• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی بندوبست کے نتیجے میںنئے پاکستان کا سورج طلوع ہو چکا اورعام انتخابات کے ذریعے برپا کی گئی تبدیلی کے سبب عمران خان بہت جلد وزیراعظم منتخب ہوا چاہتے ہیں ۔نئے پاکستان کی مبارکباد سے پہلے مجھے یہ اعتراف کر لینے دیں کہ میرا شمار نئے پاکستان کے مخالفین میں ہوا کرتا تھا لیکن اب چونکہ نیا پاکستان قائم ہو چکا ہے تو مخالفت کا کوئی جواز باقی نہیںرہا۔قیام پاکستان کی مخالفت کرنیوالوں نے بھی تقسیم ہند کے بعد یہ استدلال اختیار کیا تھا کہ مسجد بنانے یا نہ بنانے پر تو مختلف آرا ہو سکتی ہیں لیکن جب مسجد بن جائے تو پھر اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور سب ملکر نماز پڑھنے لگتے ہیں۔لگے ہاتھوں مجھے ایک اور اعتراف بھی کر لینے دیں کہ انتخابات سے متعلق میرے بیشتر تجزیئے ،تخمینے اور اندازے غلط ثابت ہوئے اور کیوں نہ غلط ثابت ہوتے جب’’باغباں تھے برق و شرر سے ملے ہوئے ‘‘۔سچ تو یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج اس قدر تعجب خیز تھے کہ ہارنے والے تو پریشان ہوئے ہی،جیتنے والے بھی دنگ رہ گئے۔ بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ 70کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کاجادو اس قدر سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ وہ کسی ’’کھمبے‘‘ کو ٹکٹ دیتے تو وہ بھی جیت جاتا ، حالیہ انتخابات میں کراچی سے عامر لیاقت حسین کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے دیکھا تو اس روایت پر یقین آگیا فیصل آباد میں فرخ حبیب ایسے نوجوان نے عابد شیر علی کو پچھاڑڈالا ۔شاہد خاقان عباسی ،مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق ،محمود اچکزئی ،آفتاب شیر پائو ،اسفند یار ولی اور فاروق ستار جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی کلین بولڈ ہو گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نہ صرف لیاری سے ہار گئے بلکہ رنراپ کی دوڑ سے بھی باہر ہوگئے ۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان کی کامیابی کا کریڈٹ کسے دیا جائے ؟کس نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا یا بنوایا ؟کیا یہ سب ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے طفیل ممکن ہوا ؟کیا پاکپتن میں بابافرید کی چوکھٹ پر کیا گیا سجدہ متبرک ثابت ہوا یا پھر عمران خان کی کامیابی کا کریڈٹ انکے سیاسی ’’پیرانِ کامل ‘‘ کو دیا جائے جو اس طرح کے ’’چمتکار‘‘ دکھانے کے حوالے سے مشہور ہیں ؟اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ نوازشریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا جو بیا نیہ دیا ،اس کی شکست کا ذمہ دار کون ہے؟آخری سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے پر کاٹنے میںیقیناً وہ عناصر بھی کارفرما ہیں جن کا نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے اور اشاروں کنایوں میں بات کرنا پڑتی ہے مگر تکلف برطرف، نوازشریف کے بیانئے کو سب سے زیادہ ضعف خود مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے پہنچایا ۔اپنے قائدکے ویژن کے مطابق مزاحتمی سیاست کرنے کے بجائے شہبازشریف مسلسل مفاہمتی سیاست کے راستے پر گامزن رہے جس سے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں داخلی انتشار بڑھتا چلا گیا اور یہ دورنگی عام انتخابات میں بدترین شکست کا بنیادی سبب بن گئی ۔اگر سہیل وڑائچ کے الفاظ مستعار لوں تو مسلم لیگ (ن) کا ورکر ’’شہبازیـ‘‘اور ’’نوازی‘‘ فرقوں میں بٹ گیا ۔جب نوازشریف اور مریم نواز گرفتاری دینے کیلئے پاکستان آرہے تھے تو میاں شہبازشریف ان کا استقبال کرنے کیلئے جمع ہونیوالے جم غفیر کو کسی سیاسی مصلحت کے تحت گول دائرے میں گھماتے رہے یہاں تک کہ نواز شریف کا طیارہ ابوظہبی سے لاہور پہنچ گیا مگر شہبازشریف کا قافلہ ایئر پورٹ نہ پہنچ سکا ۔ آپ مسلم لیگ (ن) کی پوری انتخابی اور اشتہاری مہم اٹھا کر دیکھ لیں ،کہیں مریم نواز کی کوئی تصویر یا پوسٹر نظر نہیں آئے گا ۔جتنے ٹی وی کمرشل نشر ہوئے ان سب میں نواز شریف کا ذکر تو ناگزیر تھا کہ اسکے بغیر ووٹ نہ ملتے مگر کسی کمرشل میں مریم نواز کی جھلک تک دکھائی نہ دی۔الیکشن کے دن پولنگ ختم ہونے کے بعد جب منظم دھاندلی کے آثار واضح ہو گئے اور خبر ملی کہ کچھ ہی دیر میں میاں شہباز شریف پریس کانفرنس کرنے والے ہیں تو کچھ لوگوں نے کہا کہ بس اب شہباز جبر ناروا کے سامنے ڈٹ جائے گا۔ لیکن یہ پریس کانفرنس بھی ہومیو پیتھک ثابت ہوئی ۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض کارکن اب بھی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ شہبازشریف منظم ترین دھاندلی کے خلاف کسی روز بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کریں گے لیکن میرا خیال ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے قومی اسمبلی کی دو یا تین نشستیں چھینی گئی ہیں اور وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں مگر جن کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے وہ اب بھی اس کوشش میں ہیں کہ جوڑ توڑ کے نتیجے میں بچا کچھا اقتدار مل جائے ۔شہباز کی پرواز بس یہاں تک ہی ہے کہ جیسے تیسے وہ پنجاب میں حکومت بناکر اپنے فرزند ارجمند حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنوانے میں کامیاب ہو جائیں چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ اداکرنا پڑے ۔حالانکہ اس وقت پنجاب میں کمزور ترین حکومت بنانا بدترین حماقت اور سیاسی غلطی ہو گی جس کیخلاف کسی بھی وقت عدم اعتماد لایا جا سکے گا ۔اسی طرح پیپلز پارٹی بھی اس نازک صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ باالفرض محال اگر اپوزیشن مشترکہ جدوجہد پر آمادہ ہو گئی تو بھی اسے پشت پناہی کی وہ سہولتیں حاصل نہیں ہونگی جو گزشتہ دور حکومت کے دھرنا بازوں کو حاصل تھیں۔
میرا خیال ہے کہ دھاندلی کے الزامات کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انتخابی نتائج کسی بھی ملک و قوم کے اجتماعی شعور کی عکاسی کرتے ہیں ۔پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ملک سنوارنے کاایک موقع دینا چاہتی تھی اب جبکہ یہ موقع ودیعت ہو گیا ہے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے جب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو یہ عذر پیش کیا جاتا تھا کہ چونکہ وفاق میں متحارب حکومت قائم تھی اس لئے ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔اب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی ،بلوچستان میں پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے ساتھ برسراقتدار ہو گی ،مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہو گی ،پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے تاکہ نئے پاکستان کے خاکے میں رنگ بھرنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری یا مشکل نہ ہو ۔دھاندلی سے متعلق شکایات کے حوالے سے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کو اپنے منشور کے مطابق وعدے پورے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ نئے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟اگرچہ محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی جیسے مرنجاں مرج طبیعت کے مالک وزرائے اعظم سے اسٹیبلشمنٹ کی ٹھن گئی لیکن مجھے پوری امید ہے کہ عمران خان کے تعلقات کشیدہ نہیں ہو ں گے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین