• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاسی جماعتوں کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ نااہل یابے ایمان اور سست الوجود کارکن بھی حکمرانی یا حکمراں ٹیم میں شامل ہونے کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس حیثیت میں آنے کا جذبہ یا شوق بنیادی طور پر ایک مثبت ہی رجحان ہے، لیکن ہرارکی میں شامل ہونے کے کچھ تقاضے اور بنیادی شرائط پوری کرنا بھی بہتر گورننس کے لئے ناگزیر۔ جمہوری مزاج کے سیاسی لیڈر بالعموم مروت سے ہی اپنے معاونین کے ساتھ چلتے ہیں۔ قائد میں لچک اور رواداری نہ ہو تو اس کا زاویہ نگاہ آمر کا بننے لگتا ہے۔ سو، انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخاب کے بعد امکانی حکمراں جماعت کی حیثیت حاصل ہو جائے تو ایک جمہوری سیاسی پارٹی کا قائد سخت مشکل میں آجاتا ہے۔ وہ کتنے ہی گروپس، لابیز، قدرآور شخصیات جن کے پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی ہوتے ہیں، کئی اور لحاظ سے قابل قدر پارٹی رہنما اور ورکرز کو مطمئن کرنا اور ناراضگی سے بچانا اور رفع کرنا انتہا کا مشکل اور بوجھل کام ہے۔ ایسے میں فیصلے غلط ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
اب جبکہ پاکستان میں جمہوری و سیاسی عمل چل پڑا ہے۔ انتخابی عمل میں تسلسل پیدا ہوتا جارہا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ کوالٹی پارلیمنٹ، وزارتوں اور صوبائی اسمبلیوں اور کابینہ کے معیار کو بمطابق بنانے کے لئے، اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ پارٹی لیڈر کی نگاہ انتخاب کے بعد جب انہیں کوئی بڑی یا اہم اور حساس ذمے داری سونپی جائے تو وہ اس قابل ہوں کہ اپنی ذمہ داری نبھا سکیں، اپنے روزمرہ فرائض کی انجام دہی بخوبی کرسکیں۔ ان میں عوام کی خدمت اوراپنے اپنے ادارے، محکمہ، شعبہ مستحکم اور عوام دوست بنانے کی صلاحیت کے حامل ہو۔ ان کا ویژن اپنی ذمے داری کے حوالے سے وسیع ہی نہیں منفرد اور قابل بھی ہو۔ وہ کمیونیکیشن اور سرگرمی کی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ پارٹی کے نظام میں ان صلاحیتوں کی پیمائش کا کوئی نہ کوئی فارمولا ہو۔ پارٹی میں ہائی کیلے بر کے سینئر اراکین ، ماہرین اور مشیروں کی کمیٹی لازم ہو، جو مختلف ذمہ داریوں کے لئے مردم شناس اور سسٹم کے مطابق کسی کو منتخب کرنے کے لئے اپنی رائے پورے اعتماد سے دے سکیں اور پارٹی قیادت کو پورے اعتماد سے سفارش کرسکیں کہ ان کی نظر میں فلاں امیدوار کسی مخصوص ذمہ داری نبھانے کے لئے دوسرے امیدواروں کی نسبت زیادہ اہل ہے۔ زیادہ انحطاط تو چنائو کے بنیادی فارمولے یا TOR (ٹرم آف ریفرنس) پر ہی کیا جائے۔ اس طرح شارٹ لسٹنگ کر کے ایک ایک ذمہ داری کے لئے کم از کم تین تین نام پارٹی قائد کو بھیجیں جائیں جو اپنے معتمد مشیروں (جو اس کےاپنے چنے ہوئے ہوں) کے ساتھ مشورہ کر کے مختلف ذمہ داریوں کے لئے حتمی ٹیم تشکیل دیں۔ خواہ یہ کابینہ ہو، ٹکٹوں کی تقسیم یا وزیراعلیٰ اور گورنر جیسے بڑے بااختیار اور اعلیٰ عہدے۔ یہ شریک فیصلہ سازی ہی معیاری گورننس کے لئے مطلوب ٹیم کی تشکیل و تنظیم میں پارٹی قائد پر ناصرف دبائوکو کم کرسکتی ہے بلکہ یہ گورننس کے مطلوب معیار کو بھی ممکن بنائے گی۔ پھر اس سے پارٹی کے اندر گروہ بندی اور اندرونی جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ جو بھی طریق کار پارٹی میں اختیار کیا جائے تما م امیدواروں کو اس کا تابع بنانے کے لئے ان سے پارٹی ڈسپلن کے تحت تحریری Undertakingلی جائے کہ وہ جس ذمہ داری کو سنبھالنے کے امیدوار ہیں، اسی نظام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امیدوار ہیں اور جو بھی نظام فیصلہ کرے گا، اسے خوش اسلوبی سے قبول کریں گے۔ جو Undertaking دینے پر تیار نہ ہو، اسے کسی بھی عہدے، پوزیشن لینے کا نااہل سمجھا جائے۔ طریق کار جو بھی وضح کیا جائے، وہ پارٹی کی مرکزی مشاورتی باڈی (سینٹرل ایگزیکٹو وغیرہ) سے منظور کر کے پارٹی نظام میں شامل کیا جائے۔
حال ہی میں انتخاب سے قبل عمران خان خصوصاً اور دوسری پارٹیوں کے قائدین عذاب کی حد تک اس مرحلے سے گزرے ہیں کہ کسے ٹکٹ دیں اور کسے نہیں۔ انہوں نے کتنی کتنی ناراضگیاں بھی مول لیں اور پھر بھی معیاری انتخاب نہ ہوسکا۔ عمران خان نے تو امیدواروں کوٹکٹوں کی حتمی تقسیم پر آہ بھر کر کہا کہ شکر ہے اس کار محال سے مجھے نجات ملی۔ یہ صورت انتخابی مہم کو بھی ڈسٹرب کرتی ہے اور تشکیل حکومت کے مرحلے کو بھی جب اور بہت سے حساس کام جنگی بنیاد پر کرنے ہوتے ہیں، جیسے کہ آج کل نمبر گیم جاری ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان دو تین روز کے اندر اندر اپنے معتمد اور ہائی کیلے بر اور اعلیٰ دانش کے حامل دس بارہ ساتھیوں کو جو پاکستانی سیاست و حکومت کے ہر ہر پہلو پر صاحب الرائے ہیں، جو اپنے فیصلوں اور رائے کو متعلقہ علم (نالج) سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کو متذکرہ پارٹی نظام ٹھیک کرانے کا ٹاسک دیں اور اسی چھتری میںمعیاری گورننس کے لئے معیاری ٹیموں کی تشکیل دیں۔ یہ کام جنگی بنیاد پر ممکن ہے۔ خود اکیلے یا چند گردونواح معتمدین سے مشاورت کر کے اتنی حساس اور وسیع فیصلہ سازی، ایک پرخطر کام ہے جس کی موجودہ ملکی صورتحال، خصوصاً گورننس کے حوالے سے تو معمولی گنجائش بھی موجود نہیں۔ اس سلسلے میں بیرون ملک مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ماہرین اور پارٹی سے وابستہ اور اس کے خیرخواہ ملکی ٹیکنوکریٹس اور مختلف شعبوں میں اعلیٰ علوم سے آراستہ پاکستانیوں کی خدمات حاصل کرنے پر جتنی جلد توجہ دیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ہر کام خود ہی نمٹانے کے جھنجھٹ سے خود کوآزاد کریں اور بڑے اہداف مقرر کرنے اور ان کے حصول کے لئے پالیسی سازی اور حکمت ہائے عملی کی تشکیل پر توجہ دیں۔ ملک سنگین بحران میں ہے، لیکن ہمت مرداں مدد خدا، واضح طورپر راضی لگ رہا ہے اور پوٹینشل کی بھی کمی نہیں۔ پارٹی نظام وضح ہو جائے اور پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں شامل ہو جائے تو پھر ہر ایک کو دعوت عام ہو کہ جس میں خدمت ملک و قوم کا جذبہ اور اس کے لئے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے تو وہ خود کو پارٹی نظام کے تحت پیش کرے اور قسمت آزمائے۔ آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں، ایک نہیں دوسرے اور دوسرے نہیں تیسرے کام کے لئے نظام کے اندر خود کو آزمائے تو اس سے ہر کارکن، اپنی اپنی خواہش کے مطابق ضرور کہیں نہ کہیں فٹ ہوگا اور پارٹی کو نئے نظام سے چار چاند لگ جائیں۔یہ ماڈل کوئی صرف عمران خان کے لئے ہی نہیں، لیکن انتخابی نتائج کے بعد یہ ان ہی کی سب سے بڑی، فوری اور شدید ضرورت ہے۔ دوسرے سیاسی قائدین خصوصاً پی پی (جس کی سندھ میں پھر حکومت بنتی نظر آرہی ہے) اپنی ٹیم کے چنائو کے روایتی انداز کو چھوڑ کر اس تجویز کو اپنائیں تو پارٹی اور عوام دونوں کو افاقہ ہوگا۔ وما علینا الا البلاغ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین