• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے وادی کشمیر سے عمران خان کیلئے خلوص اور محبّت بھرا سلام اور ڈھیر ساری مبارک بادیاں۔ یہاں پر آئے روز کی قتل و غارت کی وجہ سے حالات اگرچہ گمبھیر ہی رہتے ہیں مگر خان صاحب کی انتخابی جیت نے کئی روز تک ماحول کو کافی دلچسپ بنایا۔ یہ اسلئے نہیں کہ خان صاحب کے پاس کوئی جادوکی چھڑی ہے جس کے ذریعے وہ پلک جھپکتے میں مسئلہ کشمیر حل کردیں گے بلکہ اسلئے کہ کشمیریوں کی ایک کثیرتعداد بھی انہیں بہتر لیڈر تصّور کرتی ہے جو پاکستان میں کرپشن، اقربا پروری، اشرافیہ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے تسلط کو ختم کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کشمیر میں ذات برادری کی بنیاد پر لوگوں کی وفاداری عام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کے کشمیری ہونے کے دعوےکے باوجود یہاں پاکستان تحریک انصاف اور خاص کر عمران خان کے لئے لوگوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ عمران خان کیلئے یہ خیر سگالی جذبہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کرکٹ کے ساتھ ان کے تعلق کی ہے۔ ہمارے ماضی میں جب عمران خان دنیائے کرکٹ پر چھائے ہوئے تھے تو اسوقت وہ پاک وہند کیساتھ ساتھ کشمیریوں کے دلوں پر بھی راج کرتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ عمران خان کے قد آدم پوسٹر ہماری نسل میں بہت مقبول تھے اور اس زمانے میں ایک دن تو بھارتی قومی اخباروں میں یہ دلچسپ خبر بھی شائع ہوئی کہ کشمیر میں پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں خاص کر عمران خان کی تصاویر بے حد مقبول ہوتی جارہی ہیں جسے پولیس کے تجزیہ کاروں نے کافی تشویشناک قرار دیا تھا۔ اس کے چند سال بعد علاقے میں آزادی پسند عسکریت شروع ہوگئی۔
کشمیر میں عمران خان کی مقبولیت اسوقت دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آئی جب یہاں پہلی بار ایک بین الاقوامی کرکٹ میچ کا انعقاد ہوا۔ 13اکتوبر 1983ء کو سرینگر کے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ایک روزہ میچ ہوا تو دنیا یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ تماشائیوں نے عمران کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں۔ لوگوں نے میدان کے ایک کونے پر صدیوں پرانے ایک مہیب چنار کے درخت کے تنے پر ان کی قد آدم تصویر آویزاں کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی چوکا، چھکا یا کسی مخالف کھلاڑی کو آوٹ کرتے تھے تو میدان میں موجود شائقین عمران خان اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے تھے۔ میچ کے اختتام پر ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائِیو لائیڈ نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ مقابلے کے دوران ان کو ہوم کراوڈ سے بہتر ماحول ملا۔ اسی قسم کی حیرانی بھارتی کرکٹر سنیل گواسکر نے بھی ظاہر کی کہ انہیں پاکستان میں کبھی اس قسم کی مخالفانہ خلقت سے سامنا نہیں پڑاتھا۔ کشمیر میں دوسرا اور آخری بین الاقوامی کرکٹ مقابلہ ستمبر 1986ء بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ایک روزہ میچ کی صورت میں ہوا۔ اگرچہ اس میچ میں زیادہ تر کراوڈ سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اور پیراملٹری فورسز پر مشتمل تھا پھر بھی مقابلے پر عمران خان کا سایہ منڈلاتا رہا۔ اس مقابلے کے بعد کشمیر کے حالات خراب ہونے شروع ہوگئے۔ 1987ء میںصوبائی انتخابات میں بے انتہا دھاندلی کے بعد کشمیری نوجوانوں میں اس قدر غصہ پھیل گیا کہ انھوں نے بندوق کا راستہ اختیار کرلیا۔
تب سے کشمیر کے حالات ہمیشہ ہی کشیدہ اور خونریز رہے ہیں اور اسی مناسبت سے پاک۔بھارت تعلقات میں بھی کشیدگی گھٹتی یا بڑھتی رہتی ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود مسئلہ کشمیر اٹکا ہوا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر ہونے والی تزویراتی تبدیلیوں کی وجہ سے معاملات مزید الجھتے جارہے ہیں اور کشمیریوں کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے دو سال سے قتل و غارت گری میں بےپناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو ہنوز جاری ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ عمران خان نے الیکشن کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں اپنی جو ترجیحات گنوائیں ان میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے۔ عمران خان نے جس سادہ انداز میں اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں بات کی ہے وہ کافی خوش آئند ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ بھارت میں عمران خان کی کامیابی کو نہایت ہی بھونڈے اور وحشت ناک طریقے سے پیش کیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر پاکستان کی نئی حکومت کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ بھارت کیساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں حالات کے سدھارنے کیلئے عمران خان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ مگر اس کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں سیاسی جذباتیت اور نعروں کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پر امن حل پر ہی زور دیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
عمران خان کی کامیابی سے جہاں ایک طرف پاکستان میں اسٹیٹس کو کی حامی سیاسی قوتوں کو دھچکہ لگا ہے وہیں اپنے آپ کو روشن خیال تصّور کرنے والی ان قوتوں میں بھی مایوسی پھیل گئی ہے جن کی کثیر تعداد کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ خواتین و حضرات مغربی این جی اوز سے بلواسطہ یا بلاواسطہ مالی منفعت حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے زمینی حالات سے جان بوجھ کر آنکھیں موند کر خان پر مذہبی شدت پسندوں کے حمایتی اور ان کے ساتھ گٹھ جھوڑ کرنے کے الزامات لگاتے ہیں حالانکہ باقی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اس قسم کے انتخابی اتحاد کرتی آئی ہیں جو اس الیکشن میں بھی کسی سے چھپے نہیں تھے۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ عمران خان کی کامیابی کو بھارت اور مغرب میں کافی تشویش سے دیکھا جارہا ہے۔ اس کی وجہ شدت پسندوں کے ساتھ مبینہ انتخابی اتحاد نہیں بلکہ ماسکو میں مقیم مشہور سیاسی اور سیکورٹی تجزیہ نگار اینڈریو کوریوبو کے بقول اسلئے کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پاکستان بہتری کی طرف بڑھ سکتا ہے جس سے اسکی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ خان کی انتخابی کامیابی پر مغربی میڈیا میں انکے خلاف اسی طرح کے تجزیے اور خبریں سامنے آرہی ہیں جس طرح ترک صدر رجب طیب ایردوان کے بارے میں آتی رہتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترکی میں جولائی 2016ء کی فوجی بغاوت سے قبل مغربی میڈیا میں صدر ایردوان کے خلاف ایک لا متناہی پروپیگنڈہ شروع کیا گیا تھا جو اب بھی حالیہ صدارتی انتخاب سے قبل پورے شد و مد کے ساتھ دوبارہ کیا گیا تھا۔ عمران خان کی انتخابی مہم کے دوران بھی مغربی ذرائع ابلاغ سے ایسا ہی پروپیگنڈہ شروع کیا گیا تھا جس میں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ آثار و قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں یہ پروپیگنڈہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جائیگا اور اسے خان اور اسکی ممکنہ حکومت کیخلاف عوامی بغاوت یا لوگوں میں مایوسی پھیلانے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ماضی میں دنیا کی کئی ایسی حکومتوں کے خلاف ایسا ہی کیا گیا ہے جنہیں مغربی طاقتیں اپنا حریف تصور کرتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین