• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج کل بےحد مصروف ہوگیا ہوں۔ مجھے سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ سرکھجانے کا کام میں نے کالے کوے کو دے دیا ہے۔ الیکشن ہار جانے کے بعد کالا کوا فارغ بیٹھا ہوا تھا۔ بیکار بیٹھا ہوتا تھا میں نے اسے کام سے لگادیا۔ وہ میرا سر کھجاتا رہتا ہے۔ اپنا سرکھجانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی۔ اس قدر مصروف میں زندگی میں پہلے بھی ایک مرتبہ رہ چکا ہوں۔ تب فیلڈ مارشل ایوب خان نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں ہرادیا تھا۔پورا مشرقی پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کررہا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان ون یونٹ میں ضم مغربی پاکستان کے چار صوبوں سندھ،پنجاب، سرحد اور بلوچستان کی کل آبادی سے بڑا تھا۔ ون یونٹ میں ضم پورے کا پورا صوبہ سندھ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کررہا تھا۔ بلوچستان اور آدھا پنجاب محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کررہے تھے۔ مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ صدارتی الیکشن میں فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہار گئی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے والوں نے بڑا شور مچایا تھا۔ الیکشن کے نتائج پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ خوب ہنگامے ہوئے تھے، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں آپ بُرا مت مانیے گا۔ چونکہ میں خود پرلے درجہ کا بھلکڑ ہوں،اس لیے ہر شخص کو بھلکڑسمجھتا ہوں۔ میں محض آپ کو یاد دلوانا چاہتا ہوں کہ ہم سے ہر لحاظ میں آگے نکل جانے والا ہمارا پڑوسی ملک بنگلہ دیش چوبیس برس تک پاکستان کا حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان والوں نے اپنا نیا نام رکھا تھا بنگلہ دیش۔ امید ہے کہ تاریخ کا بھولا بسرا باب آپ کو یاد آگیاہوگا۔
ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں جیت جانے کے بعد میں اچانک بہت مصروف ہوگیا تھا۔ ایک تو میں نے فیلڈ مارشل کی بھرپور حمایت کی تھی۔ تب میں جوان تھا۔ سندھ کے مشہور رہزن ڈاکو دھاڑیل محرم جانوری کا ہم شکل تھا۔ہو بہو مرحوم دھاڑیل لگتا تھا۔ دھاڑیل محرم جانوری پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ محرم جانوری کا ہم شکل ہونے کے ناطے سندھ کے دھاڑیل میری عزت کرتے تھے۔ میری بات سنتے تھے اور میری بات مانتے تھے۔ میرے کہنے پر سندھ کے تمام دھاڑیلوں نے صدارتی الیکشن میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو ووٹ دیا تھا۔ اور فیلڈ مارشل ایوب خان کامیاب ہوگیا تھا اور ایوب خان کے کامیاب ہونے کے بعد میں بہت مصروف ہوگیا تھا۔ مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ تب میں نے ایک مداری سے بندریا خریدلی تھی۔ بندریا میرا سرکھجاتی رہتی تھی اور میں سیاسی نوعیت کے لوگوں کے کام کرتا رہتا تھا۔ جیلوں میں بند چور اچکوں، قاتلوں اور ڈاکوئوں کی سزائیں معاف کرواتا تھا۔ انہیں رہائی دلواتا تھا اور پولیس میں بھرتی کرواتا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ حالیہ الیکشن سے پہلے بھی زندگی میں ایک مرتبہ اس قدرمصروف رہ چکا ہوں کہ مجھے سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ آج کل تقریباً پچپن برس بعد میں زندگی میں دوسری بار اس قدر مصروف ہوگیا ہوں کہ مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔
کپتان عمران خان کی حمایت میں، میں نے دن رات ایک کردیے تھے۔ گھر گھر جاکر میں نے لوگوں کو سمجھایا تھا، ان کو قائل کیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو اپنے سر پر سیاسی سہرا باندھنے دو۔ ایک کھلاڑی کو سیاسی میدان میں اترنے دو۔ ترقی پسند سوچ کو آگے آنے دو۔ سرداروں اور پیر سائیوں کے چنگل سے پاکستان کو نکالو۔فاسٹ بالر کو ووٹ دو۔۔۔ میں نے بڑی محنت کی تھی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لوگوں نے میری بات سنی۔ کپتان کو اپنے قیمتی ووٹوں سے مالا مال کردیا۔مجھے کہنے دیجیے کہ میں اگر دن رات لوگوں کو قائل نہ کرتا، اُن کو آمادہ نہ کرتا تو پھر وہ عمران خان کے حق میں ووٹ بیلٹ بکس میں نہ ڈالتے اور عین ممکن ہے کہ عمران خان ہار جاتے۔ میں نہیں جانتا کہ جب آپ یہ کتھا پڑھ رہے ہوں گے تب عمران خان وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تیاریوں میں ہوں گے، یا پھر حلف اٹھانے کے بعد وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوںگے۔ بہر حال کپتان کے جیت جانے کے بعد میں بہت مصروف ہوگیا ہوں۔ مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔
حاجتمند طرح طرح کی منتیں لیکر میرے پاس آتےہیں۔ اُن کو یقین ہے کہ جب عمران خان فاسٹ بالنگ کیا کرتے تھے، تب میں ان کا وکٹ کیپر ہوتا تھا۔ کرکٹ کھیل میں بالر اور وکٹ کیپر کا آپس میں بہت گہرااور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ میں ان کو سمجھاتا رہتا ہوں کہ میں جب وکٹ کیپنگ کرتا تھا تب عمران خان اس دنیا میں نہیں آئے تھے۔عمران خان کے وکٹ کیپر وسیم باری تھے۔ پھر بھی لوگ اس بھرم میں بندھے ہوئے ہیں کہ عمران خان اور میری آپس میں گاڑھی چھنتی ہے۔ یعنی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ۔ وہ میری معرفت عمران خان سے مراعات نہیں چاہتے۔ وہ ملازمتیں نہیں مانگتے۔ وہ اسکالر شپ نہیں مانگتے۔ وہ پلاٹ پرمٹ اور ٹھیکے نہیں مانگتے۔ آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ لوگ میری معرفت عمران خان سے کیا چاہتے ہیں! ایک بڑھیا کو اپنے بیمار بیٹے کے لیے تعویذ چاہیے۔ وہ سمجھتی ہے کہ کسی نے اس کے بیٹے پر کالا جادو کردیا ہے۔ ایک لڑکی کے والدین چاہتے ہیں کہ میں عمران خان سے ایسا وظیفہ لیکر ان کو دوں کہ جس کے دم کرنے سے منحوس جن انکی بیٹی کا پیچھا چھوڑ دے۔ آسیب زدہ گھروں کے مالک عمران خان سے تعویذ مانگنے آتے ہیں۔ کوئی کاروبارمیں برکت کے لیے تعویذ لینے آتا ہے۔ ان سب کو یقین ہے کہ عمران خان غیب اور غیبات پر دسترس رکھتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین