• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے پہلے کہ اپنی بات شروع کر وں عجب کے استعمال کے دو تین اشعار جو ذہن کو گھیرے ہیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب وصلاں میں دلبرسوں
سوال آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
اور
ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
سوچتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
اپنے کالم کا عنوان اسی لئے عجب رکھا کیونکہ ذہن واقعی بٹا ہوا ہے۔ انگریزی میں تو اسے Consciousness Strean of کہہ سکتا ہوں لیکن اردو میں اس کے لئے کوئی ترجمہ نہیں ہے۔ خیر بات تو ذہن کے بٹنے کی ہے ملکی اور غیر ملکی حالات اور ان کے پاکستان پر اثرات ایک ایسی بحث ہے جس نے صرف میرے نہیں بلکہ تمام پاکستانی قوم کے ذہنوں کو انتشار کا شکار بنایا ہوا ہے۔ ہم اپنے زعم میں رہتے ہوئے دوسروں کی بربادی کی خبروں پر بہت خوش ہوتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے ہوئے کہ اپنے حالات کی اصلاحات کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ ایسی ہی خوشی ہمارے کچھ دوستوں کو آج صبح یہ خبر پڑھ کر ملی ہے کہ امریکہ میں 20 ریاستوں میں علیحدگی کے مطالبے پر درجنوں لوگوں نے دستخط کر دیئے ہیں۔ یہ پٹیشن سب سے پہلے لوزیانا نے سائن کی اور اس کے بعد ٹیکساس، کولو ڈور، جارجیا، انڈیانا، مشی گن، مسی سپی، نیویارک اور اسی طرح کی کئی اور ریاستوں کے رہنے والوں کی طرف سے پیش ہوئی۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جن ریاستوں میں یہ پٹیشن سائن کی گئی ہے یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جہاں مٹ رومنی کو شکست ہوئی اور یہ پٹیشن سائن ہی صدارتی انتخابات میں اوباما کے دوسری بار جیت جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔ ابھی تک 25000 سے زائد سائن والی ریاست گو صرف ٹیکساس ہے لیکن شائد کچھ اور ریاستیں بھی اتنے نمبر اکٹھے کر لیں کہ اوباما انتظامیہ پر لازم ہو جائے گا کہ وہ اس کا جواب دے اور اس پر غور کرے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کی پٹیشن کے نتیجے میں کیا واقعی امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ کیا واقعی امریکی 20 ریاستیں چاہتی ہیں کہ انہیں دیگر ریاستوں سے آزادی مل جائے۔ کیا امریکی نیشنلزم اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ اب اسی کے رہنے والے اکٹھے مل کر نہیں رہ سکتے۔ یہ وہ سوال ہیں کہ جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے چاہئیں اس سے پہلے کہ ہم یہ خوشی منائیں کہ امریکہ تو بس اب ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا ہے۔ حالیہ امریکی انتخابات نے اگرچہ ایک ایسا امریکہ دنیا کی نظروں کے سامنے پیش کیا ہے کہ جہاں گورے اور کالے کی تقسیم پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ جہاں قریباً 67 فیصد امریکی گوروں نے مٹ رومنی کو ووٹ دیا۔ وہاں امریکہ کی اقلیتوں اور رنگ دار لوگوں کی اکثریت نے اوباما کو ووٹ دیا لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 67 فیصد گوروں کی تقریباً اتنی ہی تعداد میں خواتین نے اوباما کو ووٹ دیا۔ کالم رائٹر مورین ڈاڈ کے بقول مٹ رومنی کی سٹرٹیجی بنانے والے تو اب تک شاک میں ہیں کہ انہوں نے جو پلان بنایا تھا وہ کامیاب کیوں نہیں ہوا۔ مٹ رومنی جس نے کروڑوں ڈالر اپنے صدر بننے کے لئے خرچ کر دیئے وہ ہارا کیسے۔ جواب یہ ہے کہ مٹ رومنی اور اس کے ساتھیوں نے جن 50 فیصد لوگوں کو اپنے تئیں امریکی عوام کو یہ سوچ کر لفٹ نہیں کرائی کہ 50 فیصد گورے ووٹوں کو جیت کر وہ بقیہ اقلیتوں پر حکومت کر پائیں گے بھول گئے کہ اب امریکہ میں خواتین ایک اہم رول ادا کرنے والی ہیں۔ شائد امریکی خواتین یہ سوچ کر اوباما کے ساتھ ہو گئیں کہ اس وقت انہیں ہسپانک، کالے اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر گورے مرد کی دھونس کے خلاف کھڑے ہو جانا چاہئے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ خواتین اور دیگر اقلیتوں نے مل کر گورے مردوں کی اکثریت کو ہرا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں یہ گورے مرد رجعت پسند خیالات رکھتے ہیں وہ اقلیتیں اور خواتین لبرل ہیں۔ یہ برابری کے حقوق چاہتے ہیں اور اگرچہ ایسا حق انہیں امریکی قوانین کے تحت حاصل ہے لیکن ان کے خیال ہی مٹ رومنی کے جیتنے کے نتیجے میں رجعت پسندی میں اضافہ ہونے کا امکان تھا۔ گورے مردوں کے مقابلے میں باقی تمام لوگ اکٹھے ہیں اور ان کا اکٹھا ہونا دراصل امریکہ کے اکٹھا رہنے کا جواب ہے۔ 20 ریاستوں کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں گورے مردوں کی ترجمانی تو کر سکتی ہیں لیکن خواتین، ہسپانک، کالے اور دوسری اقلیتیں جنہوں نے یہ حقوق بہت بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کئے ہیں ان کی ترجمانی نہیں کرتیں۔ امریکہ جیسے ملک میں عورتوں اور دیگر اقلیتوں کی اتنی بڑی تعداد کو جھٹلا کر علیحدگی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ تصویر ایک ایسے ملک یعنی امریکہ کی ہے جہاں خواتین کو برابری کے حقوق کے حوالے سے امریکہ اقوام متحدہ میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے اگر یہاں حوالہ پاکستان کا دیا جائے تو خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 158 ہے یعنی ایتھوپیا سے صرف ایک اوپر۔ ہم سے نیچے ممالک میں یمن، افغانستان وغیرہ ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ملالہ جیسی بچیوں کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت دیں اس لئے کہ اگر اس ملک میں ملالہ جیسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو تو ہم بھی یہ امید کر سکیں گے کہ ہمارے ملک میں پہلے شدید انتشار کا شکار ملک میں کچھ امید کی کرن باقی ہے۔ خواتین اکٹھی ہو جائیں تو شاید ہمارے انتشار کا کچھ علاج بھی ہو پائے۔
تازہ ترین