• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہنشاہ تغزل حسرت موہانی کا ایک لافانی شعر مجھے بے اختیار یاد آ گیا تھا
الله ری حسنِ یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
شاعر کے تخیلاتی محبوب کے جمال سے شاید ہی آنکھوں کی تشنگی بجھی ہو جب کہ میری آنکھوں نے 12نومبر کی سہ پہر کو خوبصورت جذبوں کی سرشاریوں اور جواں آوازوں کی سحر کاریوں میں ڈوبتے دیکھا ہے۔ بلامغالبہ دس پندرہ ہزار طلباوطالبات کے شفق گوں چہروں سے لاہور کا ہاکی سٹیڈیم نغمہٴ شادی بنا ہوا تھا۔ حکومت پنجاب گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے نوجوانوں کی شخصیت نکھارنے اور اُنہیں قومی جذبوں سے سرشار کرنے کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی آئی ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے نوجوانوں نے لاہور کے یوتھ فیسٹیول میں پاکستان کا دنیا میں سب سے بڑا پرچم بنایا اور چالیس ہزار سے زائد طلباوطالبات نے مل کر پاکستان کا ترانہ گایا جس نے ہماری قومی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف یہ راز پا چکے ہیں کہ نوجوان ہی پاکستان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں اور اُن کے مقدر کے ستارے کو درخشندہ بنانا ازبس لازم ہے چنانچہ وہ خود بھی دن رات جواں ہمتی کا ثبوت دیتے، دوسروں کو بھی پابہ رکاب رکھتے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جِلا دینے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے رہتے ہیں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کے قومی سطح پر اعتراف اور حوصلہ افزائی کی جو روایت دس برس پہلے ”کاروانِ علم فاوٴنڈیشن“ نے قائم کی تھی اِسے اُنہوں نے بے پناہ وسعت دی ہے اور تمام صوبوں کے پوزیشن ہولڈرز کی قدر افزائی کا فریضہ وہ خود بڑے ذوق و شوق سے ادا کر رہے ہیں تاکہ جواں قیادت کو وطن کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی مسلم لیگ نون کے قائد جناب نواز شریف تھے جن کو اُن طلبا اور طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنا تھے جنہوں نے سرکاری یونیورسٹیوں کی شام کی کلاسز میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی۔ اِس کے علاوہ اُن دس ہزار نوجوانوں کو یوتھ انٹرن شپ اسکیم کے تحت سرٹیفکیٹ دینا تھے جو اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر لینے کے بعد میرٹ پر تین ماہ کی ٹریننگ کے حق دار قرار پائے تھے۔ حکومت کی سکیم یہ ہے کہ پچاس ہزار نوجوانوں کو سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں تربیت دی جائے تاکہ اُن کے لیے حصولِ روزگار میں آسانی پیدا ہو ۔ انٹرن شپ کے دوران اُنہیں دس ہزار روپے بھی دیئے جائیں گے۔ آگے چل کر یہی افرادی قوت ملکی ترقی میں صحت مند کردار ادا کر سکے گی۔ بادی النظر میں یہ منصوبہ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے تصور پر قائم ہے جس کی کامیابی اور قومی وسائل کے درست استعمال کے لیے نہایت سنجیدہ کوششیں درکار ہوں گی کیونکہ نوجوانوں کی فکری اور اخلاقی نشوونما کے بغیر کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں پا سکتا۔ ایک زمانے میں یہ کام اسلامی جمعیت طلبہ سر انجام دیتی تھی اور آج بھی اِس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔جناب عمران خاں اگر کردار سازی کا فریضہ ادا کرتے ہیں تو یہ قوم کے حق میں یقینا بہت اچھا ہو گا۔
اس دو گھنٹے کی تقریب میں نوجوانوں کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ جب دس پندرہ ہزار اعلیٰ جذبوں سے سرشار نوجوان قومی ترانہ گانے کے لیے کھڑے ہوئے تو وطن کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا اور پوری فضا پر ایک نشاط انگیز کیف طاری ہو گیا۔ آسمان چھو لینے کے نغموں سے نوجوانوں کے اندر بجلیاں کوندنے لگیں اور یوں محسو س ہوا جیسے شعورِ ذات کے دریچے وا ہوتے جا رہے ہوں۔ جب قائد ِ پاکستان جناب نواز شریف خطاب کے لیے سٹیج پر آئے تو وفورِ عقیدت سے لبریز نعرے فاصلوں کی حدود و قیود سے آزاد ہوتے گئے۔ ماحول کے اندر ایک زبردست ارتعاش نے جسم و جاں کو ایک تازگی اور بلا کی توانائی سے معمور کر دیا۔ آواز میں نظم وقار اور اپنائیت کا گداز تھا۔ اس تقریب کی امتیازی شان یہ تھی کہ پنجاب پولیس کے چاق چوبند دستے نے باصلاحیت نوجوانوں کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ جناب نواز شریف نے آغاز ہی میں کہا کہ میں اپنے طور پر آپ کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہوں اگرچہ ماضی میں آئین توڑنے اور منتخب وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں پہنانے والوں کو گارڈ آف آنر پیش کیے جاتے رہے۔ اِس پر نوجوان کھڑے ہو کر دیر تک نواز شریف کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔
اُن کا خطاب حقیقتوں اور جذبوں کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اِس میں روانی شگفتگی اور دل کا ساز چھیڑنے والی وارفتگی تھی۔ اُنہوں نے کہا ہمارے حرص میں ڈوبے ہوئے حکمران ہمارے لیے بدامنی دہشت گردی ہوشربا گرانی اور بحرانوں کی ایک نا ختم ہونے والی یلغار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اگر قوم نے ہم پر اعتماد کیا تو ہم نوجوانوں کے تعاون سے ان ہمالیہ جیسی مشکلات پر قابو پا لیں گے اور پہلی کوشش میں پاکستان کو ایشیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بنائیں گے اور دوسرے مرحلے میں اسے عالمی برادری کے اندر ایک باعزت مقام دلائیں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ قدرت نے ہمارے وطن کو بیش قیمت مادی وسائل اور بے مثال افرادی قوت سے نوازا ہے۔ ہماری حکومت اگر ختم نہ کی جاتی تو آج پاکستان جنوبی کوریا ملائیشیا اور جاپان کی طرح ایک معاشی طاقت بن چکا ہوتا۔ نواز شریف نے پوچھا بتاوٴ ترقی اور خوشحالی کے اِس کٹھن سفر میں میرا ساتھ دو گے تو فلک شگاف نعروں کی صورت میں جواب آیا۔ نواز شریف نے ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون ہمارے گھر میں گزشتہ تیس برسوں سے کام کرتی ہے۔ اُس نے صبح ناشتے پر کہا کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ آج میری بیٹی بھی آپ کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ وصول کرے گی۔ اُس کی بات سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ لوئر مڈل کلاس کی بچیاں بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہیں۔
نوجوانوں اور نواز شریف کے درمیان ایک روحانی رشتہ قائم رہا اور سازِ دل سے زمرے پھوٹتے رہے جن میں پاکیزگی گہرائی اور خوداعتمادی تھی۔ تقریب ختم ہوئی تو میں ہجوم کے اندر اپنے دوستوں سے بچھڑ گیا اور ہاکی اسٹیڈیم کے مین دروازے پر آن کھڑا ہوا جہاں سے طلبا اور طالبات اندر سے باہر آ رہے تھے۔
اُن کے چہرے وفورِ شوق سے دمک رہے تھے اور اُن کی آنکھوں سے امید و یقیں کے شعلے سے لپک رہے تھے۔ میں اُنہیں دیکھتا رہا اور اپنے آپ کو 80 سال کی عمر میں اُس نوجوان کی طرح محسوس کرنے لگا جو 50کی دہائی میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اُس کے بھی اِن طرح دار نوجوانوں کی طرح بہت سارے خواب تھے۔ میری آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو ٹپکنے لگے۔ اُس وقت دل کا عجب ماجرا ہوا تھا۔
رات گھر آیا تو ٹی وی پر کراچی اور کوئٹہ کی خبریں سنیں جن سے روح کو بہت صدمہ پہنچا۔ تب میرے کانوں میں نواز شریف کے یہ الفاظ گونجنے لگے کہ میری تمنا ہے کہ آج کی شام کے مسحور کن مناظر کراچی کوئٹہ پشاور فاٹا اور گلگت بلتستان میں بھی طلوع ہوں اور اُن علاقوں میں خون کی ہولی کے بجائے جواں ہمت نوجوان محبت کے گیت گا سکیں اپنے ہم وطنوں کو تحفظ اور امن کی دولت فراہم کر سکیں اور پاکستان کی تقدیر سنوارنے میں ہراول دستوں کا کام سرانجام دیں۔ میں نے ٹی وی آف کر دیا اور یہ سوچتا رہا کہ خون میں لتھڑے ہوئے اِن مناظر کی صبح شام تشہیر سے جو دہشت پھیلتی ہے اور اُمید کے چراغ گُل ہوتے ہیں اِس پر قدغن لگنی چاہیے۔ میرے دل نے ایک بار پھر عزم کیا کہ اُمید کے روشن چراغ بجھنے نہیں دوں گا اور نوجوانوں کو آواز دیتا رہوں گا کہ وہ اپنے حصے کی شمعیں جلاتے جائیں۔
تازہ ترین