• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی نے شکست تسلیم کی ہو، یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کبھی فری اینڈ فیئر انتخابات کرائے گئے ہوں۔ موجودہ انتخابات شاید تاریخ کے ایسے ہی انتخابات ہیں کہ جن میں قبل از انتخابات، انتخابات کے دن، اور بعد از انتخابات تمام مراحل پر دھاندلی کے جو جو ممکنہ الزامات لگ سکتے تھے وہ لگائے گئے ہیں۔ شاید یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انتخابات کے نتائج کو چھ سات بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر مسترد کر دیا اور پولنگ کا وقت ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد وجود میں آتا نظر آیا۔
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے، تحریک انصاف کی واضح اکثریت بنتی نظر آ رہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اگلی حکومت بنانے میں کسی خاص رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت بنانے کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کیلئے پہلے ہی دن سے یہ اہتمام ہو چکا ہے کہ وہ ایک کمزور اور کنٹرولڈ حکومت ہو۔ ایک ایسی حکومت جس نے ابھی جنم بھی نہیں لیا لیکن یہ بحث شروع ہو چکی ہے، جو آنے والے چند دنوں میں مزید بڑھے گی، کہ کیا اس کا جنم جائز ہے یا ناجائز۔ دوسرا اہتمام یہ ہوا ہے کہ حکومتوں کی ذمہ داری بڑے سیاسی اسٹیک ہولڈرز میں زیادہ سے زیادہ تقسیم کر دی جائے تاکہ کسی بھی بڑے سیاسی اسٹیک ہولڈر کی طرف سے اصل اقتدار کے حصول کے سہانے سپنے سجانے کا امکان کم سے کم ہو جائے۔ سو اس دفعہ بھی پچھلی حکومت والے ماڈل کا ایکشن دہرایا جاتا نظر آ رہا ہے۔ یعنی مرکز میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف کو صرف ایک صوبے میں حکومت حاصل ہو گی، اسکی سب سے بڑی حریف مسلم لیگ ن کو پنجاب میں حکومت یا بوقتِ ضرورت حکومت بنانے کی صلاحیت دی گئی ہے۔ تیسرے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت دی گئی ہے جسے حسبِ ضرورت کسی بھی وقت مرکز میں تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کے ساتھ لگایا یا ہٹایا جا سکتا ہے۔ اور تیسرا اہتمام یہ کیا گیا ہے کہ مرکزی حکومت بنانے والی جماعت کے اندر بہت سے اعتماد کے بندے رکھے گئے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت ان سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔
اگر اگلے چند روز میں عمران خان وزیر اعظم بننے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر پاکستان کی ناخوشگوار سیاسی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہو گی۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست سے اکثریتی پارٹی بننے کا انکا سفر بہت سے سمجھوتوں، مصلحتوں، پسِ پردہ ڈیلوں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن وزارتِ عظمی کی کرسی میں ایک جادو ہے۔ یہ کرسی ہر منتخب وزیراعظم کو ایک سحر میں مبتلا کر دیتی ہے اور مہینے جیسے جیسے سالوں میں تبدیل ہوتے ہیں اپنا ناپسندیدہ ماضی اسکے ذہن سے محو ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بھٹو سے لیکر نواز شریف تک سب کے ساتھ یہی ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان اس روایت کو توڑ سکیں گے یا نہیں۔ بظاہر اس روایت کے برقرار رہنے کی کئی ایک مضبوط وجوہات ہیں۔ اول، آج تو شاید انہیں ادراک ہو کہ انکا مینڈیٹ خالص نہیں ہے اور یہ مینڈیٹ انہیں عوام نے نہیں بلکہ کسی اور نے دیا ہے لیکن وزیر اعظم منتخب ہونے اور اس عہدے کا پروٹوکول اور اختیارات کا تجربہ کرنے کے بعد شاید وہ اپنے ادراک کو اتنا حقیقت پسندانہ نہ رکھ سکیں اور وہ خود کو سچ مچ کا وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دیں۔ جمہوریت کیلئے تو انکا یہ اقدام بہتر ہو گا لیکن انکی ذات کو اسکی قیمت چکانا پڑے گی۔ دوم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انکے سامنے مطالبات کی ایک لمبی فہرست رکھی جائے گی اور ان سے توقع کی جائے گی کہ وہ چُپ چاپ ان پر عمل فرماتے جائیں تو مسائل شروع ہونگے۔ سوئم، انہیں مکافاتِ عمل کے قانونِ قدرت کا بھی سامنا ہوگا، جو کچھ نواز شریف نے بینظیر کے ساتھ کیا وہ انہوں نے پالیا۔ اور جو کچھ عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ کیا ہے، قانونِ قدرت کے اپنے تقاضے ہیں۔ جیل میں محصور نواز شریف اور مریم نواز کا فیکٹر آئندہ سیاست میں کیا کردار ادا کرتا ہے، اسکے بھی اگلی حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور وزیر اعظم بدلتے رہتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے انعقاد سے جمہوریت کا معیار بہتر ہوا ہے یا کمزور اور اسکے فوائد عوام تک منتقل ہونے کا عمل تیز ہوا ہے یا سست؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ موجودہ انتخابات کے ذریعے ایک منتخب سول حکومت سے دوسری سول حکومت تک بروقت اور آئینی بندوبست کے مطابق انتقالِ اقتداراسکا واحد مثبت پہلو ہے اور دلائل اسکے یہ ہیں کہ جمہوریت جڑ پکڑے گی تو مضبوط ہو گی، بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے، اور اب اس میں ایک نئی دلیل کا اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ اس ایک مثبت پہلو کے ساتھ ساتھ منفی پہلوئوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ منظم دھاندلی کے الزامات، میڈیا پر سخت ترین پابندیاں، سوشل میڈیا کی ہراسگی، سول سوسائٹی اور جمہوری روایات پر قدغنیں، غیر منتخب قوتوں کی منتخب قوتوں پر مکمل گرفت وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری باتیں جمہوریت کی کمزوری اور اصل اقتدار اور فوائد کی عوام تک منتقلی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اندرونی حالات میں جہاں جمہوریت کے لئے اچھی خبریں نہیں ہیں وہیں بیرونی حالات بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک تو مغرب اور ہمارے پڑوس میں جمہوریتیں کمزور پڑ رہی ہیں اور آمرانہ رجحانات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور دوسرے پاکستان مغربی دائرہ اثر سے چینی دائرہ اثر میں داخل ہو رہا ہے جہاں جمہوریت اوراس سے منسلک بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ جمہوریت کی حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ آمریت کی جدید شکلیں مثلا، فوجی ڈکٹیٹرشپ، سنگل پارٹی ڈکٹیٹرشپ، کنٹرولڈ جمہوریت وغیرہ سازگار حالات ملتے ہی اپنے پنجے گاڑ لیتی ہیں اور پھر اپنے آپ کو حتی الوسع طول دیتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں آمریتوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان ستر سالوں سے میوزیکل چیئر کا کھیل اس لئے چلتا رہا کہ پاکستان مکمل طور پر مغربی دائرہ اثر میں تھا اور مغربی تعلیم، فکر اور طرزِ حکومت کا پاکستانی اشرافیہ کے ذہنوں پر گہرا اثر تھا۔ اگرچہ چینی دائرہ اثر کے باوجود ہماری اشرافیہ کا مغرب کے ساتھ رومانس ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی اسکے ختم ہونے کے مستقبل قریب میں کوئی امکانات ہیں لیکن مغرب کے مقابلے میں چین پر انحصار بڑھنے سے ہماری جمہوریت کو جو خطرات لاحق ہیں انکا مظاہرہ مستقبل قریب میں ہی نظر آ سکتا ہے۔ کنٹرولڈ جمہوریت میں خوش آمدید!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین