• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ ’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیں بلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔

.....جام، محبت میں ڈال کر

عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔ ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے ’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

.....جام، محبت میں ڈال کر

پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے، وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔
دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں، دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟

.....جام، محبت میں ڈال کر

اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال، بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں، جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔ اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔
1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔
2۔ دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔
3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔
اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎
رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر
اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین