• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی تقریرنئے پاکستان کا منظر نامہ تھی مگر اُس تقریر کے تناظر میں کئی فوری پل صراط بھی اُن کے راستے میں کھڑے ہیں ۔مثال کے طور پر یہ فیصلہ کہ وزیراعلیٰ پنجاب علیم خان ہوں یا فواد چوہدری۔بے شک علیم خان نےبہت محنت کی ہے۔ پارٹی پر بہت پیسہ بھی خرچ کیا ہے مگر نیب کی انکوائریز کی موجودگی میں انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کیسے بنایا جا سکتا ہے۔پھرپاناما لیکس میں بھی اُن کا نام شامل ہے ۔ عوام توقع کررہے ہیں کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے علاوہ بھی جن لوگوں کا نام آیا ہے عمران خان اُن سے اِ س ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے۔لوگ کہتے ہیں کہ لاہور میں پی ٹی آئی کو بھرپور فتح نہ حاصل ہونے کا سبب بھی علیم خان ہیں ۔این اے 123پرمہر واجدعظیم کی شکست اورپی پی 145 پر ملک آصف جاوید کی شکست کا تومیں چشم دید گواہ ہوں کہ یہ دونوں شکستیں شعیب صدیقی اور علیم خان کی وجہ سے ہوئی ہیں ۔ایک آزاد امیدوار بیٹھانے کامعاملہ اور نون لیگ کے ایک پورے گروپ کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کا معاملہ اسد عمر بھی جانتے ہیں اورعون چوہدری بھی ۔ہارون الرشید نےاس سلسلے میں پی ٹی آئی کی تمام اہم شخصیات کو میسجز بھی کئے تھے ۔چلیں چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں مگرعلیم خان پہلے اپنے آپ کومکمل طور پر تمام مقدمات سے کلیئر کرائیں اُسکے بعد ا نہیں اُنکی خواہش کے مطابق عہدہ دیا جاسکتا ہے مگر ابھی ایسا ممکن نہیں ۔خان صاحب نئے پاکستان کا آغاز اِس غلط فیصلے سے نہیں کر سکتے ۔
اب آتے ہیں فواد چوہدری کی طرف۔ وہ ہنوزجوان بھی ہیں اورشباب بھی بے داغ ہے یعنی کسی طرح کا کوئی الزام بھی نہیں ہے ۔ضرب بھی کاری لگاتے ہیں ۔جیسی ضلع جہلم میں لگائی ۔کلین سویپ فتح حاصل کی۔میرے خیال میں فواد چوہدری میں پنجاب میں تبدیلی لانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فواد چوہدری ابھی نوجوان ہیں تو وہ اتنے نوجوان بھی نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنی تھیں تو اُن کی عمراس وقت فوادچوہدری سے بھی کم نہیں تھی ۔نواز شریف بھی جب پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے تو اُس وقت فواد چوہدری سے عمر میں چھوٹے تھے ۔
فواد چوہدری کا خاندان بھی قیام پاکستان سے سیاست میں ہے انکے داداچوہدری اویس 1951ءمیں ون یونٹ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے انکے تایا چوہدری الطاف حسین دو مرتبہ گورنر پنجاب رہے ۔کئی بار پارلیمنٹ کے رکن رہے ۔انہوں نے93ء کے سیاسی بحران میں بھی ڈٹ کر نواز شریف کی سیاست کا مقابلہ کیا تھا۔ جسٹس چوہدری افتخار بھی اُنکے چچا تھے ۔میرے خیال میں فواد چوہدری ہی پنجاب میں شریف فیملی کی سیاست کا بھر پور مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ عدلیہ اور وکلا پر اُنکے اثرات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ہارنے والوں کی احتجاجی سیاست کا گڑھ پنجاب ہی ہونا ہے اُن سے کسی طرح نبرد آزما ہونا ہے ۔یہ فواد چوہدری اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہ عمران خان کے وژن کے مطابق پنجاب کو نئے پاکستان میں ڈھال کر دکھانے کا کرشمہ دکھا سکتے ہیں۔
اب تھوڑی سی ہارے ہوئے امیدواروں سے متعلق بھی بات کر لی جائے ۔مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ہارے ہوئے امیدواروں نے حلف نہ اٹھائے کا اعلان کیا ہے ۔وہاں جیتے ہوئے امیدواروں میں سے ایک شہباز شریف تھے انہوں نے اِس سلسلے میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ میں اپنی پارٹی کے مشورے کے بغیر نہیں کر سکتا ۔نون لیگ کے لوگوں کے علاوہ وہاں ایم ایم اے کے سراج الحق، میاں اسلم ، اکرم درانی،لیاقت بلوچ ،شاہ اویس نورانی ،ساجد نقوی۔ اے این پی کے اسفند یار ولی، غلام احمد بلور ۔پختون خوا ملی پارٹی کے محمود اچکزئی ۔نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو۔قومی وطن پارٹی کےآفتاب شیر پائو، پی ایس پی کے مصطفےٰ کمال اور ایم کیو ایم کےفاروق ستارموجود تھے۔فاروق ستار نے بھی کہا ہےکہ ’’مجھےاس بات کا علم نہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کر چکی ہے ۔یعنی وہ بھی غلطی سے وہاں پہنچ گئے تھے ۔مولانا فضل الرحمن نے جمعرات کے روز آ صف زرداری سے تین مرتبہ رابطہ کیا کہ پیپلز پارٹی بھی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرےمگر ناکام رہے۔ انہوں نے ہم خیال پارٹیوں سے کہا ہےکہ پیپلز پارٹی سے کوئی توقع نہ رکھیں ۔اسفند یارولی، شہباز شریف سے مطمئن نہیں تھے ۔انہوں نے ان سے کہا کہ وہ یا تو احتجاج کریں یا اپوزیشن کریں ۔انہوںنےدبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ جلد یا بدیرانہیں اپنے بھائی اوربھتیجی کے پاس اڈیالہ جیل جانا ہی ہے ۔قانون آپ کے تعاقب میں ہتھکڑیاں لے کر دوڑ رہا ہے ۔ہارے ہوئوں نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئےنئے انتخابات کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔حیرت انگیز بات ہے کہ باون نیوز چینلز کے کیمروں کی موجودگی میں دھاندلی ہوئی اور ایک کیمرہ بھی Captureنہ کر سکا۔سوشل میڈیا پر جو دھاندلی کی ویڈیو چلائی گئی وہ دوہزار تیرہ کے انتخابات کی ثابت ہوئی ۔چلانے والے گرفتار ہونیوالے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ ہارنے والے کوئی دھاندلی کا ثبوت پیش کریں اور حلقہ کھلوا لیں بلکہ عمران خان نے تو حلقہ کھلوانے کیلئے دھاندلی کے ثبوت کو بھی ضروری قرار نہیں دیامگر آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بین السطور یہی کہہ رہا ہے کہ جب تک مولانا فضل الرحمن ، سراج الحق، محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی الیکشن جیت نہیں جاتے الیکشن بار بار کرائے جائیں ۔یہ جو پارٹیوں کے سربراہ ہارے ہیں انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ فوری طور پر پارٹیوں کی سربراہی چھوڑ دیتے ۔حیران ہوں اُن پر جن کے پاس دھاندلی کا معمولی سا ثبوت بھی نہیں ہےاور دوبارہ انتخابات کا راگ الاپ رہے ہیں جیسے اکثر بچے کھیل ہارنے پر دوبارہ دوبارہ کاشور مچانے لگتے ہیں ۔چاہتے ہیں کہ دوبارہ ہوں مقابل عشاق ۔ ’کھیل بچوں کا ہوا ‘ کوئی چنائو نہ ہواسب سے زیادہ حیرت محمود اچکزئی پر ہورہی ہے انہوں نے ہارنے کے بعد کوئٹہ میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے ۔’’عوام نے ہمیں مسترد کردیا ہے ہم عوامی فیصلہ قبول کرتے ہیں ‘‘۔پھر کہا کہ ’’میرے حلقہ ء انتخاب میں دس بارہ پولنگ بوتھ کھول دیئے جائیں تو میں مطمئن ہو جائوں گا ‘‘وہ بھی مولا نا فضل الرحمن کی کہانی میں آ گئے ۔غلام احمد بلورنے بھی ایسی ہی بات کی تھی اسفند ولی یار انہیں بھی مجبور کر کے اپنے ساتھ اِس کانفرنس میں لے آئے ۔آدمی کچھ دیرتو اپنے کہے کا پاس رکھتا ہے ۔
نواز شریف نےبھی اڈیالہ جیل سے بڑی دکھ بھری آواز میں کہا ہے کہ ’’الیکشن چوری کرلیا گیا ہے ‘‘ بے شک الیکشن چوری کر لیا گیا ہے مگر یہ چوری کسی اور نے نہیں اِس ملک کے عوام نے کی ہے ۔آپ نے ان کی دولت چوری کی تھی انہوں نے آپ کا الیکشن چرا لیا ہے۔نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں مگر عوام نے انکا بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین