• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ بھی نہ کہا سب کہہ بھی گئے
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار:اپنا گھر ٹھیک نہیں کر سکا، پانی کی قلت عالمی سازش ہے، عدالتی افسران سے خطاب۔ انسان خطا کا پتلا ہے یہ پتلا بعض اوقات سیدھی سمجھ کر الٹی قمیص پہنے سارے شہر کا رائونڈ لگا کر گھر آ جاتا ہے، اور قمیص اسلئے سیدھی نہیں کرتا کہ کسی نے اس سے کہا ہی نہیں ہوتا کہ حضور والا! آپ نے الٹی قمیص پہنی ہوئی ہے، اسکے قریبی یار دوست کو لیگز کوئی بھی اسے صحیح صورتحال سے باخبر نہیں کرتا، کہیں کوئی کھرا سچا ایسا بھی ہوتا ہے جو کہتا ہے پہلے اپنی قمیص تو سیدھی کر لو تمہارے کسی چاہنے والے نے نہیں بتایا کہ قمیص الٹی پہن کر ایک عرصے سے دندناتے پھرتے ہو؟ چیف جسٹس نے بھی سوچا ہو گا کہ پیاسوں، پیاسی زمین کے ساتھ پہلے انصاف ہو گا تو کوئی انصاف کا پیاسا عدالت کا رخ کرے گا، ایک ڈی ہائیڈریٹڈ قوم کیساتھ پہلا انصاف یہ ہے کہ اس کی انتڑیوں اور زمین کو صاف پانی فراہم کیا جائے، ایک دفعہ گھر ٹھیک کرنے کی کوشش ہوئی تھی سندھ طاس معاہدہ کر آئے آج ایک اور پیاس بڑھانے والی خبر ہے کہ بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے ایک اور بجلی گھر کی منظوری دیدی، ہم سمجھتے تھے کہ صوفی یہ کیسی بات کرتا ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو اگر اپنے رب کو پہچاننا چاہتے ہو، اور تصوف کو ترک دنیا سمجھتے رہے، واقعی ہم نے اپنا اپنا گھر ٹھیک نہ کیا، ہر شخص اپنا احتساب کرتا تو نیب ویران ہوتا، عیب ہمارے اندر ہے نیب ہمارے باہر ہے، ہم تو ایک نیب کو بھی کھاتے رہے اور عیب پالتے رہے، آج بھی پانی کی بتدریج قلت واقع ہونے سے بے خبر ہیں، چیف جسٹس نے ہم سب کے نادرست گھروں کو اپنا ویران گھر قرار دے کر انکساری کے لہجے میں خبرداری کی بات کہہ دی، وہ کہتے ہیں ہم نیچے گئے ہیں، اور ہم کہتے ہیں نیچے جا کر بھی سر اٹھا کر خدا کی پیاسی زمین پر تکبر سے چلتے ہیں، وہ کہتے ہیں پانی کی قلت عالمی سازش ہے، ہم کہتے ہیں وطن ہمارا، زمین ہماری، گھر ہمارا اور اس میں بیجا تصرف دشمن کا، عالمی سازش تب کامیاب ہوتی ہے جب ہم اپنے گھر میں ہونیوالی سازش نہیں پکڑتے، منصف اعلیٰ کہتے ہیں اپنا گھر ٹھیک نہ کر سکا، ہم سب اپنا گھر پاکستان ٹھیک نہ کر سکے، چیف جسٹس بھی دراصل یہی کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
اختلاف، اقتدار سے زیادہ طاقتور
آج اقتدار کیلئے دوڑیں لگی ہوئی ہیں اسلئے کہ اختلاف کو کمزور، حقیر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ جو غلطی پکڑتا، روکتا ہے اس سے اقتدار کے ایوان تھر تھر کانپتے ہیں، پھر یہ اقتدار اس قدر پسندیدہ کیوں؟ اسلئے کہ ہم کمزور ہیں طاقت ہی سے کچھ کر سکتے ہیں، حالانکہ بے خبر ہیں کہ اصل طاقت حقیقی اقتدار قوت خداداد دہی ہے، یہ ہے تو سامنے کا ہمالہ بھی ہموار، یہ نہیں تو کشتی نہ پتوار بس منجدھار ہی منجدھار کوئی اقتدار، اختلاف کے بغیر زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔
بچہ کھیلتے کھیلتے اپنی پسند اور طاقت سے آگ میں ہاتھ ڈالنے لگتا ہے تو ماں اختلاف کی قوت سے اس کا ہاتھ روکنے کیلئے جبر کرتی ہے یہ ہے وہ تعمیری جس پرتخریبی اختیار قربان، انسانی دماغ معلم بھی ہے تعلیم بھی مگر ہم اپنی توفیق سے کام نہیں لیتے اور ڈگریاں لے کر بھی جاہل کے جاہل، جیلوں میں جا کر دیکھیں آپ کو کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگریوں کے حامل افراد بکثرت مل جائینگے، مجبوری کا اظہار ایک بیانہ ہے، کوئی بھی مجبور نہیں ہے ماسوا محروم و مفلس کے، کیا ہم محرومی و افلاس کو اسلئے برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اقتدار پر انگلی اٹھے تو کاٹ دی جائے؟ کیا اس ملک میں انسانوں کے حقوق کیلئے اتنی سنجیدگی دکھائی گئی جتنی آج اپنی سیاسی شکست کیلئے دکھا رہے ہیں؟ عمران خان نے پہلی تقریر بڑی اچھی کی سب تعریف کرتے ہیں لیکن یہ تو تھی گفتار کے غازی کی منزل اصل منزل تو کردار کا غازی بننا ہے، ہم نے پانچ برس کیلئے اپنے ووٹ کی حرمت انکے حوالے کر دی اور پانے سے پہلے بہت کچھ کھو دیا اسلئے کہ خوشحالی پالیں، اب ہمارا معاوضہ انکے ذمہ واجب الادا ہے، ہم قرض خواہ وہ مقروض ہیں، جب قرضہ چکائیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے! خوبصورتی کو کمزور سمجھ کر ہر کوئی اس پر جھپٹتا ہے مگر آخری شکست حسن کے ہاتھوں کھاتا اور سر کھجاتا رہ جاتا، جھوٹ سچ بھی بالترتیب بدصورتی و خوبصورتی ہے، بدصورتی ڈرا سکتی ہے مار نہیں سکتی۔
٭٭٭٭
کنگھی، زلف تک جا پہنچی
ہمارے عنوان خیال کو میرؔ نے کیا خوب نبھایا؎
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
سب اسی کی زلف کے اسیر ہوئے
انسان بلاشبہ، طاقتور ہے، صاحب فہم و فراست ہے، با اختیار ہے، خیر و شر میں تمیز جانتا ہے، فولاد بھی ہے ریشم بھی، آنسوئوں کی لذت اور غموں کی تلخی سے بھی آشنا، یہ سب کچھ اسے دیا گیا ہے اسکا ذاتی کچھ بھی نہیں، اشرف یا سوارزل یہ تب بنتا ہے جب یہ اپنے اختیار کو غلط یا صحیح استعمال کرتا ہے، آج اسی حقیقت پر غور کرنے کا وقت ہے اگر قوموں کی صف میں آگے رہنا ہے، پھر امتحان ہے ہم سب کا کہ اپنا سوچتے ہیں یا اپنے ساتھ دوسروں کا بھی، واضح رہے کہ حسین ہونے میں وہ مزا نہیں جو حسین کو دیکھنے میں، گویا ذات کی نفی میں اپنے وجود کا سراغ ہے، ہم گزشتہ ستر برسوں سے کنگھی تو بنتے رہے زلف تک نہیں پہنچے، اب پھر یہ موقع ملا ہے، کہ زلف منت پذیر شانہ ہے، اسلئے وقت ضائع کئے بغیر زلف تک رسائی پائیں مطلب یہ ہے کہ؎
زلفیں سنوارنے سے چلے گا نہ کوئی کام
اٹھئے کہ غریب کی قسمت سنواریئے
ایک بدو تلوار لئے سفر پر گئے ہمسائے کے دروازے پر پہرا دے رہا تھا، کسی نے پوچھا اپنا گھر چھوڑ کر ہمسائے کے گھر کی رکھوالی کیوں کر رہے ہو، بدو نے جواب دیا:اگر ہمسائے کی عدم موجودگی میں اس کا گھر مال عزت لُٹ گیا تو مخالف قبیلے والے مجھے طعنہ دیں گے کہ تم وہی ہو جس کے ہوتے ہوئے اس کے ہمسائے کا گھر لُٹ گیا تو میں اسے کیا منہ دکھائوں گا۔ نگار وطن کی زلف پریشاں ہے، اردگرد کی گستاخ ہوائیں چھیڑ رہی ہیں، ہم کیوں کنگھی کے دندانے بن کر اس کی زلف پریشاں کو نہیں سنوارتے، لفظوں کے پیچ و خم میں بہت سیدھا پن ہوتا ہے کوئی سمجھے تو، کیا بل کھاتی سڑکیں منزل تک نہیں پہنچاتیں؟ مگر سڑکوں پر کوئی چلنے والا بھی تو ہو، کنگھی زلف تک رسائی تو حاصل کرے ’’سفر ہے شرط مسافر نواز بتیہرے!
٭٭٭٭
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
....Oبلاول زرداری بھٹو:الیکشن میں بدترین دھاندلی مگر اسکے بدلے میں غلط روایت نہیں ڈالیں گے۔
پہلی بار لفظ ’’مگر‘‘ اچھا لگا۔
....Oاسد عمر:آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
آپ بھی کہتے ہیں؎
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے مرید ’’آئی ایم ایف‘‘ کہے بغیر
....O غلام سرور خان: وزارت کی نہیں چوہدری نثار کو ہرانے کی خواہش تھی،
آپ کچھ بھی کہیں آپ نے تہہ در تہہ ایک تیر سے دو شکار کئے۔
....Oعلی امین گنڈا پور کی پیشکش:فضل الرحمان دوبارہ الیکشن لڑ لیں۔
پیشکش کم خرچ بالا نشیں ہے۔
....Oبھارتی سابق کرکٹر:عمران خان معاشرے کو دینے والا لیڈر ہے کبھی کچھ لے گا نہیں۔
100فیصد درست مگر ہمارے ایک صحافی دوست نے صبح صبح ان کا ماضی میں انٹرویو کیا تو وہ دہی پر شہد ڈال کر کھاتے رہے اور صحافی کو سُلا بھی نہیں ماری۔
....O سرفراز نواز:عمران کی کامیابی سے پاکستان میں انقلاب آئے گا۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین