسا انہوں نے اپنی پہلی نشری تقریر میں کہا کہ احتساب سب کا ہو گا اور پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ۔ تو اب آنے والے 5سالوں میں وہ کرپشن کا احتساب کر کے ملک سے لوٹا ہوا سرمایہ واپس لائیں گے تاکہ پاکستان دوبارہ قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو اور عوام آئی ایم ایف کی من مانیوں سے بھی آزاد ہوجائیں۔ اگرآپ ان کرپٹ سیاستدانوں بشمول پی ٹی آئی کے بھی سیاست دانوںکو سزائیں دلوانے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کا اعتماد اور بڑھ جائے گا ۔عمران تاریخ رقم کرنے والے پہلے سیاستدان ہونگے جن کا نام عوام فخرسے لیں گے۔ اگر یہ ہارنے والے سیاستدان جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی اپنی جماعت کی سربراہی سے مستعفی ہو کر نئی اور ایماندار قیادت لائیں جو پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہو اور وہ پاکستا ن اور پاکستان کے عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہواور پرانے حربوں اور وعدوں سے عاری ہو۔ پھر قوم ان پر اعتماد کرے گی ورنہ ان کی سیاسی جماعتیں بھی طبعی موت مر جائیں گی۔ مگر کرپٹ سیاستدان ایسا نہیں چاہیں گے اور وہ دھاندلیوں کا الزام لگا کر اپنی بچی کھچی ساکھ بچانے کے لئے عوام کو استعمال کرنے کی کوشش کرینگے ۔ جس سے قوم ہوشیار ہو جائے ۔ یہ اس کو پی این اے سے تشبیہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ پی این اے میں عوام ان سیاستدانوں کے ساتھ تھے جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ جبکہ آج حقیقت دیکھیں تو ان تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں میں مورو ثی سیاست کے ساتھ ساتھ کرپشن کے بھر پور ثبوت موجود ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی جو موروثیت پر یقین نہیں رکھتی ، ان کے ہارنے پر قوم کو افسوس ہے۔باقی سیاستدان بڑی بڑی جاگیریں ، گاڑیوں اور زمینوں کے مالک بن چکے ہیں اور اپنی اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قوم اب ان کو پہچان چکی ہے ۔ حکومت کا اب فرض بنتا ہے کہ صاف اور شفاف احتساب کر وا کر ان سب کو بے نقاب کرے اور لوٹا ہوا مال بھی برآمدکرے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قانونی سقم نہ رہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوکر عوام کے سامنے آئے جو آج تک نہیں ہو سکا تھا۔ لنگڑا لولا احتساب اور وہ بھی صرف ایک پارٹی کے خلاف ہونے کی وجہ سے مؤ ثر نہ ہوسکا اور اُلٹا ہمدردی کا باعث بنا اور اسی وجہ سے صرف لاہور کے شہریوں نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا۔ کیونکہ لاہور کو پورے پاکستان کا سرمایہ لگا کر چمکایا گیا تھا۔ اس لئے بھی لاہور کے باشندوں نے ووٹ دے کر کامیاب کروایا ۔ اگر لاہور کی طرح کراچی اور سندھ کے شہروں کا بھی مسلم لیگ (ن) خیال کرتی تو اس کو وہاں سے بھی ووٹ ملتے اور آج وہ اس بری طرح سے نہ ہارتی۔ پی ٹی آئی والوں کو مسلم لیگ (ن) کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے ، ان کی پارٹی کے وہ لوگ جن پر کرپشن کے الزامات ہیں ان کا بھی احتساب ہونا چاہئے ۔ کھلی چھوٹ اور اقربا پروری نہیں ہونی چاہئے جو مسلم لیگ (ن) کی وجۂ بدنامی بنی ۔ جس میں درجنوں شریف خاندان کے افراد ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر بنے بیٹھے تھے۔ آج وہ بُت ٹوٹ کر گر رہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں وہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے بہانے تراش رہے ہیں۔ یاد رکھیں انصاف کرنے کے لئے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں ؟
عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں بھارتی حکومت کو بہت اچھا پیغام دیا ہے کہ وہ ایک قدم بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھا کر اس کا خیر مقدم کرینگے ۔ اس کا جواب سابق سفارتکار مانی شنکر نے بھر پور تائید کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسا کر کے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کو ترجیح دیں تاکہ کشمیر کا بھی منصفانہ فیصلہ ہوسکے ۔ میں کالم کے آخر میں نئے وزیر اعظم عمران خان کی توجہ بنگلہ دیش میں رہ جانے والے ڈیڑھ لاکھ محصورین پاکستانیوں کی جانب کروانا چاہتا ہوں( جس کا وعدہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کیا تھا )کہ انہیں پنجاب میں لا کر آباد کر یں، ان مظلوم اور بے کس پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کی غلامی سے آزاد کرائیں اور مظلوم عافیہ صدیقی جو امریکہ کی جیل میں قید ہیں ، پاکستان لا کر ان کے خاندان کو اذیت سے نجات دلوائیں ۔ یہ وعدہ بھی سابق وزیر اعظم کے ان وعدوں کی طرح ہےجو کبھی وفا نہیں ہوئے ۔آخر میں پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں بہت سے پاکستانی جیلوں میں قید ہیں ۔ ہمارا سفارتخانہ ان سے لا تعلق رہتا ہے ، وہ ہمیں زرِ مبادلہ بھی کثرت سے بھیجتے ہیں۔ ان کی بھی رہائی ضروری ہے ۔ تمام ممالک اپنے باشندوں کو دیارِ غیر میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تمام پاکستانی سفارتخانوں کو پابند کریں کہ وہ ہر صورت میں دیارِ غیر میں پاکستانیوں کی خصوصی طور پر دیکھ بھال کریں گے اور ہر طرح کی جائز مدد فراہم کریں گے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین