• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات میں ہارنے والی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات اور نتائج خوش دلی سے قبول نہ کرنے کی روایت قیام پاکستان ہی سے چلی آرہی ہے لیکن 2018 کے عام انتخابات کے بعد بعض پارٹیوں کی جانب سے اپنے منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے اور اسمبلیوں سے باہر رہنے کی تجویز اپنی منفرد نوعیت کے اعتبار سے جمہوریت کے لئے خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی تھی جس کا ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے بروقت ادراک کیا اور باہمی مذاکرات کے ذریعے پارلیمنٹ میں جانے اور دوسری جماعتوں کو بھی یہی راستہ اختیار کرنے کی راہ دکھانے کا دانشمندانہ فیصلہ کر کے پاکستان کو سیاسی بحران سے بچا لیا ہے مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کی تحریک پر اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں25جولائی کے انتخابات کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا اور یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ ان جماعتوں کے جو لوگ منتخب ہوئے وہ حلف نہ اٹھائیں، مسلم لیگ ن نے حلف نہ اٹھانے کے معاملہ پر فیصلے کیلئے مہلت حاصل کی اور کانفرنس میں شریک نہ ہونے والی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت پیپلزپارٹی کے ردعمل کا انتظار کیا اتوار کو دونوں جماعتوں کے اعلیٰ سطحی وفود کی ملاقات میں انتخابات کے بعد کی صورت حال کے تفصیلی جائزے کے بعد انتخابی نتائج پر توشدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم حلف نہ اٹھانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں پارٹیوں نے اس متفقہ رائے کا اظہار کیا کہ انتخابات چوری ہو گئے اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو صاف و شفاف رکھنے میں ناکام رہا تاہم پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم نہیں چھوڑنا چاہئےطے کیا گیا کہ انتخابی دھاندلیوں کی نشاندہی پارلیمنٹ میں موجود رہ کر زور شور سے کی جائے اور کوئی غیر قانونی راستہ اختیار نہ کیا جائے، پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات سے قبل مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ اور منتخب پارلیمنٹرینز نے بھی میاں شہباز شریف کی زیر صدارت اپنے اجلاس میں متفقہ طور پر پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے حق میں رائے دی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے وفود کی ملاقات میں الیکشن کمیشن سے استعفے اور دھاندلی کے معاملات کی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ دونوں جماعتوں نےمبینہ انتخابی بے قاعدگیوں کے خلاف احتجاج کے لئے متفقہ حکمت عملی پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے اس مدبرانہ فیصلے کے بعد دوسری پارٹیوں نے بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادگی ظاہر کی، اے این پی اور جماعت اسلامی نے حلف اٹھانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ توقع ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی کل جماعتی کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں اپنے سخت گیر موقف پر نظر ثانی کریں گے پیپلزپارٹی کے وفد نے مولانا سے بھی ملاقات کی ہے اور انہیں پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے، عام انتخابات پارلیمانی جمہوریت کے سسٹم کا حصہ ہیں کوئی جیتتا ہے تو کوئی ہارتا بھی ہے۔جمہوری ملکوں میں ہارنے والے جیتنے والوں کا حق حکمرانی تسلیم کرتے ہیں اور سسٹم کے اندر رہ کر جہاں ضروری ہو ان کی پالیسیوں کی دلائل سے مخالفت کرتے ہیں قائداعظم نے بھی اس وقت کے مروجہ سسٹم کے اندر رہ کر جمہوری طریقے اور ٹھوس دلائل کے ذریعے قیام پاکستان کی جنگ لڑی اور کامیاب ہوئے 2013کے انتخابات میں تحریک انصاف ہاری تھی اس نے بھی دھاندلی کے الزامات لگائے پھر سسٹم کے اندر رہ کر احتجاج بھی کیا اس کے طریق کار پر تو اعتراض کی گنجائش ہے لیکن اس نے اسمبلیوں سے ناطہ نہیں توڑا۔ پھرا نتھک جدوجہد کے نتیجے میں 2018کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اور حکومت سازی کا حق حاصل کیا جہاں تک دھاندلی اور انتخابی بے قاعدگیوں کا تعلق ہے تو ان کے ازالے کے لئے الیکشن ٹریبونلز اور عدالتیں موجود ہیں اس لئے مناسب ہو گا کہ شکایات کی تلافی کے لئے قانونی ذرائع اختیار کئے جائیں اور جمہوری نظام کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا جائے۔

تازہ ترین